تلمیذ
لائبریرین
امریکہ میں مقیم ایک ہندوستانی ماہر لسانیات نے بہار کے بعض اضلاع میں اقلیتی مسلمان برادری میں بولی جانی والی زبان کا ایک نیا لہجہ، جس کا کوئی تحریری ریکارڈ یا نام نہیں ہے، دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
محمد وارثی جو سینٹ لوئیس میں واشنگٹن یونیورسٹی میں لسانیات پڑھاتے ہیں، نے کہا کہ دربھنگہ، مدھوبنی، سماستی پور، بیگوسرائے اور مظفرپور میں رابطے کی مرکزی زبان میتھیلی ہے۔ لیکن جب مسلمان آپس میں بات چیت کرتے ہیں، تو وہ ایک مختلف لہجہ اختیار کرتے ہیں جو میتھیلی، ہندی، اور اردو سے مختلف ہے۔
محمد وارثی جو سینٹ لوئیس میں واشنگٹن یونیورسٹی میں لسانیات پڑھاتے ہیں، نے کہا کہ دربھنگہ، مدھوبنی، سماستی پور، بیگوسرائے اور مظفرپور میں رابطے کی مرکزی زبان میتھیلی ہے۔ لیکن جب مسلمان آپس میں بات چیت کرتے ہیں، تو وہ ایک مختلف لہجہ اختیار کرتے ہیں جو میتھیلی، ہندی، اور اردو سے مختلف ہے۔
اس لہجے کا اپنا کوئی رسم الخط یا ادب نہیں ہے، انہوں نے کہا۔
ہوسکتا ہے یہی وجہ ہو کہ ابھی تک یہ لہجہ ماہرینِ لسانیات کی توجہ میں نہیں آیا۔ وارثی نے کہا، جنہیں 2012 کے لئے جیمز ای۔ میکلوڈ فیکلٹی ریکگنیشن ایوارڈ (James E. McLeod Faculty Recognition Award) عطا کیا گیا ہے۔
وارثی نے کہا کہ ایک تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے انہیں معلوم ہوا کہ یہ نیا لہجہ ہندی، اردواور میتھیلی سے قطعی طور پر مختلف ہے اور ان کے فعل کا ملاپ اور جملوں کی ساخت ایک دوسرے سے کافی مختلف ہے۔
مثلاً ایک جملے "ہم جا رہے ہیں" کو ہندی میں " ہم جا رہے ہیں"، میتھیلی میں "ہمجے راہل چھی" اور اردو میں "ہم جا رہے ہیں" کہا جاتا ہے۔ لیکن نئے لہجے میں یہ "ہم جا رہا لیا ہے" ہوگا۔ نیز، میتھیلانچل اردو میں کوئی فاعلی نشان انداز (marker) "- نے" نہیں ہے۔
نئے لہجے میں "تو، تم اور آپ" کی بجائے صرف ایک واحدحاضر فاعل "تو" استعمال کیا جاتا ہے۔
ان مثالوں یہ واضح ہوتا ہے کہ نئے لہجے میں فعل کا ملاپ ہندی، اردواور میتھیلی سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ وارثی نے کہا۔
وارثی، جو بہار کے ضلع دربھنگہ کے باشندے ہیں، نے اس بولی کو 'میتھیلانچل' کا نام دیا ہے۔
زبان کی کوئی حدود نہیں ہوتیں، نہ ہی اس کا انحصار کسی سرحد پر ہوتا ہے، " انہوں نے کہا۔
"لہجے مخصوص علاقوں میں رابطے کی زبان کا کام دیتے ہیں، اور وہ ان کے ثقافتی ورثہ پر ایک گہرا اثر رکھتے ہیں، " انہوں نے کہا۔ " وقت کے ساتھ یہ لہجے زبانوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔"
وارثی نے کہا کہ کسی لہجے کا ایک زبان میں تبدیل ہونے کا عمل اس کے بولنے والے لوگوں کے لئے ایک علامت اور وجۂ تفاخر ہوتا ہے اور یہ تجویز دی کہ اس نئے لہجے کو اس لسانی سروے میں شامل کیا جائے جو حال ہی میں ملک بھر میں شروع کیا گیا ہے۔
________ دکن ہیرالڈ ، 28 جنوری، 2013(IANS)
اصل خبر کا ربط:
http://www.deccanherald.com/content/308166/us-based-linguist-discovers-dialect.html