ہندوستان میں حکیم سید احمد خان کی کاوشیں اب رنگ لا رہی ہیں

۔
photo.php
1380700_10200522041008574_1853464721_n.jpg


دوستو آج شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم پیدائش یعنی یو م اردو کے موقع پر غالب اکیڈمی میں یو۔نائٹیڈ مسلم آف انڈیا اور اردو ڈیولپمینٹ ارگنائزیشن کی جانب سےایکا پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں کثیر تعداد میں اردو دوستوں نے شرکت کی ۔

ہندوستان میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم پیدائش یوم اردو کے طور پر متعارف کرانے والے حکیم سید احمد خان کی کاوشیں اب رنگ لا رہی ہیں ۔
پروگرام بحسن خوبی روان دواں تھا کی اسی درمیان ایک اردو دوست ، اردو اکیڈمی کی خدمات کا ذکر خیر سن کر انتہائی جذباتی ہو گئے اور اکیڈمی کے خلاف بولنا شروع کیا ، خیر مجلس کے سنجیدہ افراد کی بر وقت مداخلت سے معاملہ فوری طور پر سنبھل تو گیا لیکن جب باری اردو اکیڈمی دہلی کے وائس چیر مین کی آئی تو پھر کیا تھا پروفیسر اختر الواسع صاحب نے ان کی جم کر خبر لی ۔۔۔۔۔
موصوف کی گفتگو بڑی نصیحت آموز رہی ۔۔۔۔۔۔۔

اردو اکیڈمی دہلی کے وائس چیر مین پروگرام کے مہمان خصوصی پروفیسر اختر الواسع کی پر سوز، پرمغز اور پر خلوص تقریر نے ہندوستان میں اردو کے روشن مستقبل کے لیے کوشاں متفکر حلقوں کو خود احتسابی کی دعوت کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی ترغیب شامل تھی ۔پروفیسر صاحب نے موقع کا خوب فادہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کے اردو دوستوں کا کچا چٹھا ۔ سب سامنے رکھ دیا جو اردو زبان کے تئیں لو گوں کی بے حسی ،لاپروائی ،سست روی ،پر آنسوبہا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
1453541_10200522031568338_846793054_n.jpg

پروگرام کی صدارت ہندوستان کے معروف ماہر اقبالیات دہلی یو نیورسٹی کے سابق پروفیسر عبدالحق، آل انڈیا کانگریس کے ترجمان سابق سفیر برائے ترکمانستان میم افضل، وائس امریکہ اردو کے دہلی نمائندے سہیل انجم ، ۔ ضلع کی سرزمین سے تشریف لائے بزرگ شاعر جناب مجیب بستوی نے اردو زبان کے عنوان سے ایک انتہائی دلچسپ نظم پیش کی سینئر صحافی معصوم مرادآبادی، گلزار زتشی دہلوی، سمیت یو نیورسٹیوں سے وابستہ خضرات شریک ہوئے ۔
آج کی گفتگو کا موضوع تھا اردو کا سیاسی کردار ۔ اور قومی زمہ داریاں عنوان کی وضاحت کرتے ہوئے سہیل انجم نے کہا کہ دراصل عنوان آزاد ہندوستان میں اردو کا سیاسی استحصال ہو نا چاہے تھا ۔ اردو کے چاہنے والوں کی یہ مجلس اردو کو دل سے چمٹائے رکھنے کی ہزار قسمیں کھاتے ہوئے عملی اقدامات کے بلند دعووں اور عزائم کے ساتھ چکن بریانی پر اختتام پذیر ہوئی اس وعدے کے ساتھ کہ آئندہ برس پھر ملیں گے کچھ اور نئے عزائم اور شکوے شکایات کے ساتھ ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجیے ۔
اللہ حافظ
 
آخری تدوین:
لیجئے آج ہی کی مناسبت سے غالبا احمد علی برقی صاحب نے یہ نظم کہی ہے ۔۔۔۔۔

یومِ علامہ اقبالؔ کی مناسبت سے منظوم تاثرات
احمد علی برقیؔ اعظمی
اقبالؔ کی غزلوں میں ہے تاب و توانائی
اقبالؔ کی نظموں کا ہر شخص ہے شیدائی
وہ شاعرِ مشرق ہیں اعزاز ہے یہ ان کا
تھی اُن کے تغزل میں گہرائی و گیرائی
سیکھا نہ جنھوں نے کچھ اقبالؔ کے نغموں سے
ہے اُن کے مقدر میں بس ذلت و رسوائی
اب بھی نہیں کچھ بگڑا اب سے وہ سنبھل جائیں
’’لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی‘‘
ملت کے لئے اُن کا پیغام ہے آفاقی
ہم میں نہ رہی باقی کیوں قوتِ گویائی
ہے درسِ عمل اُن کا اک جذبۂ لافانی
اسرارِ حقیقت سے تھی ان کی شناسائی
فطرت نے عطا کی تھی حق گوئی و بیباکی
اقبالؔنہ تھے برقیؔ خاموش تماشائی
 
۔
اردو کو دل سے چمٹائے رکھنے کی ہزار قسمیں کھاتے ہوئے بلند دعووں اور عزائم کے ساتھ اردو دوستوں کی یہ محفل چکن بریانی پر اختتام پذیر ہوئی اس وعدے کے ساتھ آئندہ برس پھر ملیں گے کچھ اور ننئی شکایات کے ساتھ ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجیے ۔
اللہ حافظ
زبردست طنز
 
کل جب یہ پروگرام ہو رہا تھا اس وقت بچہ پارٹی نے آؤٹنگ کا پلان بنا رکھا تھا اس لیے ہم یہاں حاضری دینے سے رہ گئے جس کا افسوس رہے گا۔ :) :) :)
 

شمشاد

لائبریرین
بہت زبردست۔

اشرف بھائی حکیم سید احمد خان کے متعلق اگر کچھ جملے لکھ دیں کہ کون ہیں، ان کا مختصر سا تعارف مل جائے تو جاننے میں آسانی رہے گی۔
 
حکیم سید احمد خان صاحب ۔ کا تعلق اتر پردیش کے ضلع سنت کبیر نگر سے ،ہے یہاں دہلی میں جامعہ نگر میں طویل عرصے سے یونانی ہاسپٹل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں ، ۔ اردو زبان کی ترویج اشاعت ان کی زندگی کا اہم مقصد ہے اردو زبان کی ترقی میں عملی دشواریوں کو دور کرنے کے لیے کوشاں رہنا ان کی ہابی ہے ہندوستان میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم پیائش کو یوم اردو کے طور پر انہوں نے ہی متعارف کرا یا کی گویا یوم اردو کی داغ بیل انہوں نے ہی ڈالی ۔ حیرت کی بات یہ ہے موصوف نام نمود سے کو سوں دور رہتے ہیں ، ہندوستان میں اردو کی سربلندی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا ان کے مزاج کا جزہے ۔ لیکن آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو گی کہ ایک ایسا شخص جو اتنے کام کرتا ہو ہمیشہ کیمرے سے دور رہتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پروگراموں میں اکثر رفقا ء مجلس فوٹو سیشن کے دوران سید صاحب کو تلاش کرتے نظر آتے ہیں ۔ اورکسی بھی پروگرام میں ان کی تصویرنمایاں نہیں ہوتی ۔ سید صاحب کوا سٹیج کی زینت بننا بالکل پسند نہیں ۔
ہندوستان میں اردو کے اس خاموش مگر مخلص خا دم کے لیے گزشتہ دنوں ہفت روزہ اخبار نو نئی دہلی کے دفتر میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے نئے ڈائریکٹر پروفیسر خواجہ اکرام کے اعزاز میں منعقد اعزازیہ میں معروف اردو اسکالر دہلی یو نیورسٹی کے سابق پروفیسر شریف احمد نے کہا تھا کہ ۔ ہماری بس باتیں ہی باتیں ہیں "سید"" کام کرتا ہے
۔
 

x boy

محفلین
جزاک اللہ بھائی
بہت ہی اچھی خبر ہے
لوگ تو کہتے ہیں کہ اردو کو مسلمانوں سے نہیں جوڑنا چاہیے متعدد بار میں نے یہ جملے پڑھے ہیں
جبکہ اردو کو ترقی دینے والے ہی مسلمان ہیں جیسے اس سیمینار کے بینر میں زیر اھتمام گروپ کا نام " یونائیٹڈ مسلم آف انڈیا" ہے
 
Top