ہندوستانی دوستوں کے نام

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میں نے بھی اسی مشاعرے میں سنی ہے، مگر اس میں بعض جگہ الفاظ سمجھ نہیں آتے ہیں۔
ویسے آخری بند تو بہت ہی کمال ہے

تمہارے دیس میں آ یا ہوں اب کے دوستو
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو چلو
میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے
 

فہیم

لائبریرین
پورا ٹائپ کرلینا چاہیے پھر تو اسے
جو غلطیاں ہونگی وہ تو بعد میں درست ہوسکتی ہیں :)
 

فہیم

لائبریرین
گزر گئے کئی موسم
کئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارو
اداس ہم بھی ہیں
فقط تم ہی کو نہیں رنج چاک دامن
جو سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں
تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
میرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
میرے صراحی و ساغر بھی زرد زرد سے ہیں
نہ تم کو اپنے خدو خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے
نہ سرو میں وہ غرورِ کشیدہ کامتی ہے
نہ کُمریوں کی اداسی میں کوئی کمی آئی
نہ کھل سکے دونوں جانب محبتوں کے گلاب
نہ شاخ امن لیے فاختہ کوئی آئی
تم بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمیں بھی زوم کہ مہا بھارتاں لڑیں تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں
ستم تو یہ ہے کہ دونوں مرزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
ادوں کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے
سو یہ حال ہوا اس درندگی کا اب
شکستہ دست ہو تم بھی شکستہ پاء میں بھی
سو دیکھتا ہوں تم بھی لہو لہان ہوئے
سو دیکھتے ہو سلامت کہاں رہا میں بھی
ہمارے شہروں کی مجبور بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
یہ لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں
بہت دنوں سے ہیں ویراں رفاقتوں کے دیار
بہت اداس ہیں دھر و حرم کی دنیائیں
چلو کہ پھر سے کریں پیار کا سفر آغاز
چلو کہ پھر سے ہم ایک دوسرے کے ہو جائیں
تمہارے دیس میں آ یا ہوں اب کے دوستو​
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے​
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو چلو​
میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے​

 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
گزر گئے کئی موسمکئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارواداس ہم بھی ہیں
فقط تم ہی کو نہیں رنجِ چاک دامانی
جو سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں

تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
میرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
میرے صراحی و ساغر بھی زرد زرد سے ہیں

نہ تم کو اپنے خدو خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے

نہ سرو میں وہ غرورِ کشیدہ قامتی ہے
نہ قُمریوں کی اداسی میں کوئی کمی آئی
نہ کھل سکے دونوں جانب محبتوں کے گلاب
نہ شاخِ امن لیے فاختہ کوئی آئی

تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمیں بھی زعم کہ مہا بھارتاں لڑیں تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں

ستم تو یہ ہے کہ دونوں مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے

سو یہ حال ہوا اس درندگی کا اب
شکستہ دست ہو تم بھی شکستہ پاء میں بھی
سو دیکھتا ہوں تم بھی لہو لہان ہوئے
سو دیکھتے ہو سلامت کہاں رہا میں بھی

ہمارے شہروں کی مجبور بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
یہ لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں

بہت دنوں سے ہیں ویراں رفاقتوں کے دیار
بہت اداس ہیں دیر و حرم کی دنیائیں
چلو کہ پھر سے کریں پیار کا سفر آغاز
چلو کہ پھر سے ہم ایک دوسرے کے ہو جائیں

تمہارے دیس میں آ یا ہوں اب کے دوستو​
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے​
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو چلو​
میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جو جیسا پلے پڑا لکھ دیا۔
اس میں غلطیاں دیکھنا اب بڑوں کا کام :)

سب سے پہلے تو جناب آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے لکھ دی۔
کچھ غلطیاں مجھے بھی سمجھ آئی تھیں، ان کی نشاندہی کر دی ہے۔
باقی مزید ایک دو دفعہ سنوں گا تو وہ بھی دور ہو جائیں گی۔
 

فہیم

لائبریرین
سب سے پہلے تو جناب آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے لکھ دی۔
کچھ غلطیاں مجھے بھی سمجھ آئی تھیں، ان کی نشاندہی کر دی ہے۔
باقی مزید ایک دو دفعہ سنوں گا تو وہ بھی دور ہو جائیں گی۔

اور پھر یہ نظم درست متن کے ساتھ تحریری طور پر بھی دستیاب ہوجائے گی :)
 

الف عین

لائبریرین
گزر گئے کئی موسم
کئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارو
اداس ہم بھی ہیں
فقط تمہی کو نہیں رنج چاک دامن
جو سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں
تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
مرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
مرے صراحی و ساغر بھی زرد زرد سے ہیں
نہ تم کو اپنے خدو خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے
نہ سرو میں وہ غرورِ کشیدہ قامتی ہے
نہ قمریوں کی اداسی میں کوئی کمی آئی
نہ کھل سکے دونوں جانب محبتوں کے گلاب
نہ شاخ امن لیے فاختہ کوئی آئی
تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمیں بھی زعم کہ مہا بھارتیں لڑیں تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں
ستم تو یہ ہے کہ دونوں کے مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے
سو اب یہ حال ہوا اس درندگی کا اب
شکستہ دست ہو تم بھی شکستہ پاء میں بھی
سو دیکھتا ہوں کہ تم بھی لہو لہان ہوئے
سو دیکھتے ہو سلامت کہاں رہا میں بھی
ہمارے شہروں کی مجبور بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
یہ لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں
بہت دنوں سے ہیں ویراں رفاقتوں کے دیار
بہت اداس ہیں دیر و حرم کی دنیائیں
چلو کہ پھر سے کریں پیار کا سفر آغاز
چلو کہ پھر سے ہم اک دوسرے کے ہو جائیں
تمہارے دیس میں آ یا ہوں اب کے دوستو؟؟؟
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو چلو
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے
ایک مصرع سمجھ میں نہیں آیا
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
گزر گئے کئی موسم
کئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارو
اداس ہم بھی ہیں
فقط تمہی کو نہیں رنج چاک دامانی
جو سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں
تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
مرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
مرے صراحی و ساغر بھی زرد زرد سے ہیں
نہ تم کو اپنے خدو خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے
نہ سرو میں وہ غرورِ کشیدہ قامتی ہے
نہ قمریوں کی اداسی میں کچھ کمی آئی
نہ کھل سکے کسی جانب محبتوں کے گلاب
نہ شاخ امن لیے فاختہ کوئی آئی
تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمیں بھی زعم مہا بھارتا لڑی تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں
ستم تو یہ ہے کہ دونوں کے مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے
سو یہ مال ہوا اس درندگی کا اب
شکستہ دست ہو تم بھی شکستہ پاء میں بھی
سو دیکھتا ہوں کہ تم بھی لہو لہان ہوئے
سو دیکھتے ہو سلامت کہاں رہا میں بھی
ہمارے شہروں کی مجبور بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
یہ لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں
بہت دنوں سے ہیں ویراں رفاقتوں کے دیار
بہت اداس ہیں دیر و حرم کی دنیائیں
چلو کہ پھر سے کریں پیار کا سفر آغاز
چلو کہ پھر سے ہم اک دوسرے کے ہو جائیں
تمہارے دیس میں آ یا ہوں دوستو اب کے
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے
ایک مصرع سمجھ میں نہیں آیا

میری قوت سماعت نے کچھ یوں سنا۔
 

الف عین

لائبریرین
اب مکمل درست ہو شاید۔ شکریہ، میں نے سن کر نہیں، محض جن مصرعوں میں شک ہوا تھا، ان کو درست کرنے کی کوشش کی تھی۔
’مہا بھارتا‘ اگر واقعی فراز نے استعمال کیا ہے تو افسوس ہوا کہ یہ لفظ ہندوستانی سے انگریزی میں تلفظ بدل کر گیا اور وہاں سے پھر اردو میں اسی انگریزی تلفظ میں آ گیا!!! اسی طرح جیسے رام کو دو بارہ ہندی اردو میں کوئی ’راما‘ لکھے!!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اب مکمل درست ہو شاید۔ شکریہ، میں نے سن کر نہیں، محض جن مصرعوں میں شک ہوا تھا، ان کو درست کرنے کی کوشش کی تھی۔
’مہا بھارتا‘ اگر واقعی فراز نے استعمال کیا ہے تو افسوس ہوا کہ یہ لفظ ہندوستانی سے انگریزی میں تلفظ بدل کر گیا اور وہاں سے پھر اردو میں اسی انگریزی تلفظ میں آ گیا!!! اسی طرح جیسے رام کو دو بارہ ہندی اردو میں کوئی ’راما‘ لکھے!!

سر اگر سیدھا 02:51 پر لے جائیں ویڈیو کو تو اسی مصرعہ کا آغاز ہوگا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کچھ مزید، جو مجھے سمجھ آئیں۔


گزر گئے کئی موسمکئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارواداس ہم بھی ہیں
فقط تمہی کو نہیں رنجِ چاک دامانی
جو سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں

تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
مرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
مرے صراحی و ساغر بھی گرد گرد سے ہیں

نہ تم کو اپنے خدو خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے

نہ سرو میں وہ غرورِ کشیدہ قامتی ہے
نہ قمریوں کی اداسی میں کچھ کمی آئی
نہ کِھل سکے کسی جانب محبتوں کے گلاب
نہ شاخِ امن لیے فاختہ کوئی آئی

تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمیں بھی زعم مہا بھارتا لڑی تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں

ستم تو یہ ہے کہ دونوں کے مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے

سو یہ 1؎ مآل ہوا اس درندگی کا اب
شکستہ دست ہو تم بھی شکستہ پاء میں بھی
سو دیکھتا ہوں کہ تم بھی لہو لہان ہوئے
2؎ تو دیکھتے ہو سلامت کہاں رہا میں بھی

ہمارے شہروں کی مجبور بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
3؎ جو لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں

بہت دنوں سے ہیں ویراں رفاقتوں کے دیار
بہت اداس ہیں دیر و حرم کی دنیائیں
چلو کہ پھر سے کریں پیار کا سفر آغاز
چلو کہ پھر سے ہم اک دوسرے کے ہو جائیں

تمہارے دیس میں آ یا ہوںدوستو اب کے
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے


1؎ یہاں پہ لفظ مآل آئے گا میرے خیال میں، مال نہیں۔کیونکہ مآل کا مطلب خاتمہ ہے اور مال کا دولت۔ تو مصرع کے مفہوم میں لفظ خاتمہ سمجھ میں آتا ہے مجھے۔
2؎ یہاں مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ لفظ تو ہے یا سو۔
3؎ مجھے لگا ہے کہ پہلی دفعہ میں فراز نے یہ پڑھا ہے جب مکرر میں جو۔

ایک مصرع سمجھ میں نہیں آیا
کون سا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کچھ مزید، جو مجھے سمجھ آئیں۔
1؎ یہاں پہ لفظ مآل آئے گا میرے خیال میں، مال نہیں۔کیونکہ مآل کا مطلب خاتمہ ہے اور مال کا دولت۔ تو مصرع کے مفہوم میں لفظ خاتمہ سمجھ میں آتا ہے مجھے۔
2؎ یہاں مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ لفظ تو ہے یا سو۔
3؎ مجھے لگا ہے کہ پہلی دفعہ میں فراز نے یہ پڑھا ہے جب مکرر میں جو۔

ایک مصرع سمجھ میں نہیں آیا
کون سا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔
میں نے مآل ہی لکھا تھا پر لکھنا نہ آیا۔ یہ لفظ "سو" ہے میرے خیال میں۔ میں دوبارہ سنکر دیکھوں گا ویسے۔
 

الف عین

لائبریرین
میں نے اس مصرع کا کہا تھا
تمہارے دیس میں آ یا ہوں اب کے دوستو
جو اب درست ہو چکا
تمہارے دیس میں آ یا ہوں دوستواب کے
 
Top