محمد بلال اعظم
لائبریرین
احمد فراز کی ایک نظم ہندوستانی دوستوں کے نام
کیا کہیں سے مل سکتی ہے۔
کیا کہیں سے مل سکتی ہے۔
احمد فراز کی ایک نظم ہندوستانی دوستوں کے نام
کیا کہیں سے مل سکتی ہے۔
پورا ٹائپ کرلینا چاہیے پھر تو اسے
جو غلطیاں ہونگی وہ تو بعد میں درست ہوسکتی ہیں
شاباشمیں پھر آج ایسے ہی کرتا ہوں، یہیں پوسٹ بھی کردوں گا۔
گزر گئے کئی موسمکئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارواداس ہم بھی ہیں
فقط تم ہی کو نہیں رنجِ چاک دامانی
جو سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں
تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
میرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
میرے صراحی و ساغر بھی زرد زرد سے ہیں
نہ تم کو اپنے خدو خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے
نہ سرو میں وہ غرورِ کشیدہ قامتی ہے
نہ قُمریوں کی اداسی میں کوئی کمی آئی
نہ کھل سکے دونوں جانب محبتوں کے گلاب
نہ شاخِ امن لیے فاختہ کوئی آئی
تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمیں بھی زعم کہ مہا بھارتاں لڑیں تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں
ستم تو یہ ہے کہ دونوں مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے
سو یہ حال ہوا اس درندگی کا اب
شکستہ دست ہو تم بھی شکستہ پاء میں بھی
سو دیکھتا ہوں تم بھی لہو لہان ہوئے
سو دیکھتے ہو سلامت کہاں رہا میں بھی
ہمارے شہروں کی مجبور بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
یہ لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں
بہت دنوں سے ہیں ویراں رفاقتوں کے دیار
بہت اداس ہیں دیر و حرم کی دنیائیں
چلو کہ پھر سے کریں پیار کا سفر آغاز
چلو کہ پھر سے ہم ایک دوسرے کے ہو جائیں
تمہارے دیس میں آ یا ہوں اب کے دوستونہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئےاگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو چلومیں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے
جو جیسا پلے پڑا لکھ دیا۔
اس میں غلطیاں دیکھنا اب بڑوں کا کام
سب سے پہلے تو جناب آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے لکھ دی۔
کچھ غلطیاں مجھے بھی سمجھ آئی تھیں، ان کی نشاندہی کر دی ہے۔
باقی مزید ایک دو دفعہ سنوں گا تو وہ بھی دور ہو جائیں گی۔
گزر گئے کئی موسم
کئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارو
اداس ہم بھی ہیں
فقط تمہی کو نہیں رنج چاک دامانی
جو سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں
تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
مرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
مرے صراحی و ساغر بھی زرد زرد سے ہیں
نہ تم کو اپنے خدو خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے
نہ سرو میں وہ غرورِ کشیدہ قامتی ہے
نہ قمریوں کی اداسی میں کچھ کمی آئی
نہ کھل سکے کسی جانب محبتوں کے گلاب
نہ شاخ امن لیے فاختہ کوئی آئی
تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمیں بھی زعم مہا بھارتا لڑی تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں
ستم تو یہ ہے کہ دونوں کے مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے
سو یہ مال ہوا اس درندگی کا اب
شکستہ دست ہو تم بھی شکستہ پاء میں بھی
سو دیکھتا ہوں کہ تم بھی لہو لہان ہوئے
سو دیکھتے ہو سلامت کہاں رہا میں بھی
ہمارے شہروں کی مجبور بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
یہ لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں
بہت دنوں سے ہیں ویراں رفاقتوں کے دیار
بہت اداس ہیں دیر و حرم کی دنیائیں
چلو کہ پھر سے کریں پیار کا سفر آغاز
چلو کہ پھر سے ہم اک دوسرے کے ہو جائیں
تمہارے دیس میں آ یا ہوں دوستو اب کے
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے
ایک مصرع سمجھ میں نہیں آیا
اب مکمل درست ہو شاید۔ شکریہ، میں نے سن کر نہیں، محض جن مصرعوں میں شک ہوا تھا، ان کو درست کرنے کی کوشش کی تھی۔
’مہا بھارتا‘ اگر واقعی فراز نے استعمال کیا ہے تو افسوس ہوا کہ یہ لفظ ہندوستانی سے انگریزی میں تلفظ بدل کر گیا اور وہاں سے پھر اردو میں اسی انگریزی تلفظ میں آ گیا!!! اسی طرح جیسے رام کو دو بارہ ہندی اردو میں کوئی ’راما‘ لکھے!!
میں نے مآل ہی لکھا تھا پر لکھنا نہ آیا۔ یہ لفظ "سو" ہے میرے خیال میں۔ میں دوبارہ سنکر دیکھوں گا ویسے۔کچھ مزید، جو مجھے سمجھ آئیں۔
1؎ یہاں پہ لفظ مآل آئے گا میرے خیال میں، مال نہیں۔کیونکہ مآل کا مطلب خاتمہ ہے اور مال کا دولت۔ تو مصرع کے مفہوم میں لفظ خاتمہ سمجھ میں آتا ہے مجھے۔
2؎ یہاں مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ لفظ تو ہے یا سو۔
3؎ مجھے لگا ہے کہ پہلی دفعہ میں فراز نے یہ پڑھا ہے جب مکرر میں جو۔
ایک مصرع سمجھ میں نہیں آیاکون سا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔