اقتباسات ہندوستان کی قدیم اسلامی درسگاہیں - ابو الحسنات ندوی

http://dl.wdl.org/9689/service/9689.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلامی ہندوستان کی تاریخ کے لیے کتابوں اور ماخذوں کی کمی نہیں- تاہم اولا تو اسلئے کہ اس ملک کی آب و ہوا میں اس فن کی نشوونما کی قدرتی صلاحیت نہ تھی - اور ثانیا اس لیے کہ یہاں کا تاریخی مواد یا تو ایرانیوں نے تیار کیا اور یا ہندی نژادوں نے اور دونوں تاریخ کے عربی مذاق سے نا بلد تھے - اس لیے اسلامی سلطنتوں کی تہذیب و تمدن کے واقعات بہت کم ترتیب پائے - اسی دوران میں جب کبھی عرب سیاح کا ادہر گزر ہوا اس نے اپنے ضمنی واقعات کے چند اوراق میں اپنے تاریخی مذاق کے مطابق جو کچھ لکھدیا وہ ایرانی تحریر کے صدہا اوراق سے زیادہ گراں پایہ ہیں سلیمان بصری، بیرونی،مسعودی،مقدسی،ابن بطوطا وغیرہ نے ہندوستان پر جو چند صفحے اپنے سفرناموں میں لکھدیئے ہیں وہ ابتک قابل قدر ہیں- مولانا سید عبدالحی مرحوم (سابق ناظم ندوہ العلماء ) نے اپنی زندگی کے کامل بیس برس ان واقعات کی تلاش و تحقیق میں بسر کئے تب کہیں جا کر ان کو چند جلدوں کا مسالہ ہاتھ آیا - یہ اسی کا اثر تھا کہ ہندوستان کے مایہ ناز مؤرخ حضرت الاستاذ علامہ شبلی مرحوم نے اپنے مضموں مدارس اسلامیہ اور گذشتہ تعلیم میں جہاں دنیائے اسلام کا گوشہ گوشہ چھان مارا وہاں خود اپنے مرزوبوم کے طول و عرض میں علم و تعلیم کی کوئی چہاردیواری انکو نظر نہ آئی حالانکہ اس دیار میں مسلمان اور امراء کی قدر دانیوں سے ہر دور میں علمااور ارباب کمال کے جمگھٹے رہے ہیں- طلبہ اور متعلمین جوق کے جوق دیہاتوں سے لیکر شہروں تک پھیلے رہتے تھے- مدارس اور درسگاہون کا ایک غیر مختمم سلسلہ پنجاب سے لیکر بنگال تک وسیع تھا- ابھی حال میں مصر سے " صبح الاعشی" نام ایک کتاب دس بارہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے - جو مختصر پیمانہ پر اپنے عہد کی انسائکلو پیڈیا ہے - یہ کتاب اسوقت لکھی گئی ہے جب ہندستان میں خاندان تغلق سریر آرا تھا- ہندوستان کے بیان میں ہندوستان کے سیاحوں کی زبانی اس کتاب کا مصنف ناقل ہے کہ " صرف ہند کے پایہ تخت دلی میں ایک ہزار مدرسے قائم تھے" لیکن کیا ہماری تاریخوں میں ان میں سے چند مدرسوں کے نام بھی مل سکتے ہیں؟
بنا بریں اسلامی ہند کے مدارس اور تعلیمگاہوں کی تاریخ ایک مستقل توجہ کی طالب تھی- مدت سے میرا ارادہ اسکی جمع و ترتیب کا تھا لیکن بیچ میں اور اور کام پیش آتے رہے بالاخر میرے اشارہ اور مشورہ سے برادر عزیز مولوی ابو الحسنات ندوی نے اسکی جمع و ترتیب کا کام شروع کیا اور اسکو کامیابی کے ساتھ انجام دیا- ابتدا یہ رسالہ معارف میں ماہوار کئی مہینوں تک مسلسل شائع ہوا اور اب وہ وکیل کی کوشش سے ایک مستقل رسالہ کی اختیار کرتا ہے دعا ہے کہ اللہ تعالے حوصلہ مند مصنف کی مساعی جمیلہ میں برکت اور حسن قبول ارزانی فرمائے آمین
سید سلیمان ندوی
دار المصنفین اعظمگڈہ 5 ذیقعد 1341
 
آخری تدوین:
http://dl.wdl.org/9689/service/9689.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلامی ہندوستان کی تاریخ کے لیے کتابوں اور ماخذوں کی کمی نہیں- تاہم اولا تو اسلئے کہ اس ملک کی آب و ہوا مین اس فن کی نشوونما کی قدرتی صلاحیت نہ تھی -
آب و ہوا کس طرح کی ہونی چاہئیے تاریخ نویسی کیلئے؟

http://dl.wdl.org/9689/service/9689.pdfثانیا اس لیے کہ یہاں کا تاریخی مواد یا تو ایرانیوں نے تیار کیا اور یا ہندی نژادوں نے اور دونوں تاریخ کے عربی مذاق سے نا بلد تھے - اس لیے اسلامی سلطنتوں کی تہذیب و تمدن کے واقعات بہت کم ترتیب پائے - اسی دوران میں جب کبھی عرب سیاح کا ادہر گزر ہوا اس نے اپنے ضمنی واقعات کے چند اوراق میں اپنے تاریخی مذاق کے مطابق جو کچھ لکھدیا وہ ایرانی تحریر کے صدہا اوراق سے زیادہ گراں پایہ ہیں
یہ تاریخ کا عربی مذاق (ذوق) کس طرح کا ہوتا ہے اور یہ ایرانیوں یا ہندیوں کی مرتب کردہ تاریخ سے کیسے مختلف بلکہ گراں پایہ ہے؟
 
آخری تدوین:

ابن عادل

محفلین
تاریخ کے عربی مذاق سے یہ مراد ہے کہ اہل عرب تاریخ کو بھی نہایت مستند انداز سے بیان کرتے آئے ہیں اور وہ امرواقعہ کے بیان پر زور دیتے ہیں جبکہ ہندی وایرانی مذاق میں لفاظی وپیچیدگی نمایاں ہے ۔ لہذا ان کے ہاں تاریخ ،تاریخ کم اور ادب کا شہ پارہ زیادہ معلوم ہوتی ہے ۔ (اقول وقولی ھذا ۔۔۔۔۔)
 
آب و ہوا کس طرح کی ہونی چاہئیے تاریخ نویسی کیلئے؟

یہ تاریخ کا عربی مذاق (ذوق) کس طرح کا ہوتا ہے اور یہ ایرانیوں یا ہندیوں کی مرتب کردہ تاریخ سے کیسے مختلف بلکہ گراں پایہ ہے؟
﷽ جناب میں تو ٹائپنگ کر رہا ہوں اس کتاب یا کتابچے کی :)
باقی اندازے ہی لگانے ہونگے (علم کے بغیر) - حسن ظن سے کام لیکر یا علم سے کام لے کر اس کی وضاحت کی جا سکتی ہے
یہ رائے سید سیلمان ندوی صاحب کی ہے جو اردو ادب کے نامور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور چند قابل قدر کتابوں کے مصنف تھے جن میں سیرت النبی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ربط ویکیپیڈیا
 

تلمیذ

لائبریرین
جہاں تک اس عاجز کا خیال ہے، ’آب و ہوا‘ سےجناب ندوی صاحب کی مراد’ ماحول ‘ یعنی environment ہے۔ واللہ اعلم ۔
 
1341 ہجری سےلیکر اب (1435 ہجری) تک تقریبا 100 سال بنتے ہیں اور پھر سید سلیمان ندوی صاحب کا ادبی مقام، تو ہم لفظی معنی تو ہر گز نہیں لے سکتے - شاید کتاب میں کچھ مزید محاورے موجود ہوں، جو آجکل بدل چکے ہیں یا متروک ہیں
 

زیک

مسافر
اگر یہی اصول شبلی نعمانی اور سلیمان ندوی سیرت کے لئے اپناتے اور صرف غیرمقامی غیرعرب پر انحصار کرتے تو وہ کتنی مختلف کتاب ہوتی
 

فلک شیر

محفلین
1341 ہجری سےلیکر اب (1435 ہجری) تک تقریبا 100 سال بنتے ہیں اور پھر سید سلیمان ندوی صاحب کا ادبی مقام، تو ہم لفظی معنی تو ہر گز نہیں لے سکتے - شاید کتاب میں کچھ مزید محاورے موجود ہوں، جو آجکل بدل چکے ہیں یا متروک ہیں
ناصر بھائی "آب و ہوا "کا یہ استعمال عام ہے اور انہی معنوں میں ہے، جس کے متعلق تلمیذ صاحب نے اشارہ فرمایا ہے۔
 

ابن عادل

محفلین
یہ اقتباس پڑھ کر سید سلیمان ندوی کی عزت کچھ گھٹ سی گئی ہے
یہ حیران کن بات ہے کہ کسی صاحب علم کی رائے پر اس کی عزت میں کمی لائی جائے ۔ آپ کی رائے ان سے الگ ہو سکتی ہے ،آپ کو اختلاف کا حق حاصل ہے لیکن اختلاف دلائل کی روشنی میں ہو ۔ سید سلیمان ندوی تاریخ اور اہل تاریخ کے متعلق عربی وعجمی مزاج میں فرق محسوس کرتے ہیں تو اس میں اخر ایسی کون سی قباحت ہے جس بنا پر اپ کے بقول”عزت گھٹ“ جائے ۔ میدان تحقیق میں رائے دیتے ہوئے ایسے الفاظ کا ستعمال نہایت بھونڈا ہی نہیں بلکہ قائل کی متعلقہ پہلو سے لاعلمی کا بھی پتہ دیتا ہے ۔
کون نہیں جانتا کہ تاریخ کو مستند انداز سے بیان کرنے کے آغاز کا سہرا عربوں کے ہاں جاتا ہے ۔ آپ آج سے چودہ سو سال قبل کی تمام کتب تاریخ اٹھائیے اور ایک طائرانہ نگاہ ڈالیے ۔ اول تو کوئی تاریخ کہیں ملتی ہی نہیں اور جو منتشر اوراق تاریخ کے نام پر پائے جاتے ہیں وہ سوائے خیالی داستانوں کے اور کیا ہے ۔۔۔۔! ہم کسی مواد سے اس عہد کے مزاج ، طرزبودوباش، تہذیب وتمدن الغرض کوئی قابل اعتماد معلومات حاصل نہیں کرسکتے ۔ اگر آپ مجموعہ ہائے احادیث کو بھی تاریخ میں شامل کردیں تو یہ انداز بیاں اور انداز استناد اس عروج پر پہنچ جاتا ہے کہ دور حاضر کے تقاضوں کو بھی مات دے دیتا ہے ۔
اس ساری بحث سے قطع نظر ہم سید صاحب کے بیان پر آجاتے ہی ۔ وہ جس دور کے حوالے سے بات کررہے ہیں اس میں وہ ایسا کیا غلط کہہ گئے ہیں کہ ان کی عزت پر ہاتھ صاف کیے جائیں ۔ جس دور کی تاریخ کے حوالے سے وہ رقم طراز ہیں وہ دور ایسا ہی تھا تاریخ ہند پر ایرانیوں کے اثرات سے کسے انکار ہے اور اس بات سے کون انکاری ہے کہ ایران کا طرز بیان پرشکوہ ، پیچیدہ اور لفاظہ سے بھر پور ہوتاتھا لہذا امر واقعہ کہیں چھپ کے رہ جاتا تھا ۔
بہر طور ان تمام دلائل کے باوجود آپ سید صاحب سے اختلاف کرنا چاہیں تو کریں لیکن ازراہ کرم ان کی عزت کو تاراج نہ کریں میں ان کی جانب سے درخواست گزار ہوں ۔
 
یہ حیران کن بات ہے کہ کسی صاحب علم کی رائے پر اس کی عزت میں کمی لائی جائے ۔ آپ کی رائے ان سے الگ ہو سکتی ہے ،آپ کو اختلاف کا حق حاصل ہے لیکن اختلاف دلائل کی روشنی میں ہو ۔ سید سلیمان ندوی تاریخ اور اہل تاریخ کے متعلق عربی وعجمی مزاج میں فرق محسوس کرتے ہیں تو اس میں اخر ایسی کون سی قباحت ہے جس بنا پر اپ کے بقول”عزت گھٹ“ جائے ۔ میدان تحقیق میں رائے دیتے ہوئے ایسے الفاظ کا ستعمال نہایت بھونڈا ہی نہیں بلکہ قائل کی متعلقہ پہلو سے لاعلمی کا بھی پتہ دیتا ہے ۔
کون نہیں جانتا کہ تاریخ کو مستند انداز سے بیان کرنے کے آغاز کا سہرا عربوں کے ہاں جاتا ہے ۔ آپ آج سے چودہ سو سال قبل کی تمام کتب تاریخ اٹھائیے اور ایک طائرانہ نگاہ ڈالیے ۔ اول تو کوئی تاریخ کہیں ملتی ہی نہیں اور جو منتشر اوراق تاریخ کے نام پر پائے جاتے ہیں وہ سوائے خیالی داستانوں کے اور کیا ہے ۔۔۔ ۔! ہم کسی مواد سے اس عہد کے مزاج ، طرزبودوباش، تہذیب وتمدن الغرض کوئی قابل اعتماد معلومات حاصل نہیں کرسکتے ۔ اگر آپ مجموعہ ہائے احادیث کو بھی تاریخ میں شامل کردیں تو یہ انداز بیاں اور انداز استناد اس عروج پر پہنچ جاتا ہے کہ دور حاضر کے تقاضوں کو بھی مات دے دیتا ہے ۔
اس ساری بحث سے قطع نظر ہم سید صاحب کے بیان پر آجاتے ہی ۔ وہ جس دور کے حوالے سے بات کررہے ہیں اس میں وہ ایسا کیا غلط کہہ گئے ہیں کہ ان کی عزت پر ہاتھ صاف کیے جائیں ۔ جس دور کی تاریخ کے حوالے سے وہ رقم طراز ہیں وہ دور ایسا ہی تھا تاریخ ہند پر ایرانیوں کے اثرات سے کسے انکار ہے اور اس بات سے کون انکاری ہے کہ ایران کا طرز بیان پرشکوہ ، پیچیدہ اور لفاظہ سے بھر پور ہوتاتھا لہذا امر واقعہ کہیں چھپ کے رہ جاتا تھا ۔
بہر طور ان تمام دلائل کے باوجود آپ سید صاحب سے اختلاف کرنا چاہیں تو کریں لیکن ازراہ کرم ان کی عزت کو تاراج نہ کریں میں ان کی جانب سے درخواست گزار ہوں ۔
محترم ، معلومات میں اضافہ کا بہت شکریہ، اگر ایک رائے بغیر دلیل کی دی جاتی ہے تو اس کو نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ابھی آپ نے ایک بہتر طریقہ اختیار کیا اور کوشش کی ہے کہ بات کو واضح کیا جائے -یہ قابل ستائش ہے-
 
میری کوشش ہو گی کہ اس کتاب کے چیدہ چیدہ نکات یا خلاصہ لکھ سکوں، اگر کسی صاحب نے کتاب پڑھی ہے تو وہ اپنی رائے دیں گے تو اس پر بات مزید آگے بڑھ سکے گی
 
آخری تدوین:
Top