ضیاء حیدری
محفلین
ہندو توا
ہندو توا کا نظریہ مراٹھی زبان میں لکھی گئی، ایک کتاب ہندو توا سے لیا گیا ہے۔ مصنف دیر ساور کے مطابق ہندو تواکا مطلب ہندوستانی ہونا ہے،جس کو وہ ”ہندو پن” کہتا ہے۔ اس کا مطلب اور مقصد ہندو ورثے اور تہذیب کی حفاظت ہے اور ہندو طرز رہائش کو اختیار کرنا ہے۔
گاندھی کی سیکولرشخصیت کی بنا پر ہندو توا کی تحریک نے آزادی کے بعد خاصے عرصے تک قبولیّت عامہ حاصل نہ کی لیکن 1980ء میں اس کو پذیرائی ملنا شروع ہوئی معاشرے موجود مسلم دشمن عوامل نے ہندو توا کو ہندوستان کے عوام میں پذیرائی عطا کی۔
بابری مسجد کا کیس، بابری مسجد کی شہادت اور اس کے گرد ہونے والی عوامی سیاست نے بی جے پی کو عوام میں قبولیت عطا کی اور اس کو عالمی پذیرائی بھی بخشی۔
ہندو توا کی تحریک ہندوستان کی تمام قوموں اور نسلوں کو ہندو قوم سمجھتے ہیں ہم تہذیبی یکجہتی اور شہری تمدن کے علم بردار ہیں… اسی لیے ہم مذہبی ہئیت کو رد کرتے ہیں اور مذہب کو قومیت کی شناخت کا سر خیل نہیں سمجھتے۔ ہندو توا ہندو احساسات و جذبات ہندو ہیروز کو ہر سطح پر اجاگر کرتے ہیں۔ پرتھوی راج، سیواجی مہاراج، راج سینا، بائوجی مہاراج، گروگو بندشینا وغیرہ کے کارناموں کو اجاگر کرتے اور ان کے کارناموں سے عوام کو روشناس کراتے ہیں۔ عرب، مسلمان کو غیر مانتے ہیں لہٰذا جو لوگ ہندوستان کو اپنا دھرتی ماتا نہیں مانتے اور اس کو اپنی مقدس سرزمین نہیں مانتے ان کو ہندوستان چھوڑنا پڑے گا یا ہندو بننا پڑے گا۔
اس نظریے کی بنا پر مسلمانوں کو دیس نکالا ملے گا، اور یہ دیس اب ان کے لئے تنگ ہوچکا ہے، مسلمان کہاں جائیں گے تا تنگ آمد بجنگ آمد، کے مصادق، مسلمان اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنے لئے علیحدہ وطن کی تحریک چلائیں گے۔
علامہ اقبال فرما چکے ہیں
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے
تو مصطفوی ہے جب اپنی عملی تعریف پر آئے گا تو دنیا دیکھے گی، ہندو توا کی ہوا اکھڑ جائے گی، مسلم امہ کا احیا ہوگا،
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
ہندو توا کا نظریہ مراٹھی زبان میں لکھی گئی، ایک کتاب ہندو توا سے لیا گیا ہے۔ مصنف دیر ساور کے مطابق ہندو تواکا مطلب ہندوستانی ہونا ہے،جس کو وہ ”ہندو پن” کہتا ہے۔ اس کا مطلب اور مقصد ہندو ورثے اور تہذیب کی حفاظت ہے اور ہندو طرز رہائش کو اختیار کرنا ہے۔
گاندھی کی سیکولرشخصیت کی بنا پر ہندو توا کی تحریک نے آزادی کے بعد خاصے عرصے تک قبولیّت عامہ حاصل نہ کی لیکن 1980ء میں اس کو پذیرائی ملنا شروع ہوئی معاشرے موجود مسلم دشمن عوامل نے ہندو توا کو ہندوستان کے عوام میں پذیرائی عطا کی۔
بابری مسجد کا کیس، بابری مسجد کی شہادت اور اس کے گرد ہونے والی عوامی سیاست نے بی جے پی کو عوام میں قبولیت عطا کی اور اس کو عالمی پذیرائی بھی بخشی۔
ہندو توا کی تحریک ہندوستان کی تمام قوموں اور نسلوں کو ہندو قوم سمجھتے ہیں ہم تہذیبی یکجہتی اور شہری تمدن کے علم بردار ہیں… اسی لیے ہم مذہبی ہئیت کو رد کرتے ہیں اور مذہب کو قومیت کی شناخت کا سر خیل نہیں سمجھتے۔ ہندو توا ہندو احساسات و جذبات ہندو ہیروز کو ہر سطح پر اجاگر کرتے ہیں۔ پرتھوی راج، سیواجی مہاراج، راج سینا، بائوجی مہاراج، گروگو بندشینا وغیرہ کے کارناموں کو اجاگر کرتے اور ان کے کارناموں سے عوام کو روشناس کراتے ہیں۔ عرب، مسلمان کو غیر مانتے ہیں لہٰذا جو لوگ ہندوستان کو اپنا دھرتی ماتا نہیں مانتے اور اس کو اپنی مقدس سرزمین نہیں مانتے ان کو ہندوستان چھوڑنا پڑے گا یا ہندو بننا پڑے گا۔
اس نظریے کی بنا پر مسلمانوں کو دیس نکالا ملے گا، اور یہ دیس اب ان کے لئے تنگ ہوچکا ہے، مسلمان کہاں جائیں گے تا تنگ آمد بجنگ آمد، کے مصادق، مسلمان اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنے لئے علیحدہ وطن کی تحریک چلائیں گے۔
علامہ اقبال فرما چکے ہیں
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے
تو مصطفوی ہے جب اپنی عملی تعریف پر آئے گا تو دنیا دیکھے گی، ہندو توا کی ہوا اکھڑ جائے گی، مسلم امہ کا احیا ہوگا،
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے