ہنسنے کا نہیں شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے

شمشاد

لائبریرین
8 ستمبر 2013، سابقہ صدر کا استقبالیہ

اعتزاز احسن بھی سورۃ اخلاص کی صحیح تلاوت نہ کر سکے۔ رحمان ملک کی کابینہ کے اجلاس میں تلاوت کی یاد تازہ۔

 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
واقعی شرم کا مقام ہے کہ یہ ہمارے چنیدہ افراد ہیں جن کو اپنے مذہب کے بارے اتنی معلومات بھی نہیں :(
 

شمشاد

لائبریرین
رحمان ملک، ذرا ان کا نام دیکھیں، مزید یہ کہ ایک اسلامی ملک کے وزیر داخلہ

اور یہ صاحب دنیانوی قانون اور آئین کے ماہر

انا للہ و انا الیہ راجعون۔
 

سید زبیر

محفلین
مگر کل کسی چینل پرآکر اعتزاز احسن نے قران حکیم کی تین سورتیں روانی سے زبانی سنا ئی ہیں ۔ سورۃ کوثر ، سورۃ التین اور تیسری سورۃ کا نام مجھے یاد نہیں آرہا ۔ بہر حال اللہ کریم ہم سب پر اپنا خاص کرم فرمائے (آمین )
 

یوسف-2

محفلین
انا للہ وانا الیہ راجعون
ویسے اس میں “حیرت” والی کوئی بات نہیں ہے۔ رحمٰن ملک ہوں یا اعتزاز احسن، ان کے صرف نام ہی مسلمانوں والے ہیں، وگرنہ ان کی ذاتی زندگی میں اسلامی تعلیمات کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں ملتا۔ یہ ہم مسلمانوں کا “قصور” ہے کہ ہم ایسے لوگوں کا اپنا نمائندہ اور حکمران چُن لیتے ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
مگر کل کسی چینل پرآکر اعتزاز احسن نے قران حکیم کی تین سورتیں روانی سے زبانی سنا ئی ہیں ۔ سورۃ کوثر ، سورۃ التین اور تیسری سورۃ کا نام مجھے یاد نہیں آرہا ۔ بہر حال اللہ کریم ہم سب پر اپنا خاص کرم فرمائے (آمین )
یہ ہم جیسے بھولے عوام کو “مطمئن” کرنے کی ایک کوشش ہے۔:)
 

قیصرانی

لائبریرین
انا للہ وانا الیہ راجعون
ویسے اس میں “حیرت” والی کوئی بات نہیں ہے۔ رحمٰن ملک ہوں یا اعتزاز احسن، ان کے صرف نام ہی مسلمانوں والے ہیں، وگرنہ ان کی ذاتی زندگی میں اسلامی تعلیمات کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں ملتا۔ یہ ہم مسلمانوں کا “قصور” ہے کہ ہم ایسے لوگوں کا اپنا نمائندہ اور حکمران چُن لیتے ہیں۔
یہ تو اللہ کا فرمان ہے نا کہ جیسی قوم ویسے رہنما۔ چاہے ہم چنیں یا نہ چنیں :) کیا اللہ پاک نے نیک قوم پر کبھی برے حکمران مسلط کئے؟
 

آصف اثر

معطل
پھر کیا ہے؟ بھول چوک کیا ہوتی ہے؟
غزنوی بھائی ، سورۃ اخلاص وہ واحد سورت ہے جو ہر پڑھے لکھے اور ان پڑھ مسلمان (چاہے وہ عورت ہو یا مرد، بوڑھا ہویا بچہ) کویاد ہوتا ہے۔ اب ایک ایسی سورت بھی اتنے بڑے قانونی ماہر کو ازبر نہیں تو اسے کیا کہا جاسکتا ہے؟
ایسے شخص سے اسلام کی بالادستی کی توقع رکھنا عبث نہیں تو کیا ہے؟ بھول چُوک کے پیمانے پر اگر اس حرکت کو پرکھا جائے تو یہ ایک سنگین ترین غلطی ہے۔(یہ جواب دوستانہ مزاج میں لکھاگیا ہے)۔
 
غزنوی بھائی ، سورۃ اخلاص وہ واحد سورت ہے جو ہر پڑھے لکھے اور ان پڑھ مسلمان (چاہے وہ عورت ہو یا مرد، بوڑھا ہویا بچہ) کویاد ہوتا ہے۔ اب ایک ایسی سورت بھی اتنے بڑے قانونی ماہر کو ازبر نہیں تو اسے کیا کہا جاسکتا ہے؟
ایسے شخص سے اسلام کی بالادستی کی توقع رکھنا عبث نہیں تو کیا ہے؟ بھول چُوک کے پیمانے پر اگر اس حرکت کو پرکھا جائے تو یہ ایک سنگین ترین غلطی ہے۔(یہ جواب دوستانہ مزاج میں لکھاگیا ہے)۔
آصف بھائی، بات انسان کے نسیان کی ہورہی ہے(انسان اور نسیان پر غور کیجئے)۔ اعتزاز احسن تو محض ایک وکیل ہے، یہاں تو فنِ قرات کے سب سے بڑے امام کے بارے میں بھی تاریخ کہتی ہے کہ سورہ فاتحہ کی تلاوت کے دوران بھول گئے تھے (سورہ اخلاص کی نسبت سورہ فاتحہ کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ واحد سورت ہے جو ہر مسلمان کو ہر نماز کے دوران لازماّ پڑھنا ہوتی ہے)۔ بندہ بشر سے ایسی خظاؤں کا صدور عین ممکن ہے، البتہ فرشتوں سے یہ گمان رکھنا عبث ہے۔
باقی جہاں تک اعتزاز احسن سےاسلام کی بالادستی کی توقع رکھنا اور اسکا عبث ہونا یا نہ ہونا ہے، یہ ایک الگ بات ہے :)
 
آخری تدوین:

یوسف-2

محفلین
سورۃ اخلاص غلط پڑھنے پر اعتزاز کی نااہلی کے لئے کسی نے درخواست دائر کی ہے۔ جیالوں کی کسی تقریب میں ان سے تلاوت کرائی گئی، انہوں نے دو بار ہ کوشش کی، دونوں بار ناکام رہے۔
دو بار کیا، وہ دوسو بار کوشش کرتے تو بھی غلط پڑھتے۔ پتہ نہیں، پیپلزپارٹی میں یہ مسئلہ کیوں ہے۔ بھٹو کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کلمہ پڑھ سکتے ہیں نہ کوئی آیت۔ایک جلسے میں انہوں نے کہا، میرے مخالف پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مجھے کلمہ نہیں آتا۔ یہ لو، میں پڑھ کر سناتا ہوں۔ اس کے بعد سورۃ الناس کی کوئی آیت ایسے ہی پڑھ ڈالی جیسے اعتزاز نے پڑھی۔:D
اور ایسی خبریں صرف پیپلزپارٹی ہی کی افطار پارٹیوں سے آتی ہیں کہ افطاری سے ایک گھنٹہ پہلے ہی کھانے پینے کا سارا سامان جیالے چٹ کر گئے۔ خدا جانے، یہ لوگ شروع ہی سے ایسے ہوتے ہیں، یا پیپلزپارٹی میں آنے کے بعد ایسے ہو جاتے ہیں۔
(از عبداللہ طارق سہیل، روزنامہ نئی بات 12 ستمبر 2013ء)
 

کاشفی

محفلین
افسوس کا مقام ہے۔۔ اعتزاز احسن سے ہمدردیاں رکھنے والوں کو شرم کرنا چاہیئے۔۔۔
اور اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پرویز مشرف سے عوام کے سامنے ایسی غلطی کبھی نہیں ہوئی۔۔ ورنہ تو جو لوگ اعتراز احسن سے ہمدردیاں جتا رہے ہیں وہ پرویز مشرف کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
پیپلز پارٹی کو بے دین پارٹی سمجھنے والے بڑے لا علم اور بے خبر ہیں۔پچھلے پانچ سال کے حکومتی ڈھانچے پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ اولیاء و صُلحاء کی حکومت تھی۔اولیاء کے گھر میں بھوت ایک کہاوت ہے۔ اس لیے اگر کچھ گڑبڑ قسم کے لوگ بھی اس میں موجود ہوں تو اچنبھے کی بات نہیں ۔جماعتِ اسلامی پر تو خواہ مخواہ صالحین کی جماعت ہونے کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ اصل صالحین تو پیپلز پارٹی میں ہیں۔مخدوموں اورسادات کی جو کہکشاں اس پارٹی کے آسمان پر ہے ایسی اور کہیں ملنے کی نہیں۔سید یوسف رضا گیلانی وزیرِ اعظم، سینیٹ کے چیر مین سید نیرحسین بخاری، وزیروں کے جھرمٹ میں مخدوم امین فہیم، مخدوم شہاب الدین، مخدوم فیصل صالح حیات، تین برس تک وزیرِ خارجہ رہنے والے شاہ محمود قریشی،سید خورشید احمد شاہ، سید نوید قمر، سید صمصام بخاری ،سندھ کے تاحیات وزیرِ اعلیٰ سید قائم علی شاہ، صوبہ گلگت اور بلتستان کے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ۔سینیٹروں میں زرداری پر ہزار بار واری سید فیصل رضا عابدی،سیدہ صغریٰ امام ۔ پتہ نہیں اورکتنے ہیں جو اس وقت ہمارے حافظے میں محفوظ نہیں ہیں۔ اور یہ قُطب الاقطاب پیر اعجاز جن کے تصرف میں پہاڑ بھی ہیں اور سمندر بھی ،جنہوں نے جناب آصف علی زرداری کی پانچ برس کی صدارت کے بحفاظت اور باعزت گزارنے کا ٹھیکہ لیا تھا ۔اب بتائیے کہ جس پارٹی کی صرف اوپر کی سطح پر ایسے ایسے پہنچے ہوئے سیدوں،پیروں اورمخدوموں کااتنا بڑاجھرمٹ ہو اس کو کیاکوئی سیکولر پارٹی کہہ سکتا ہے؟
پھر یہ کیوں ہوا کہ اعتزاز احسن سورہ اخلاص کی صحیح تلاوت نہ کر سکے؟ پارٹی سیکولر نہیں پر اس کی مذہبیت ’قُل اعوذیوں‘ کی سی ہے۔جناب آصف علی زرداری کے منصبِ صدارت کی’ قُل‘ قسم کا اجتماع تھا۔بلاول ہاؤس لاہور کا سماں!ہر کوئی زرداری پر واری۔ زرداری زرداری کا ورد ہر زباں پر جاری۔ ہر ایک کا کلمہ’ایک زرداری ،سب پر بھاری‘۔جب یہ کیفیت ہو دل و دماغ پر طاری توکلامِ خُدا ہوکیوں کر زباں پر جاری؟ جب کارکنوں کا رنگِ دھمال ہواوراعتزاز احسن پر بھی ایک کیفیتِ حال ہو تو خدا کے کلام کا اس سے بڑھ کر اور کیا حال ہونا تھا۔ روایت نبھانے کے لیے تقریب میں تلاوت کی سوجھی۔ یہاں اعتزاز احسن آج کوئی event مِس کرنے کے موڈ میں نہ تھے۔ان کی نظر پنجاب میں پارٹی کی کچھ ذمہ داریوں، از قسم صدارت پر ہے۔ بھول گئے کہ اصل میں اینگلو سیکسن بول چال اور کلچر کے دلدادگان میں سے ہیں۔وہیں کا قانون پڑھا۔ اسی کے طرزِ استدلال میں مہارت پائی۔اسی کے بل پر لاکھوں کروڑوں میں فیس لیتے ہیں۔بچپن میں کبھی کہیں قُرآن پڑھا بھی ہو گا تو بھول بھلا بیٹھے ہوں گے ۔اس پر قانون کی کتابوں سے اٹھنے والی گرد بیٹھ گئی ہو گی۔اس گرد کو جھاڑ کر اسے تازہ کرنے کا خیال تو تب آئے کہ قُرآن سے کوئی دنیوی مفاد وابستہ ہو۔ اس کے بل پر پارٹی میں اہمیت یاموکلوں سے فیس ملتی ہو۔
مفاد کے ذکر سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ دبئی کے ایک ممتاز تعلیمی ادارے میں شوکت اللہ خان ہمارے ایک رفیقِ کار تھے۔ ا نڈیا سے تعلق تھا۔انگریزی پڑھاتے تھے۔اعظم گڑھ کے مردم خیز خطے سے تعلق تھا۔لیکن ممبئی میں بس گئے تھے۔پیپلز پارٹی کے ہمارے بھائیوں سے کوئی دو ہاتھ بڑھ کر ترقی پسند تھے۔خود کہتے تھے کہ ممبئی کے ائر پورٹ پر جا کر اترتا ہوں تو پکا کمیونسٹ ہو جاتا ہوں۔جب دبئی کی فلائٹ پکڑتاہوں تو ترقی پسندی کا کمبل اتار کر رکھ آتا ہوں۔ہمارے رفقائے کار میں شیخ کبیر ایک عالمِ دین تھے۔تھے تو سعودی عرب کے ’مرکز الدعوۃ والارشاد‘ کے ملازم لیکن ہمارے ادارے میں کالج کلاسوں کو شوقیہ اسلامیات پڑھاتے تھے۔شوکت اللہ خان نے ایک دفعہ شیخ کبیر پر چوٹ کرتے ہوئے کہا: ’مولانا! یہ جو آپ کے اسلامی مہینوں کے نام ہیں یہ اتنے مشکل ہیں کہ زبان پر چڑھتے ہی نہیں۔‘ شیخ کبیر نے کہا: ’ شوکت صاحب! نام تو انگریزی مہینوں کے بھی کچھ کم بھاری بھر کم اور مشکل نہیں ہیں لیکن چونکہ آپ کو تنخواہ ان کے حساب سے ملتی ہے اس لیے آپ کو آسانی سے یاد ہو گئے ہیں۔اگر آپ کو تنخواہ اسلامی مہینوں کے حساب سے دی جانے لگے اور آپ کو یہ بھی پتہ چل جائے کہ اس حساب سے ہر سال آپ کو انگریزی مہینوں کے مقابلے میں دس دن کی زیادہ تنخواہ ملے گی تو اسلامی مہینے آپ لمحوں میں یاد کر لیں۔
معاملہ اعتزاز احسن اور رحمان ملک جیسے لوگوں کا بھی وہی ہے۔آخرت کے بارے میں تو شاید ان کا وہ فلسفہ ہے جو ہر دنیا پرست کا ہوتا ہے۔ یعنی ’ اے جہان مِٹھا تے اگلا کس ڈِٹھا‘ ۔مطلب یہ کہ حاضر و موجود کی فکر کرنی چاہیے۔ اس دنیا کی کامیابیاں،اسمبلیوں اور سینیٹ کی ممبریاں مل جائیں،صدارتوں وزارتوں تک پہنچ جائیں ، اقتدار و قُوت کے ایوانوں تک رسائی ہو جائے،مال و دولت جمع ہو جائے ، عیش اورلذتیں مل جائیں تواگلے جہاں کی کس کو پروا ہے۔اس نظریے کو اختیار کرنے والوں کا قرآن کے ساتھ رشتہ قائم ہو ہی نہیں سکتا۔یہ ڈوب جانے والا رویہ انسانی نفسیات کا بڑا اہم کیس ہے۔مجنوں لیلیٰ کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا۔اسی لیے صحراؤں کی ریت پر انگلیوں سے لیلیٰ لیلیٰ لکھتا رہتا تھا ۔یا یہ جو ہم پنجابی میں’ رانجھا رانجھا کردی میں آپے رانجھا ہوئی ‘ کہتے ہیں تو یہ اسی نفسیاتی رویے کی تعبیریں ہیں۔ قرآن کہتا ہے : کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلَی شَاکِلَتِہِ ، یعنی ہر آدمی اپنی خاص سوچ،اپنے مخصوص طرزِ فکر اور مائینڈ سیٹ کے مطابق عمل کرتا ہے ۔زرداری صاحب پانچ سال تک سربراہِ مملکت کی حیثیت سے اہم قومی امور میں بھی یہ جو اپنے پیر اعجاز کی ہدایات کے تابع رہے تو یہ اسی خاص سوچ، طرزِ فکر اور مائینڈ سیٹ کی کارفرمائی تھی۔اعتزاز احسن ہماری لبرل سوسائٹی کے فرد فرید اور بڑے قانون دان ہیں۔قانون کی بڑی بڑی کتابوں کے حوالے ان کو ازبر ہیں۔ان لبرل لوگوں کو زرداری صاحب کا اپنے امور کا انچارج پیر اعجاز کو بنانا کبھی قابلِ اعتراض نہ لگا۔سورہ اخلاص قرآن کی چند مختصر ترین سورتوں میں سے کتابِ حکیم کے ایک تہائی کے برابر فضیلت رکھنے والی سورت ہے ۔ایک سیدھے سادے عام مسلمان کو بھی یاد ہوتی ہے۔ لبرل سوسائٹی کے ان ممتاز نمائندوں کو یاد نہ ہو توان کے کاروبارِ حیات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
معتبر جائزے بتاتے ہیں کہ توہّمات کا مرض جس قدرجاہل اور ان پڑھ لوگوں میں ہے اتنی ہی ہماری لِبرل سوسائٹی بھی اس مرض میں مبتلا ہے ۔جادو ٹونے، تعویذ گنڈے، جھاڑ پھونک اور عاملوں کے پر اسرار عمل کا دھندا جدید سوسائٹی سے تعلق رکھنے والوں کے بل پر بھی خوب چل رہا ہے۔ کوئی ایچی سن کی پیداوار ہے یا آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ کا ڈگری یافتہ، توہّم پرستی اور ضعیف الاعتقادی ہر جگہ موجود ہے۔ سب کا اپنا اپنا کوئی پیر اعجاز ہے۔ایوانِ صدر کے راستے متعارف ہونے اور شہرت پانے کے بعداس کی مارکٹ ویلیو بہت اونچی چلی گئی ہے۔اب یہ ایک استعارہ بلکہ مافیابن گیا ہے جس کی جڑیں با اثر بالائی طبقے ،سول اور ملٹری بیوروکریسی، پارلیمنٹ اور اعلیٰ حکومتی ایوانوں میں مکین بڑی شخصیات تک پھیل گئی ہیں۔اللہ والے بزرگانِ دین کی صحبت میں تعلق باللہ ، اصلاحِ باطن،تزکیہِ نفس کی دولت ہاتھ آتی تھی۔ مادّہ پرستی کی زنجیروں سے نجات ملتی تھی۔صبر و شکر اور قناعت کا گوہر ہاتھ آتا تھا۔برائیوں سے نفرت اور نیکیوں کی رغبت پیدا ہوتی تھی۔ اب روحانیت کے نام پر پیر اعجاز مافیا قومی سطح پرکرپشن ،خیانت، جھوٹ اور مکر ،اخلاقی جرائم، عہدشکنیوں اور قانون اور آئین کی خلاف ورزیوں کو اپنی روحانیت کا سایہ اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔پیر اعجاز کا ’ظہور‘ تو ابھی پانچ برس پہلے ہوا ہے لیکن یہ مافیا پہلے بھی موجود تھا۔ نہ محترمہ بے نظیر جیسی روشن خیال خاتون اس مافیا سے بچی ہوئی تھیں اور نہ جاتی اُمرا کے شریفوں اور گجرات کے چودھریوں جیسے اعتدال پسند سیاست دان اس کے اثر سے باہر ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے سیماب صفت اور آتش مزاج انقلابی رہنما عمران خان کے بھی پیر اعجاز تھے اور ہیں۔
(منیر احمد خلیلی کا کالم۔ روزنامی نئی بات۔ 14 ستمبر 2014ء)
 
Top