ارے ۔۔۔ یہ لڑی تو میں بھول ہی گیا تھا ۔۔۔ شکر ہے کہ ’’بشرطِ یادداشت‘‘ کہہ دیا تھا
- کیا پاکستان میں علماء کو وہی عزت دی جاتی ہے جیسا کہ عزت دی جانی ان کا حق ہے ، علماء سو کے علاوہ۔
آپ کا سوال کچھ پیچیدہ ہے ۔۔۔ کیونکہ ’’جیسا کہ ان کا حق ہے‘‘ کی تعریف پر اختلاف ہوسکتا ہے
(یعنی 22 کروڑ لوگوں کے درمیان)
تاہم بہرحال عوام کی اکثریت اب بھی علما اور ائمہ کا احترام کرتی ہے ۔۔۔ یہ تو شاید نہ کہا جا سکے کہ ’’جیسا ان کا حق ہے‘‘ بعینہ ویسے ہی ۔۔۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں مغربی پراپیگنڈے کا اثر بھی کسی حد تک شامل ہے ۔۔۔ کچھ علمائے سو کی غلطیاں بھی دیگر علما کے احترام میں کمی کا سبب بنتی ہیں ۔۔۔ تاہم بڑی وجہ خود عوام کی اکثریت کی مفلوک الحالی ہے ۔۔۔ لوگ خود اپنے نانِ شبینہ کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہتے ہیں، سو دوسروں کی خاطر اور اکرام کتنا کر پائیں گے ۔۔۔ تاہم اس سب کے باوجود بھی حالات ابھی بالکل ناگفتہ بہ نہیں ۔۔۔ عوام کی اکثریت اب بھی دین سے بھرپور محبت رکھتی ہے سو اسی نسبت سے علمائے دین کی بھی عزت کرتی ہے۔
کیا پاکستان کے بازاروں میں اتنی ہی رونق ہے، جتنی رونق پرانی دہلی کے علاقہ میں ہوا کرتی ہے، یعنی ہر طرف کباب قورمے اور نہاری پایے کا ہوٹل ہی ہوٹل نظر آتا ہے؟
جی ہاں، بالکل ۔۔۔ اور کباب اور قورمے کا تو پوچھیں ہی نہیں ۔۔۔ انہیں تو ویسے بھی ہم کراچی والوں نے چار چاند لگا دیے ہیں (ظاہر ہے کہ گوشت کے معاملے میں ہم مکمل آزاد جو ٹھہرے
)
کراچی کی تقریباً ہر گلی میں ایک ’’دھلی کباب ہاؤس‘‘ مل جاتا ہے ۔۔۔ اس کے علاوہ نہاری ہم صرف نہار منہ نہیں بلکہ کسی بھی وقت کھا سکتے ہیں ۔۔۔ اور کھاتے ہیں
اس کے علاوہ ہندی، افغانی، ایرانی، ترکی، عربی، افریقی ۔۔۔ ہر طرح کے کباب میسر ہیں ۔۔۔ اس کے علاوہ بریانی کا تو کیا کہنا ۔۔۔ یہ تقریبا اب ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ بریانی صرف وہی ہے جو کراچی میں ملتی ہے ۔۔۔ باقی سب مایا ہے
آپ کا کبھی آنا ہوا تو مایوسی نہ ہونے کی گارنٹی ہے (بشرط کہ کراچی آئیں ۔۔۔ بھئی بار بار کراچی کا اس لیے ذکر کرتے ہیں کہ ہم کراچی کے پکوانوں کے معاملے میں ٹوٹلی انتہاپسند ہیں اور کراچی پر کسی کی برتری ہمیں تسلیم نہیں ۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی ایک ایسا شہر ہے کہ جہاں شمال مشرقی ہندوستان کے علاوہ تقریبا پورے برصغیر ،(بلکہ برما تک) کے باشندے بستے ہیں جو اپنا اپنا کلچر یہاں لائے ہیں، جس کی وجہ سے یہ شہر ایک ’’کلچرل میلنٹنگ پوٹ‘‘ بن گیا ہے اور یہاں آپ کو پورے برصغیرے کے ذائقے چکھنے کو مل جائیں گے ۔۔۔ ویسے دوسرے شہر بھی اپنی اپنی سوغاتوں کے لیے مشہور ہیں اور ان کی اپنی ہی بات ہے ۔۔۔ لاہور کی بٹ کڑھائی اور پھجے کے پائے اور کلچے ۔۔۔ پشاور کے چپلی کباب اور چرسی تکہ، کوئٹہ کا نمکین روش ۔۔۔ حیدرآباد کی فرائی مچھلی وغیرہ ۔۔۔)
جہاں تک بازاروں کا تعلق ہے تو شاید بنارس کے باہر بنارسی کپڑوں کا سب سے بڑا بازار کراچی میں ہی ہے۔
کیا اب بھی پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں فحاشی اور عریانیت کم ہے اور اسلامی اقدار کی تضحیک و توہین سرے سے ہی نہیں ہے۔
اس کا جواب میں تو نفی میں دوں گا ۔۔۔ دیگر احباب ہو سکتا ہے کہ اختلاف کریں ۔۔۔ ہمارے میڈیا میں اسلامی اقدار واضح طور پر نشانے پر ہیں اور میڈیا والے چن چن کر ایسے لوگوں کو ہائی لائٹ کرتے ہیں جو اسلامی اقدار کے ناقد ہوں اور ان کا ٹھٹا اڑاتے ہوں۔ عریانی اور فحاشی بھی کچھ کم نہیں ۔۔۔ بہت تھوڑی سی کسر رہ گئی ہے مین اسٹریم میڈیا پر (ویب میڈیا پر وہ بھی باقی نہیں رہی شاید)۔
کیا پاکستان میں بحیثیت مملکتِ خداداد اب بھی معاشرتی طور پر اتنی ہی اسلامی اقدار کی تعظیم و تکریم لحاظ ہے جتنا کہ اس کا حق ہے۔
میرے خیال میں اس سوال کا جواب اوپر آ چکا ہے۔ مختصرا پھر دہرائے دیتا ہوں۔ بحیثیت مجموعی یقینا قدر اور احترام تو اب بھی باقی ہے ۔۔۔ ہاں عمل میں کوتاہیاں ضرور ہیں ۔۔۔ اللہ خیر کرے، کیونکہ اب تو میڈیا کے ذریعے دیسی لبرلز عوام کو گناہوں پر جری ہونے کا سبق پڑھاتے ہیں ۔۔۔ یعنی اگر کسی عمل میں کمی کوتاہی ہو تو اس پر شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں وغیرہ وغیرہ۔