باذوق
محفلین
ابھی حال ہی میں ہندوستان کے اردو اخبارات میں ترکی کے حوالے سے پانچ کے بجائے تین نمازوں کا فتنہ موضوع بحث رہا۔ حالانکہ عرب ممالک کے اخبارات میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ خود ترکی میں بھی کسی اخبار نے اس فتنے کے متعلق کچھ شائع نہیں کیا حتٰی کہ ترکی کے سب سے بڑے اخبار "زمان" نے بھی اس خبر کو اہمیت نہیں دی۔
تین نمازوں کی خبر ہندوستان میں سب سے پہلے ایک انگریزی اخبار نے دی تھی اور اس خبر پر ہندوستان کا اردو میڈیا غالباً اس قدر متوحش ہوا کہ اس نے ترکی کو "دارالکفر" بنا ڈالا۔
ہندوستان کے اردو میڈیا کو دوسرے ممالک پر ہرزہ سرائی کرنے سے قبل اپنے گھر کی خبر لینی چاہئے۔ یہ خبر غالباً انڈین اردو میڈیا کو نہیں پہنچی کہ :
تین نمازوں کا فتنہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے۔ منکرینِ حدیث کی جانب سے چھوڑے گئے اس شوشے میں سب سے پہلے "عبداللہ چکڑالوی" کا نام آتا ہے۔
خود کو اہلِ قرآن کہلوانے والا یہ گروہ کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی ، مصر میں اور ترکی میں بھی۔ ایسے لوگوں کی ہرزہ سرائی پورے ملک یا پوری دنیا کے مسلمانوں پر صادق نہیں آ سکتی۔
تین نمازوں کی وکالت میں ہندوستان میں "میاں عبدالصمد بدایونی" اور پاکستان میں "غلام احمد پرویز" نے کئی کتابیں تحریر کیں۔
"غلام جیلانی برق" نے "دو اسلام ، دو قرآن" نامی کتاب لکھ کر صحیح احادیث کا ردّ کیا۔
اس کے جواب میں مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد "سرفراز خان صفدر" نے "صرف ایک قرآن" نامی کتاب لکھ کر تمام اعتراضات کا ردّ کیا تھا۔
پاکستان میں "ڈاکٹر عبدالودود" نے بھی اس فتنہ کو اٹھایا تھا مگر "مولانا مودودی" اور "مولانا افتخار بلخی" نے اس کا شافی جواب دیا۔
مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری (مرحوم) نے فتنۂ انکارِ حدیث کے ردّ میں ایک کتاب "انکارِ حدیث کیوں" لکھی تھی۔ اس کے جواب میں خود کو "مسلم بالقرآن" کہلوانے والے منکرِ حدیث "میاں عبدالصمد بدایونی" نے "انکارِ لہو الحدیث کیوں" نامی کتاب تحریر کی۔ اور انہی بدایونی صاحب نے "صلوٰۃ المرسلین" نامی کتاب بھی لکھی جس میں فرمایا کہ : مسلمان آج کل جو نماز پڑھتے ہیں وہ سرے سے غلط ہے۔
مولانا مودودی نے ایک کتاب "سنت کی آئینی حیثیت" تحریر فرمائی تو اسی منکرِ حدیث "میاں عبدالصمد بدایونی" نے 468 صفحات کی ایک کتاب "تحقیق حجتِ حدیث" لکھی۔
عبدالصمد بدایونی کی دونوں کتابیں "انکارِ لہو الحدیث کیوں" اور "تحقیق حجتِ حدیث" ، ہندوستان کے شہر بدایوں سے شائع ہوئیں۔
عباسیہ اسکول (مرادآباد ، ہندوستان) کے پرنسپل عزیز حسن (مرحوم) نے بھی فتنۂ انکارِ حدیث کے ردّ میں دو کتابیں تحریر کی تھیں : "سید الاولین و الآخرین" اور "فتنۂ انکارِ حدیث کا ردّ" !
پاکستان کے گوجرانوالہ میں بھی اس فتنے نے سر اٹھایا جہاں "اقیمو الصلوٰۃ" اور تطہیر الاسلام" نامی دو کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔
ایک اور گروپ "خواجہ عباد اللہ اختر" کی قیادت میں ابھرا جس نے صرف دو وقت کی ہی نمازوں کی وکالت کی۔ معروف منکرِ حدیث غلام احمد پرویز کے مشہور مجلہ "طلوع اسلام" میں اس فکر کو جگہ دی گئی۔ "طلوع اسلام" کی اگست 1950ء کی اشاعت کے صفحہ نمبر 59 پر "خواجہ عباد اللہ اختر" نے لکھا کہ : نماز تو دو ہی وقت کی فرض ہے !
بالکل اسی طرح ایک اور گروپ "لاہوری" اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ وہ اپنا خود کا رسالہ "بلاغ القرآن" شائع کرتا تھا۔ جون 1967ء کی اشاعت اس گروپ نے ایک مضمون شائع کیا جس میں واضح طور پر لکھا گیا :
قرآن سے پانچ وقت کی نمازوں کا پتا نہیں چلتا لیکن ہم پانچ وقت کی ہی نماز پڑھتے ہیں !
ایک اطلاع یہ ہے کہ ہندوستانی شہر "بدایوں" کے محلہ "سرائے فقیر" سے آج بھی انکارِ حدیث کے موضوع پر کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ اور دہلی میں "ملت" کے نام پر قائم پارلیمنٹ کے سربراہ بھی اسی گمراہ نظریہ انکارِ حدیث سے جڑے ہوئے ہیں اور گمراہ کن عنوانات سے اسلام کے نام پر اس نظریے کی تشہیر کر رہے ہیں۔
کاش کہ ہندوستان کے معتبر علماء ، کسی دوسرے ملک پر نکتہ چینی کرنے کے بجائے اپنے ہی گھر میں چلائی جانے والی ان گمراہ کن مہمات کی ردّ و قدح کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کریں۔
نوٹ :
سعودی عرب سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ "اردو نیوز" کے ہفتہ واری سپلیمنٹ "روشنی" کی 28۔ڈسمبر 2007ء کی اشاعت میں شامل دو مضامین کے اہم اقتباسات کے سہارے یہ تحریر ترتیب دی گئی ہے۔
تین نمازوں کی خبر ہندوستان میں سب سے پہلے ایک انگریزی اخبار نے دی تھی اور اس خبر پر ہندوستان کا اردو میڈیا غالباً اس قدر متوحش ہوا کہ اس نے ترکی کو "دارالکفر" بنا ڈالا۔
ہندوستان کے اردو میڈیا کو دوسرے ممالک پر ہرزہ سرائی کرنے سے قبل اپنے گھر کی خبر لینی چاہئے۔ یہ خبر غالباً انڈین اردو میڈیا کو نہیں پہنچی کہ :
کلکتہ میں ایک طرف جہاں پیٹ پالنے کے لیے دُرگا کی مورتیاں بنانے کا کام مسلمان کر رہے ہیں وہیں کم از کم ایک درجن مقامات پر مسلمان دُرگا پوجا کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ خالص مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل ایک گاؤں میں تو دھوم دھام سے اس سال دیوالی بھی منائی گئی۔
تین نمازوں کا فتنہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے۔ منکرینِ حدیث کی جانب سے چھوڑے گئے اس شوشے میں سب سے پہلے "عبداللہ چکڑالوی" کا نام آتا ہے۔
خود کو اہلِ قرآن کہلوانے والا یہ گروہ کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی ، مصر میں اور ترکی میں بھی۔ ایسے لوگوں کی ہرزہ سرائی پورے ملک یا پوری دنیا کے مسلمانوں پر صادق نہیں آ سکتی۔
تین نمازوں کی وکالت میں ہندوستان میں "میاں عبدالصمد بدایونی" اور پاکستان میں "غلام احمد پرویز" نے کئی کتابیں تحریر کیں۔
"غلام جیلانی برق" نے "دو اسلام ، دو قرآن" نامی کتاب لکھ کر صحیح احادیث کا ردّ کیا۔
اس کے جواب میں مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد "سرفراز خان صفدر" نے "صرف ایک قرآن" نامی کتاب لکھ کر تمام اعتراضات کا ردّ کیا تھا۔
پاکستان میں "ڈاکٹر عبدالودود" نے بھی اس فتنہ کو اٹھایا تھا مگر "مولانا مودودی" اور "مولانا افتخار بلخی" نے اس کا شافی جواب دیا۔
مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری (مرحوم) نے فتنۂ انکارِ حدیث کے ردّ میں ایک کتاب "انکارِ حدیث کیوں" لکھی تھی۔ اس کے جواب میں خود کو "مسلم بالقرآن" کہلوانے والے منکرِ حدیث "میاں عبدالصمد بدایونی" نے "انکارِ لہو الحدیث کیوں" نامی کتاب تحریر کی۔ اور انہی بدایونی صاحب نے "صلوٰۃ المرسلین" نامی کتاب بھی لکھی جس میں فرمایا کہ : مسلمان آج کل جو نماز پڑھتے ہیں وہ سرے سے غلط ہے۔
مولانا مودودی نے ایک کتاب "سنت کی آئینی حیثیت" تحریر فرمائی تو اسی منکرِ حدیث "میاں عبدالصمد بدایونی" نے 468 صفحات کی ایک کتاب "تحقیق حجتِ حدیث" لکھی۔
عبدالصمد بدایونی کی دونوں کتابیں "انکارِ لہو الحدیث کیوں" اور "تحقیق حجتِ حدیث" ، ہندوستان کے شہر بدایوں سے شائع ہوئیں۔
عباسیہ اسکول (مرادآباد ، ہندوستان) کے پرنسپل عزیز حسن (مرحوم) نے بھی فتنۂ انکارِ حدیث کے ردّ میں دو کتابیں تحریر کی تھیں : "سید الاولین و الآخرین" اور "فتنۂ انکارِ حدیث کا ردّ" !
پاکستان کے گوجرانوالہ میں بھی اس فتنے نے سر اٹھایا جہاں "اقیمو الصلوٰۃ" اور تطہیر الاسلام" نامی دو کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔
ایک اور گروپ "خواجہ عباد اللہ اختر" کی قیادت میں ابھرا جس نے صرف دو وقت کی ہی نمازوں کی وکالت کی۔ معروف منکرِ حدیث غلام احمد پرویز کے مشہور مجلہ "طلوع اسلام" میں اس فکر کو جگہ دی گئی۔ "طلوع اسلام" کی اگست 1950ء کی اشاعت کے صفحہ نمبر 59 پر "خواجہ عباد اللہ اختر" نے لکھا کہ : نماز تو دو ہی وقت کی فرض ہے !
بالکل اسی طرح ایک اور گروپ "لاہوری" اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ وہ اپنا خود کا رسالہ "بلاغ القرآن" شائع کرتا تھا۔ جون 1967ء کی اشاعت اس گروپ نے ایک مضمون شائع کیا جس میں واضح طور پر لکھا گیا :
قرآن سے پانچ وقت کی نمازوں کا پتا نہیں چلتا لیکن ہم پانچ وقت کی ہی نماز پڑھتے ہیں !
ایک اطلاع یہ ہے کہ ہندوستانی شہر "بدایوں" کے محلہ "سرائے فقیر" سے آج بھی انکارِ حدیث کے موضوع پر کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ اور دہلی میں "ملت" کے نام پر قائم پارلیمنٹ کے سربراہ بھی اسی گمراہ نظریہ انکارِ حدیث سے جڑے ہوئے ہیں اور گمراہ کن عنوانات سے اسلام کے نام پر اس نظریے کی تشہیر کر رہے ہیں۔
کاش کہ ہندوستان کے معتبر علماء ، کسی دوسرے ملک پر نکتہ چینی کرنے کے بجائے اپنے ہی گھر میں چلائی جانے والی ان گمراہ کن مہمات کی ردّ و قدح کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کریں۔
نوٹ :
سعودی عرب سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ "اردو نیوز" کے ہفتہ واری سپلیمنٹ "روشنی" کی 28۔ڈسمبر 2007ء کی اشاعت میں شامل دو مضامین کے اہم اقتباسات کے سہارے یہ تحریر ترتیب دی گئی ہے۔