ہندوستان میں اردو کا آنکھوں دیکھا حال :جشنِ اردو سے اردو غائب

rekhta-300x227.jpg
اشرف علی بستوی، نئی دہلی
پندرہ مارچ کو دوسرے روز ہم نے ریختہ کی جانب سے انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں منعقد جشن اردو کی رنگا رنگ تقریب مییں شرکت کی لیکن سبھی مقامات پر منعقد پروگراموں میں اردو رسم الخظ دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں سوائے شاعری کے اس بک لیٹ کے جو سو اشعار کا مجموعہ تھا استقبالیہ پر دستیاب تھا اس کے علاوہ کہیں دور دور تک اردو “اردو” میں نظر نہیں آ رہی تھی جسے دیکھ کر کافی تشویش ہوئی ۔

سامنے ہی چند قدم کی دوری پر پروگرام کے روح رواں ہندوستان میں اپنی بے پناہ اردو دوستی کے لیے اردو حلقوں میں مقبول و معروف سنجیو صراف جی نظر آگئے ہم نے اپنے ایک سینئر جرنلسٹ ساتھی کے ساتھ آگے بڑھ کر ان سے ملکر اس کی وجہ جا ننے کی کو شش کی جواب ملا” یہ اردو کا جشن ہے بھائی” ۔ ہم نے کہا جناب یہ کیسی اردو دوستی ہے کہ اس زبان سے رسم الخط (لباس) ہی چھین لیا جائے یہ سن کر وہ آگے بڑھ گئے ۔

ہمارا مقصد سنجیو صراف جی کی گراں قدر کوششوں کو بے مقصد ہدف تنقید بنانا ہر گز نہیں ہے بلکہ اسے صحیح رخ دینا ہے ۔ اور یہ ہونا چاہیے جہاں کہیں جو اچھا ہو اس کی پذیرائی کی جائے لیکن ، جو نا مناسب لگے اس کی نشان دہی بھی ہونی چاہیے صرف اس لیے کہ وہ کوئی غیر اردو داں کر رہا ہے تو درگذر کر دینا درست نہیں قرار دیا جا سکتا ۔

ہمارے درمیان بھی اردو کے ایسے ادارے ہیں جو طویل عرصے سے ‘بھون ‘ سے اردو کا فروغ کر ہے ہیں انہیں ایک عدد اردو نام دستیاب نہیں ہے ہم نے انہیں بھی ماضی میں متوجہ کر نے کام کیا ہے نیز جہاں کہیں بھی کچھ نظر آئے ہمیں متوجہ کرنا چاہیے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے جو کچھ اچھا ہو اس کی تعریف و پذیرائی ضروری ہے مگر آنکھ بند کر لینا قطعی درست نہیں ہے ۔
 
انتہائی افسوس ہوا یہ سن کر، اردو کا نام لیوابھی اگریہ کچھ کریں توپھر اردو کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ہم ابھی تک فرنگیوں کے غلامی سے نہی نکلے جس کی وجہ سے یہ دیکھنے کو مل رہاہے۔
 
دنیا میں کوئی قوم کسی اور کی زبان سیکھ کر ترقی نہیں کرتی - اور نہ ہی کبھی تاریخ میں ایسا ہوا ہے - مگر بہت سے لوگ اپنے احساس کمتری کو اپنی زبان پر بھی چسپاں کر دیتے ہیں -
 

اوشو

لائبریرین
اسی سلسلہ میں روزنامہ ایکسپریس میں آج "جشنِ ریختہ" کے عنوان سے امجد اسلام امجد کا کالم

جشن ِ ریختہ

الفاظ مٹتے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیوں میں بھی اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اب مثلاً ریختہ کے لفظ کو ہی لے لیجیے جو اردو زبان کے ایک قدیم نام کے طور پر کم و بیش ایک صدی تک مستعمل رہا ہے لیکن آج شاید اردو زبان و ادب سے خصوصی دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ یہ ایک اجنبی لفظ ہو میرؔ نے کہا تھا

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں

اور پھر میرؔ ہی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مرزا غالبؔ نے بھی اسی لفظ کو یوں استعمال کیا کہ

ریختے کے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

لیکن پھر یوں ہوا کہ ہندی‘ ہندوی‘ دکنی‘ ریختہ اور ہندوستانی سے چلتا ہوا اس زبان کا نام اردو طے ہو گیا جو اس وقت دنیا کی تیسری اور بعض اندازوں کے مطابق دوسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے یہ اور بات ہے کہ رسم الخط کی سطح پر اس کا نمبر مسلسل نیچے آتا جا رہا ہے اپنی ذاتی ویب سائٹ رکھنے کے باوجود مجھے ابھی تک اس جدید ٹیکنالوجی سے کچھ زیادہ واقفیت نہیں۔
ایسے میں ’’ریختہ‘‘ ڈاٹ کام‘‘ کا نام تو میرے کانوں میں ضرور پڑا لیکن اسے پہلی بار دیکھنے کا اتفاق کوئی تین ماہ قبل ہوا جب مجھے اس ادارے کی طرف سے ’’جشن ریختہ‘‘ میں شرکت کا دعوت نامہ ملا چند دن بعد اطلاع ملی کہ اس کے ’’سب کچھ‘‘ ایک صاحب سنجیو صراف ہیں جو لاہور آ رہے ہیں۔
پیکیجز والے سید بابر علی صاحب کے دفتر میں ان سے وہ ملاقات طے پائی جس کی معرفت مجھے ایک نئی دنیا سے متعارف ہونے کا موقع ملا سنجیو صراف ایک انجینئر اور کامیاب صنعتکار ہیں جن کے پس منظر میں اردو سے کوئی دور کا تعلق بھی شامل نہیں اس زبان کی چاٹ انھیں کیسے لگی اس کا تو پتہ نہیں چل سکا مگر گزشتہ چند برسوں میں نہ صرف انھوں نے اسے پڑھنا سیکھا بلکہ اس کی محبت میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اس کی ترویج و ترقی کے لیے ایک باقاعدہ ویب سائٹ بنا ڈالی جس میں قدیم اور جدید اردو ادب کا سرمایا اس طرح سے ایک جگہ جمع کر دیا کہ یہ ایک بھرپور اور مستند حوالے کی شکل اختیار کر گئی اور شائقین ادب کے لیے اس کی مثال فیضؔ صاحب کے اس مصرعے جیسی ہو گئی کہ ’’جو آئے‘ آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں‘‘
13,14,15 ماچ کو انھوں نے دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ’’جشن ریختہ‘‘ کے عنوان سے تین روزہ تقاریب کا ایک ایسا سلسلہ ترتیب دیا کہ جسے اگر ’’کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا‘ این جاست‘‘ کہا جائے تو کچھ مبالغہ نہ ہو گا آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے کراچی لٹریری فیسٹیول کی طرح یہاں بھی بیک وقت تین اور بعض چار سیشن ایک ساتھ چلتے رہے ۔
جن میں ادبی مباحث‘ ادیبوں سے ملاقات‘ ضیا محی الدین کی ’’پڑھنت‘‘ داستان گوئی اسٹیج ڈرامے‘ فلم شوز‘ محفل موسیقی اور مشاعرے سمیت کئی رنگ ایک ساتھ اپنی بہار دکھاتے رہے حاضرین کے ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ وافر مقدار میں نشستوں کے باوجود بے شمار لوگوں کو بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی اور انھوں نے کھڑے ہو کر پروگرام کو دیکھا اور سنا جب کہ ایک کھلی جگہ پر آویزاں اسکرین پر بھی یہ پروگرام براہ راست دکھائے جا رہے تھے۔
بیرون ہندوستان سے آئے ہوئے مندوبین کو جشن کے وینیو یعنی انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ٹھہرایا گیا تھا جہاں ریختہ ڈاٹ کام کی انتظامیہ کے افراد ان کی ہر ممکن دیکھ بھال کر رہے تھے جب کہ ماسٹر آف دی شو یعنی سنجیو صراف ایک متبسم چہرے اور اپنی مخصوص شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ ہمہ وقت موجود دکھائی دیے پاکستان سے شرکت کرنے والوں میں انتظار حسین‘ ضیاء محی الدین اور ان کی بیگم اجمل کمال‘ آصف فرخی‘ انور شعور‘ کینیڈا میں مقیم اشفاق حسین‘ استاد حامد علی خاں‘ علی اکبر ناطق‘ فیض صاحب کے نواسے ڈاکٹر علی مدیح ہاشمی اور مجھ سمیت آواری لاہور کے جنرل مینجر اور ادب دوست برادرم قاسم جعفری تھے جو بطور خاص اس محفل میں بطور ایک سامع کے شریک ہوئے ان کے علاوہ دوستان عزیز عثمان اور ثمینہ پیر زادہ سے بھی ملاقات رہی جو وہاں کسی اور پروگرام کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے۔
میرے اور انتظار حسین صاحب کے کمرے کے درمیان ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا کمرہ تھا جو اپنے آپ کو تین چوتھائی مسلمان اور ایک چوتھائی بدھسٹ قرار دیتے ہیں اور آدھی صدی سے امریکا میں مقیم ہونے کے اور انگریزی زبان و ادب کا استاد ہونے کے باوجود اب بھی اردو اور پنجابی میں سوچتے اور بولتے ہیں اور خوب بولتے ہیں۔
13 مارچ کی شام اختتامی تقریب منعقد ہوئی جس کی خاص بات نظامت کرنے والی خاتون (جن کا نام غالباً شگفتہ تھا) کی بہت عمدہ اور سشتہ اردو تھی جس میں صوتی اعتبار سے اس طرح کا کوئی گھپلا نہیں تھا جو پِھر کو فِر اور امجد کو امزد بنا دیتا ہے میزبان خصوصی یعنی سنجیو صراف دورانیے کے اعتبار سے تو چار پانچ منٹ ہی بولے مگر ان کے لہجے کے خلوص اور جذبے کی گرمی نے ایک ایک لفظ میں روشنی بھر دی تھی۔
ان کی گفتگو کا مرکزی نکتہ لفظ ریختہ کے معانی میں موجود وہ جوڑنے والی اور یک رنگی کی کیفیت تھی جس نے اردو کو سارے ہندوستان کی مشترکہ زبان کا درجہ دیا تھا اور جسے بعد میں (سیاسی موشگافیوں کی وجہ سے) محض مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس کے لاتعداد محبت کرنے والوں کو اس کے دائرے میں باہر نکال دیا گیا ۔

(جاری ہے)
 
امجد اسلام امجد صاحب نے بھی دبی زبان ہی میں صحیح رسم خط پر اظہار کیا ہے ، انہیں اس پر زور انداز میں با آواز بلند یہ معاملہ اٹھانا چاہیے تھا ، کیونکہ وہ اس میں بحیثیت مہمان شریک بھی تھے ، کیا ہی اچھی بات ہوتی کہ سنجیو صراف صاحب کو اس جانب متوجہ کر دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر ہم سے جو ہو سکا ہم نے کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا کرے سمجھ میں آجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(یہ اور بات ہے کہ رسم الخط کی سطح پر اس کا نمبر مسلسل نیچے آتا جا رہا ہے اپنی ذاتی ویب سائٹ رکھنے کے باوجود مجھے ابھی تک اس جدید ٹیکنالوجی سے کچھ زیادہ واقفیت نہیں------ امجد اسلام امجد )
 
کم از کم اگر اعلانیہ نہیں تو نجی ملاقات میں امجد صاحب کو یہ معامہ انتظامیہ کے ساتھ ضرور اٹھانا چاہئے تھا۔ ہوسکتا ہے اٹھایا بھی ہو انہوں نے
 

ثاقب عبید

محفلین
اردو کو اس کے اپنے رسم الخط کے ساتھ رواج دینا اور جدید ٹیکنالوجی میں استعمال کرنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ کوشش کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ jashn-e-rekhta اس طرح لکھنا آسان ہوگا مگر حقیقی اردو داں اس کو برداشت نہیں کرسکتا۔

ہمارے درمیان بھی اردو کے ایسے ادارے ہیں جو طویل عرصے سے ‘بھون ‘ سے اردو کا فروغ کر ہے ہیں انہیں ایک عدد اردو نام دستیاب نہیں ہے
چراغ تلے اندھیرا۔
 

arifkarim

معطل
ہم نے کہا جناب یہ کیسی اردو دوستی ہے کہ اس زبان سے رسم الخط (لباس) ہی چھین لیا جائے یہ سن کر وہ آگے بڑھ گئے ۔
قائد اعظم محمد علی جناح کا خیال تھا کہ مملکت خداداد پاکستان میں اگر اردو زبان قومی زبان کے طور پر رائج کر دی جائے تو مختلف لسانی قومیتوں سے بالا تر ہو کر ایک متحد قوم ابھر کر سامنے آئے گی۔ سد افسوس کہ یہاں بھی صوبہ بنگال لسانی فسادات کو بنیاد بنا کر ہم سے الگ ہوگیا۔ ہندو کانگریس تو پہلے ہی دیوناگری ہندی کو بنیاد بنا کر الگ ہو چکی تھی۔ باقی رہی سہی کثر مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کی نااہل حکومتوں نے پوری کر دی۔
 

اوشو

لائبریرین
جشن ریختہ
گزشتہ سے پیوستہ

فرحت احساس نے ریختہ آرگنائزیشن کی تاریخ اغراض و مقاصد اور اب تک کی کارکردگی پر روشنی ڈالی جس کے بعد سنجیو صراف کے والد نے روایتی شمع روشن کر کے جشن کا افتتاح کیا۔
اس شام کا خصوصی پروگرام ریکھا بہار دواج کی صوفیانہ گائیکی پر مشتمل تھا، ریکھا مشہور موسیقار فلم ساز اور ہدایت کار وشال بھار دواج کی بیگم اور دور حاضر کی ایک مقبول گلوکارہ ہیں، دونوں میاں بیوی برادر عزیز گلزار کے قریب ترین حلقہ احباب سے ہیں اور ڈیڑھ سال قبل اس روز میرے غریب خانے پر دوپہر کے کھانے کے لیے مدعو تھے۔
جب گلزار بھائی کو اچانک واپس جانا پڑ گیا اور یوں ہماری ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی اپنے شکاگو والے برادر عزیز عرفان صوفی سے ریکھا جی کا بہت تذکرہ سنا تھا کہ وہ ان تینوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں، دیکھا گیا ہے کہ اکثر پلے بیک سنگرز کو لائیو پرفارمنس کے دوران کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سے قطع نظر ریکھا جی نے بعض آئٹم بہت اچھے گائے اور خوب رنگ جمایا۔
14 مارچ کا پہلا سیشن ہمہ خانہ آفتاب کے منفرد نمایندے اور میرے عزیز دوست جاوید اختر کے ساتھ ایک مکالمہ تھا جس کی میزبانی مشہور افسانہ نگار جو گندر پال کی صاحبزادی سکریتا پال آنند کے ذمے تھی مگر انھیں بولنے کا بہت کم موقع ملا کہ جاوید اختر نے اپنی خوش گفتاری سے ڈائیلاگ کو مونولاگ کی شکل دے دی تھی اور سامعین کو یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ سوا گھنٹہ اس قدر جلد کیسے گزر گیا ہے انھوں نے اپنی گفتگو میں دانش (Wisdom) ذکاوت (Wit) اور برجستہ گوئی کو اس خوب صورتی سے ہم آمیز کیا کہ ان کے جملوں کو اچھے شعروں کی طرح داد ملی مشتے از خروارے کے طور پر کچھ جملے دیکھئے
٭ زبان کی تہہ داری کو پیاز کے چھلکوں سے تشبیہہ دی جاتی ہے مگر بھائی پیاز کسی اور چیز کا نہیں انھی چھلکوں ہی کا نام ہے۔
٭ زبان Region کی ہوتی ہے Religion کی نہیں۔
٭مذہب کو میری طرح چھوڑیں نہیں مگر اس پر اتنا زیادہ زور دینا کم کر لیں۔
٭ آرزوؔ لکھنوی نے اپنے شعری مجموعے ’’سریلی بانسری‘‘ میں اردو میں شامل ہندی الفاظ کو کس مہارت اور خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ
جتنی گہری سانس کبھی تھی اتنی لمبی ہوک گئی
٭شعر بھی بچوں کی طرح ہوتے ہیں اگر وہ بڑے ہو جائیں تو آپ ان کی ذمے داری نہیں لے سکتے۔
میرا پہلا سیشن اردو ادب میں تانیثیت (Feminism) تھا جس کی ماڈریٹر شمس الرحمن فاروقی صاحب کی بیٹی باران فاروقی تھیں اور پینل میں میرے ساتھ سکریتا پال آنند اور ترنم ریاض تھیں عورت کے عورت پن کے اظہار اور جملہ حقوق پر جس قدر کھل کر بات کی گئی وہ کم از کم میرے لیے پریشان کم اور حیران کن زیادہ تھی کہ عورت کے اظہار کی آزادی کے نام پر جن حقوق کا ذکر بہت ہی واشگاف انداز میں کیا گیا وہ میر ے اور ترنم ریاض سمیت بیشتر حاضرین کے لیے بھی غیر متوقع اور ناقابل فہم تھے۔
مشاعرے میں محمد علوی‘ انور شعور‘وسیم بریلوی‘ اشفاق حسین‘ فرحت احساس اور مجھ سمیت کل چھ شاعر تھے، جاوید اختر کو اپنی کسی فوری مصروفیت کے باعث ممبئی واپس جانا پڑ گیا اور ندا فاضلی مبینہ طور پر ایک اور مشاعرہ بھگتانے کے چکر میں وقت پر نہ پہنچ سکے۔
نظامت کے فرائض معین شاداب نے بہت خوش اسلوبی سے انجام دیے، سامعین تعداد اور معیار دونوں اعتبار سے اس قدر عمدہ اور سخن فہم تھے کہ بہت دنوں بعد کسی مشاعرے میں ایسا لطف آیا۔ مزید خوشی اس بات پر ہوئی کہ میرے اور انور شعور کے بہت سے اشعار کئی سامعین کے مطالعے سے گزر چکے تھے۔
15 مارچ کی صبح راجیہ سبھا ٹی وی چینل نے اپنے پروگرام ’’شخصیت‘‘ کے لیے اپنے اسٹوڈیوز میں میرا انٹرویو ریکارڈ کیا میزبان ثمینہ رئیس کے سوالات بہت جچے تلے اور انداز گفتگو بہت خوشگوار تھا انھوں نے مجھے کچھ سابقہ پروگراموں کی DVD,s بھی دیں اور بتایا کہ میرے پروگرام کی DVD بھی پروگرام نشر ہونے کے فوراً بعد تیار کر لی جائے گی جو مجھے محترمہ کامنا پرساد کے جشن بہاراں مشاعرے میں دے دی جائے گی جس کے لیے دو ہفتے بعد مجھے دوبارہ دہلی آنا ہے۔
آخری پروگرام رادھیکا چوپڑہ اور استاد حامد علی خان کی محفل موسیقی تھی حامد علی خان دہلی میں پہلی بار گا رہے تھے مگر جس انداز میں انھوں نے دلی والوں کو اپنی خوب صورت گائیکی سے متاثر کیا اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اب انھیں بار بار یہاں آنا پڑے گا۔
’’جشن ریختہ‘‘ کے درمیان بہت سے پرانے دوستوں اور نئے خیرخواہوں سے ملاقاتیں رہیں جن میں ’’امراؤ جان ادا‘‘ والے مظفر علی کامنا پرساد‘ عبدالکلام قاسمی‘ شافع قدوائی‘ گوپی چند نارنگ‘ شمس رحمان فاروقی‘ جاوید اختر‘ شرودت اور راج کمل اور اشوک صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں کہ یہ سب اپنے اپنے میدانوں کے گنی لوگ ہیں۔
گلزار بھائی‘ اختر آزاد اور ان کے صاحبزادے توصیف سے فون پر خوب گپ شپ رہی جب کہ عدنان سمیع خان سے رابطہ نہ ہو سکا کہ وہ ان دنوں امریکا گئے ہوئے تھے مجموعی طور پر سنجیو صراف اور ان کے ساتھیوں کے اس جشن ریختہ نے جہاں تین دن سربسر اردو کی فضا میں گزارنے کا موقع دیا وہاں یہ سوال بھی بار بار دل و دماغ پر دستکیں دیتا رہا کہ جو سلوک ہم اپنے ملک میں اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں اگر وہ اسی طرح جاری رہا تو ہمیں بھی شاید اس کے احیا کے لیے کسی سنجیو صراف ہی کو تلاش کرنے پڑے گا۔

امجد اسلام امجد ۔ روزنامہ ایکسپریس
 
ایشیا ٹائمز کی خبر کا اثر؛ اردو رسم الخط کے تحفظ کی مہم ملک گیر ہوئی
ایشیا ٹائمز کی خبر کا اثر؛ اردو رسم الخط کے تحفظ کی مہم ملک گیر ہوئی
وقت اشاعت: Thursday 19 March 2015 11:16 am IST
1426746957.jpg

اس واقعے نے ایک بار یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ اب اس پر مکمل اور مدلل کھل کر بحث ہو جانی چاہیے کہ اردو کی رسم خط کے بغیر اردو زبان کا مستقبل کیا ہوگا ؟

نئی دہلی : ایشیا ٹائمز نے 16 مارچ کی اشاعت میں اپنی خصوصی پیش کش میں 'جشن ریختہ' میں' اردو' رسم الخظ کی غیر حاضری پر جو توجہ دہانی کرائی تھی ، خوشی کی بات ہے کہ اس کا ملک کے سنجیدہ صحافی حلقوں نے نوٹس لیا ہے ۔
سینئر صحافی عالم نقوی ، جناب ودود ساجد نے ایشیا ٹائمز کے ساتھ آواز بلند کیا ہے اور اردو رسم الخط کے تحفظ کے حق میں مضا میں تحریر کیا ہے ، ہماری اس مہم میں انگریزی نیوز پورٹل مسلم مررhttp://muslimmirror.com/اردو ٹائمز ممبئی ، اردو چینل http://www.urduchannel.in/نے ایشیا ٹائمز کی اس خبر کو اپنی اشاعت میں اہمیت دی ہے ۔ ہم آپ تمام کے بے حد ممنون و مشکور ہیں ۔


ASia%20Times%20news%20items.jpg


اس واقعے نے ایک بار یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ اب اس پر مکمل اور مدلل کھل کر بحث ہو جانی چاہیے کہ اردو

کی رسم خط کے بغیر اردو زبان کا مستقبل کیا ہوگا ؟

ایشیا ٹائمز کی خبر وہ خبر جس نے اردو رسم الخط کے تحفظ کی مہم ملک گیر ہوئی

http://www.asiatimes.co.in/urdu/%D8%A7%DB%81%D9%85

_%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D9%86/2015/03/5930_

لنک ملاحظہ فرمائیں

روزنامہ خبریں ، نئی دہلی

http://roznamakhabrein.com/previous_

issues/18_03_2015/page_5big.html

روزنامہ جدید خبر ، نئی دہلی

http://www.akhbarurdu.com/jadid_khabar/delhi_08_b.html

اردو چینل ممبئی

http://www.urduchannel.in/archives/172?fb_action_ids=860822917297030&fb_

action_types=news.publishes&fb_ref=pub-standard

مسلم مرر ڈاٹ کام

http://muslimmirror.com/eng/jashn-e-rekhta-celebrating-urdu-without-urdu





- See more at: http://www.asiatimes.co.in/urdu/Latest_News/2015/03/6242_#sthash.UFaADZhA.dpuf
 
Top