ضیاء حیدری
محفلین
ہنسی ہنسی میں
کہتے ہیں نیکی کا زمانہ نہیں رہا، لڑکوں کا چال چلن مردانہ نہیں رہا۔ اور بچوں میں اب بچکانہ نہیں رہا۔ نازنینوں میں نہ حیا رہی نہ شرمانا رہا، حد ہوگئی چھ چھ گز کی ساڑھی لپیٹ لیں گی مگر کمر پھر بھی، اللہ توبہ اللہ توبہ، کیا مزاق ہے، ہم اسی ہنسی مذاق کے دور جی رہے ہیں، ہم باتوں باتوں میں اگر کچھ کہہ جائیں تو پلیز مائنڈ نہ کیجئے گا، ہنسی میں اڑا دیجئے گا۔
آج کل کانپیں ٹانگ جانے کا موسم ہے، پیرا شوتیئے لاؤنچ ہورہے ہیں، ملکی خزانہ بیدردی سے لٹایا جارہا ہے، میں آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں، ایک دفعہ کسی گھوڑے کے تاجر کو شیر پالنے کا شوق ہوا، اس نے دس شیر کے پلے پال لئے، انھیں وقت پر کھانا پانی مل جاتا تھا، وہ اپنے مالک کے پاؤن چاٹتے تھے بالکل کتوں کی طرح۔ ان میں ساری خو بو پالتو والی تھی مگر دیکھنے میں، گھبرو شیر لگتے تھے، ایک دن انسداد بے رحمیء جانواراں کو خبر ہوگئی، انہوں نے چھاپا مارا اور مالک کو گرفتار کرلیا، کیونکہ شیروں کی گردن میں پٹا ڈالنا ان کے حقوق کی پامالی ہے۔ بہر حال مالک نے ان تمام شیروں کو آذاد کردیا اور انھیں چھانگا مانگا کے جنگل میں چھوڑ دیا، ہاں ہاں وہی والا چھانگا مانگا جو ہماری سیاست میں اب تک ان ہے، جہاں کا ریسٹ ہاؤس بہت مشہور ہے۔۔ بہر حال ان کو آذادی مل گئی، اب ان کا جسم تھا ان کی مرضی تھی، مگر پیٹ تو بوٹی مانگتا ہے، اللہ نے فطرت ہی ایسی بنائی ہے، وہ جنگل کے شیر نہیں تھے، فیڈر پر پلے تھے وہ کیا جانیں، اپنے بل بوتے پر خوراک حاصل کرنا؟ ان کا انجام جو ہونا ھونا تھا اس سے بدتر ہوا۔
ہم مغرب کی نقالی اس لئے کرتے ہیں کہ ان کی طرح ترقی چاہتے ہیں، مگر ان سے قرضے لیتے ہیں اور اپنی دولت ان کے ہاں چھپاتے ہیں، مغرب میں ہر چیز بکتی ہے جس کی پیکنگ اچھی ہو، سوائے عورت کے۔ وہ جتنی کھلی ہوئی ہو اتنی پرکشش کہلاتی ہے، ہندوستانی عورت شرم و حیا کی ماری، جسم پر بل در بل ساڑھی لپیٹے، سر پر پلو ڈالے، شرم و حیا کی پتلی لگتی ہے، مگرکمر کھلی رکھتی ہے، بعض کی کمریں،۔۔۔۔ اوہو،،،، کثرت نقل و حمل سے اتنی پھیل جاتی ہیں کہ بس ایک دفعہ دیکھ لو تو نظر دوبارہ ادھر لوٹ کرنہیں جاتی ہے، اور بعض کی کمر اتنی پتلی ہوتی ہے، کہ بار دیکھنے پر بھی نظر وہیں پر اٹکی رہتی ہے، یورپ کتنی بھی ترقی کرلے وہ سمجھ نہیں سکتا کہ ایک نظر حیا اور دوسرینظر گناہ کا فلسفہ کیا ہے۔
کرونا نے مغرب کے کس بل نکال دیئے ہیں، لیکن ہمارےکو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکی، ہمارے دھرنے اسی طرح جاری رہے، ہر بیماری اپنے پھیلاؤ کے مخصوص ماحول چاہتی ہے، کرپشن کی بیماری کے لئے ہمارا مخصوص ماحول بہت سازگار ہے، یہان کوئی ویکسین کام نہیں کرتی ہے، ہم عدلیہ کو اس کا علاج سمجھتے ہیں مگر اس کو بھی یہ بیماری لگ گئی ہے، آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ یورپ میں کرونا کا علاج کرتے کرتے ڈاکٹرخود اسکا شکار ہوگئے، بس بس یہی ہوا ہے ہمارے قاضی کے ساتھ ۔ ۔ ۔
کہتے ہیں نیکی کا زمانہ نہیں رہا، لڑکوں کا چال چلن مردانہ نہیں رہا۔ اور بچوں میں اب بچکانہ نہیں رہا۔ نازنینوں میں نہ حیا رہی نہ شرمانا رہا، حد ہوگئی چھ چھ گز کی ساڑھی لپیٹ لیں گی مگر کمر پھر بھی، اللہ توبہ اللہ توبہ، کیا مزاق ہے، ہم اسی ہنسی مذاق کے دور جی رہے ہیں، ہم باتوں باتوں میں اگر کچھ کہہ جائیں تو پلیز مائنڈ نہ کیجئے گا، ہنسی میں اڑا دیجئے گا۔
آج کل کانپیں ٹانگ جانے کا موسم ہے، پیرا شوتیئے لاؤنچ ہورہے ہیں، ملکی خزانہ بیدردی سے لٹایا جارہا ہے، میں آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں، ایک دفعہ کسی گھوڑے کے تاجر کو شیر پالنے کا شوق ہوا، اس نے دس شیر کے پلے پال لئے، انھیں وقت پر کھانا پانی مل جاتا تھا، وہ اپنے مالک کے پاؤن چاٹتے تھے بالکل کتوں کی طرح۔ ان میں ساری خو بو پالتو والی تھی مگر دیکھنے میں، گھبرو شیر لگتے تھے، ایک دن انسداد بے رحمیء جانواراں کو خبر ہوگئی، انہوں نے چھاپا مارا اور مالک کو گرفتار کرلیا، کیونکہ شیروں کی گردن میں پٹا ڈالنا ان کے حقوق کی پامالی ہے۔ بہر حال مالک نے ان تمام شیروں کو آذاد کردیا اور انھیں چھانگا مانگا کے جنگل میں چھوڑ دیا، ہاں ہاں وہی والا چھانگا مانگا جو ہماری سیاست میں اب تک ان ہے، جہاں کا ریسٹ ہاؤس بہت مشہور ہے۔۔ بہر حال ان کو آذادی مل گئی، اب ان کا جسم تھا ان کی مرضی تھی، مگر پیٹ تو بوٹی مانگتا ہے، اللہ نے فطرت ہی ایسی بنائی ہے، وہ جنگل کے شیر نہیں تھے، فیڈر پر پلے تھے وہ کیا جانیں، اپنے بل بوتے پر خوراک حاصل کرنا؟ ان کا انجام جو ہونا ھونا تھا اس سے بدتر ہوا۔
ہم مغرب کی نقالی اس لئے کرتے ہیں کہ ان کی طرح ترقی چاہتے ہیں، مگر ان سے قرضے لیتے ہیں اور اپنی دولت ان کے ہاں چھپاتے ہیں، مغرب میں ہر چیز بکتی ہے جس کی پیکنگ اچھی ہو، سوائے عورت کے۔ وہ جتنی کھلی ہوئی ہو اتنی پرکشش کہلاتی ہے، ہندوستانی عورت شرم و حیا کی ماری، جسم پر بل در بل ساڑھی لپیٹے، سر پر پلو ڈالے، شرم و حیا کی پتلی لگتی ہے، مگرکمر کھلی رکھتی ہے، بعض کی کمریں،۔۔۔۔ اوہو،،،، کثرت نقل و حمل سے اتنی پھیل جاتی ہیں کہ بس ایک دفعہ دیکھ لو تو نظر دوبارہ ادھر لوٹ کرنہیں جاتی ہے، اور بعض کی کمر اتنی پتلی ہوتی ہے، کہ بار دیکھنے پر بھی نظر وہیں پر اٹکی رہتی ہے، یورپ کتنی بھی ترقی کرلے وہ سمجھ نہیں سکتا کہ ایک نظر حیا اور دوسرینظر گناہ کا فلسفہ کیا ہے۔
کرونا نے مغرب کے کس بل نکال دیئے ہیں، لیکن ہمارےکو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکی، ہمارے دھرنے اسی طرح جاری رہے، ہر بیماری اپنے پھیلاؤ کے مخصوص ماحول چاہتی ہے، کرپشن کی بیماری کے لئے ہمارا مخصوص ماحول بہت سازگار ہے، یہان کوئی ویکسین کام نہیں کرتی ہے، ہم عدلیہ کو اس کا علاج سمجھتے ہیں مگر اس کو بھی یہ بیماری لگ گئی ہے، آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ یورپ میں کرونا کا علاج کرتے کرتے ڈاکٹرخود اسکا شکار ہوگئے، بس بس یہی ہوا ہے ہمارے قاضی کے ساتھ ۔ ۔ ۔