ہوئے مر کے ہم جو رسوا

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
ہر کوئی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے ستر ماؤں کے مجموعی پیار سے بھی زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے ۔ لیکن کوئی یہ نہیں جانتا کہ ایک ماں اپنی اولاد سے کتنا پیار کرتی ہے ۔ جب کوئی ایک ماں کے پیار کا اندازہ نہیں کر سکتا تو کوئی کیسے حساب لگائے گا کہ ستر ماؤں کے مجموعی پیار سے بھی زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرنےوالے اللہ کا اپنی مخلوقات سے پیار کتنا ہوگا۔ اس کے باوجود قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ہم سے پہلے گزر چکی قوموں پر اللہ کا عذاب کا نازل ہوتا رہا ۔عقل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اللہ نے سب کو دی ہے ، اور قرآن مجید بار بار غورو فکر کی دعوت دیتا ہے کہ اس کائنات میں کچھ بھی بے سبب اور بے جوڑ نہیں ہے ۔ ساری کائنات ایک مربوط نظام کے تحت ایک دوسرے سے جڑی ہے ۔​
ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ بر صغیر میں کسی ان پڑھ سےپوچھ لیں کہ مغلیہ سلطنت کیوں زوال پذیر ہوئی تو جواب ہوگا اللہ کی یہی مرضی تھی۔ لیکن یہی سوال اگر کسی بھی تاریخ کے طالب علم سے پوچھا جائے کہ مغلیہ سلطنت کیوں زوال پذیر ہوئی ، تو اس کا جواب یہ نہیں ہوگا کہ اللہ کی یہی مرضی تھی ۔ بلکہ وہ آپ کو باقاعدہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے اسباب بتائے گا ۔وہ صرف انگریزوں کی چالبازیوں اور ریشہ دوانیوں کو ہی سبب نہیں بتائے گا ۔ بلکہ وہ مغل بادشاہوں کی نالائقی ، آرام پسندی ، ناانصافی کا دور دورہ ، اور آپسی چپقلش وغیرہ کا بھی ذکر کرے گا۔​
اور یہی ہے ایک جاہل اور پڑھے لکھے آدمی کا فرق ۔ نیوٹن کی مثال سب کے سامنے ہے ۔ سیب گرا تو وہ اللہ کا بندہ بجائے اسے کھانے کے اس سوچ میں پڑ گیا کہ سیب درخت سے نیچے کیوں گرا ، یہ اوپر بھی تو جا سکتا تھا ۔ اور یہی سوچنے کی عادت اسے بابائے فزکس بنا گئی ۔ کوئی میرےجیسا ہوتا تو وہ مزے سے سیب کھا کے ڈکار مارتا اور ایک اور گرنے کا انتظار کرتا ۔​
اب یہی سوال ہمارے سامنے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات سے بے حد و بے اندازہ پیار کرتا ہے تو پھر کیا وجہ بنی کہ قوم عاد و ثمود ، وغیرہ وغیرہ پر اللہ نے عذاب نازل کر دیا ۔ کیا (نعوذ باللہ ) اللہ تعالیٰ کو اپنی اس مخلوق سے پیار نہیں تھا۔۔۔؟؟ یقینا ً تھا ، اور اتنا ہی تھا جتنا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی باقی مخلوقات سے ہے ، مگر جب وہ حد سے گزر گئے تو اللہ کا غضب بھی اللہ تعالیٰ کے پیار پر غالب آ گیا ۔ اور ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ اس کائنات میں کچھ بھی بے سبب نہیں ہوتا ، نیوٹن کا قانون بھی کچھ یہی ثابت کرتا ہے کہ "ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے"​
اور کچھ ایسا ہی اپنے میر تقی میرؔ صاحب فرما گئے ہیں :۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں ٭٭ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ۔​
اب سوال یہ سامنے ہے کہ خالق (اللہ ) کو اپنی مخلوقات سے اتنا پیار کیوں ہے ۔۔۔؟؟؟؟ ایک ماں کو اپنی اولاد اتنی پیاری کیوں ہوتی ہے ۔۔۔۔؟؟؟​
اس سوال کا سب سے درست جواب صرف اور صرف ایک ماں ہی دے سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی نہیں ۔​
مولانا حضرات بے شک اپنے خطبات میں علم و معانی کے دریا بہا دیں ، کہ قبر میں یہ یہ عذاب ہوتا ہے ، قبر ایسے مردے کو بھینچتی ہے ، قبر میں سانپ بچھو ہوتے ہیں ۔ یا پھر کسی کیلئے قبر جنت کا ایک باغ ہوتی ہے ، قبر میں کملی والے سرکار ﷺ کا دیدار نصیب ہوگا ۔مگر ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں ، کوئی قبر میں یہ سب دیکھ کر نہیں آیا ، سبھی اندازے لگاتے ہیں ۔ قبر کے حال سے واقف اگر کوئی ہے تو صرف وہی میت جو اس میں دفن ہے ۔ اسی کو معلوم ہے کہ جنت کا باغ ہے یا دوزخ کا گڑھا ۔​
بالکل ایسے ہی کوئی جتنا مرضی سیانا آجائے ، جیسا بھی مکاشفتہ القلوب کا ماہر ہو وہ اس کا رتی برابر بھی اندازہ نہیں کر سکتا کہ ایک ماں کو اپنے بچے سے کتنا پیار ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے ۔ اس سوا ل کا درست ترین جواب صرف ایک ماں ہی دے سکتی ہے ۔ ہم میں سے کوئی ان تکالیف کا اندازہ بھی کر سکتا جو ایک ماں کو تخلیق کے مراحل سے گزرتے ہوئے سہنی پڑتی ہیں ۔ کوئی مائی کا لال اس تکلیف کا ایک فیصد بھی نہیں سوچ سکتا جوایک ماں زچگی کے مرحلے میں سہہ کر اولاد کو جنم دیتی ہے ۔یہ سب ہو گیا ، اب ایک حدیث شریف سنیے تاکہ آپ کو کچھ اندازہ ہو کہ ماں کے پیروں کے نیچے جنت کیوں رُل رہی ہے ۔" دودھ پلانے کا مرحلہ اتنا سخت ہے کہ ایک شہ سوار کو بھی گھوڑے کی پیٹھ سے گرانے کو کافی ہے۔" (ترجمہ خود کیا ہے اس لیے کسی غلطی پر معذرت ) تو پھر ہم کیسے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ماں کا بچے سے پیار کتنا اور کیوں ہے۔؟ بے شک دیکھنے والوں کو میں بدصورت ، بد شکل اور کوجھا لگتا ہوں ۔مجھے دیکھ کر کئی لوگوں کا حلق کڑوا ہوجاتا ہے ، مجھے اس بات کابھی ا ندازہ ہے ۔ مگر کوئی اس بات کا اندازہ نہیں کر سکتا کہ میں اپنی اماں جان کو کتنا پیارا ہوں ۔صرف میں ہی کیوں ہر ایک ماں کو اپنا ہر بچہ اتنا ہی پیارا ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس نے اسے جنا ہے ، اور ہنسی تو مجھے ان احمقوں پر آتی ہے جوکسی کو حقیر جانتے ہیں یا اس میں سے کیڑے یا نقص نکالتے ہیں ۔کبھی خود سے تخلیق کی تلخی چکھ کر دیکھیں ، لگ پتا نہ جائے تو میرا نام بھی چھوٹا غالبؔ نہیں ۔​
ایک آدمی کا بیٹا نکھٹو تھا ۔ تنگ آ کر اس نے بیٹے کو الٹی میٹم دیا کہ یا تو کما کر لاؤ یا پھر اس گھر سے دفع ہو جاؤ ۔ ماں تو ماں ہوتی ہے ، وہ اپنے بیٹے کو ایک روپیہ دے کر کہتی کہ شام کو آ کر یہی روپیہ باپ کی ہتھیلی پر رکھ دینا کہ کما کر لایا ہوں ۔ بیٹے نے ایسا ہی کیا ، سارا دن فارغ پھرتا اور شام کو آ کر ماں کا دیاہوا ایک روپیہ باپ کے حوالے کردیتا ۔ باپ وہ روپیہ لیکر چولہے میں پھینک دیتا ۔ کافی عرصہ یہی معمول رہا ۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ماں کے پاس بیٹے کو دینے کیلئے روپیہ نہ تھا ، مجبوراً اسے مزدوری کر کے ایک روپیہ کمانا پڑا ۔ شام کو حسبِ معمول جب روپیہ باپ کے حوالے کیا اور باپ نے وہ چولہے میں پھینکا تو بیٹے نے تڑپ کے آگ میں ہاتھ ڈالا اور روپیہ نکال کے بولا ابا جان یہ کیا طریقہ ہے ؟ میری محنت کی کمائی کو اس طرح چولہے میں پھینک دیا ؟۔ باپ مسکرایا اور بولا بیٹا آج تک میں پیسے چولہے میں پھینکتا رہا ، مگر تجھے کوئی تکلیف ہوئی نہ احساس ، کیونکہ وہ تیری محنت کی کمائی نہیں تھی۔ آج جب تیری محنت کی کمائی چولہے میں پھینکی تو تجھے تکلیف ہوئی اور تو نے آگ کی پرواہ کیے بغیر اپنا روپیہ نکال لیا ۔ اب اسی کہانی کو ذہن میں رکھ کر فدوی کی گزارش کو دل سے پڑھیں ۔​
میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سب سے چھوٹے ضلع کے ایک دور دراز گاؤں میں رہتا ہوں۔ جہاں بجلی قطرہ قطرہ آتی ہے ۔بے وقت بجلی کی آنکھ مچولی پر جو کوفت ہوتی ہے سو ہوتی ہے مگر جو تکلیف ٹائپنگ کا ردھم ٹوٹنے پر ہوتی ہے اس کا اندازہ کوئی میرے جیسا اناڑ ی ہی کر سکتا ہے ۔ اس کے بعد میرے پاس نیٹ کنکشن کیلئے پی ٹی سی ایل وی وائرلیس ہے ، اور پی ٹی سی ایل کا ٹاور میرے گاؤں سے 13کلومیٹر دور ہے ، مجھ تک صرف ایک یا دو سگنل پہنچتے ہیں ۔(اب وہ بھی نہیں آتے ) مجبورا ً مجھے موٹرسائیکل مانگ کر (ادارے کی طرف سے گاڑی ملی تھی جب جاب گئی تو گاڑی بھی گئی) 13 کلومیٹر دور لودھراں شہر جا کر کسی نیٹ کیفے میں پوسٹنگ کرنی پڑتی ہے ۔​
اور اس ساری خجل خواری کے باوجود جب اردو محفل میرے ساتھ وہ سلوک کرے جو برہمن کسی شودر کے ساتھ کرتے ہیں ۔ تو کس کا حلق کڑوا نہیں ہوگا؟؟​
ایک تخلیق کار ہی سمجھ سکتا ہے کہ لکھتے وقت لکھاری کس دباؤ اور ذہنی اذیت میں ہوتا ہے ۔​
مگر انڈہ فرائی کر کے یا ابال کے نگل جانے والے کو کیا معلوم کہ مرغی کس عذاب سے سے گزری یہ انڈہ دیتے وقت۔​
جیسے اللہ کو اپنی مخلوقات میں سے ہر ایک پیارا ہے ، جیسے ایک ماں کو اپنا بچہ پیارا ہوتا ہے ، جیسے ایک شاعر کو اپنا ہر ایک شعر پیارا ہوتا ہے ، ویسے ہی مجھے بھی اپنی ہر ایک تحریر کا ایک ایک لفظ پیارا ہے ۔ اور اس سے پیار کرنے اور اس کا دفاع کرنے کا مجھے پورا پورا حق ہے ۔اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں کبھی بھی کسی کی تضحیک کیلئے نہیں لکھتا، مقصد صرف مزاح ہوتا ہے ۔ اور مزاح صرف مزاح ہوتا ہے ۔ اسے کوئی اور معنیٰ دینے کی کوشش سراسر آپ کی اپنی ہے اس میں بے چارا مصنف کسی قسم کا ذمہ دار نہیں ۔ کسی کی سمجھ شریف میں اگر میری تحریر نہ آئے یا ان کے سر سے گزر جائے تو وہ اپنی کج فہمیوں کو میری تحریر کا عیب نہ بنائیں ۔ میری کوئی تحریر اگرکسی کو آئینہ دکھا دیتی ہے ، تو اسے اپنے اندر کی خبر لینی چاہیے نہ کہ میرے خلاف جلسے جلوس نکالنے چاہییں ۔​
مثلاً​
میں نے ایک تحریر لکھی جس میں ، سورۃ بقرہ ، سورۃ کہف، سورۃ الطارق، سورۃ منافقون وغیرہ کی نہ صرف آیات بلکہ ترجمہ بھی بلا تکلف شامل تحریر ہوتا گیا ۔ مگر مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب میں نے ایک صاحب کا تبصرہ پڑھا ، جو مجھے کہہ رہے تھے "اتنی تحقیق قرآن میں کی ہوتی تو پائے کے عالم ہوتے" ۔ اور میں کنفیوز ہوگیا کہ اس بات پر زور زور کے قہقہے لگاؤں ، یا اپنا سر پیٹ لوں ۔ یا پھر اس صاحبِ فہم و ذکا سے پوچھوں کہ جناب آپ کہیں 32 سیپاروں والے قرآن مجید کی بات تو نہیں کر رہے۔؟ کیونکہ جو 30 پاروں والا قرآن میں پڑھتا اور سمجھتا تھا اور جس کی آیات اور ان کا ترجمہ میں نے شامل ِ تحریر کیا تھا اس کو تو جناب قرآن ہی نہیں سمجھتے ۔ اور کچھ ایسےصاحبان ِ علم و دانش تھے جنہوں نے محض لفظ قرآن کو دیکھ کر اس تبصرے پر متفق ، زبردست ، اور نجانے کیا کیا ریٹنگ دی ہوئی تھی ۔ اور میں منٹو کا "کبیرا " بنا غالبؔ کے اس شعر میں ڈوب گیا :۔" حیران ہوں دل کو روؤں ، کہ پیٹوں جگر کو میں ۔" کیونکہ یہاں تو ہمیشہ ہی ایسی صورتِ حال پیش آتی ہے "مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں۔ "​
آپ ہی بتائیے کہ میں کیا کروں ، کہ مسلمان آج صرف لفظ قرآن کو جانتا ہے ۔ یہ نہیں جانتا کہ قرآن کے اندر کیا ہے ۔؟ قرآن کو ہم نے صرف قسمیں کھانے کیلئے محدود کر دیا ہے ۔ کسی نے بزعم ِ خود مجھے ایک بار اسی محفل پر طعنہ بھی مارا تھا کہ چھوٹے غالب نے "قرآن کو ریفرنس بک بنا لیا ہے۔"​
عرض کیا ہے (کبھی کبھی کر لیتا ہوں )​
پہلے اپنی سوچ کو تعمیر کر​
پھر مرے افکار کی تفسیر کر​
ایسے لوگ بھی ہیں جو خود تو کچھ لکھ نہیں سکتے مگر کسی کو لکھتا بھی نہیں دیکھ سکتے ۔ کیونکہ اس سے ان کی مناپلی اور اجارہ داری پر ضرب کلیم لگتی ہے۔ ان میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں کہ کسی غریب کا حوصلہ بڑھا دیں۔ وہ صرف ناپسند یا غیر متفق پر کلک کر کے اپنے آپ کو چنگیز خان سمجھ لیتے ہیں ۔ اکثر لوگوں نے یہ پراپیگنڈہ پھیلایا ہوا ہے کہ چھوٹا غالب ؔ ریٹنگ کا خبطی ہے ، یا بداخلاقی کا دیوتا ہے ۔ تو ان سب کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ بھاڑ میں گئی ریٹنگ ، اور رہی بداخلاقی تو بقول حالی ؔ:۔ ہے ادب شرط بس منہ نہ کھلوائیں ٭٭ ہم نے سب کا کلام دیکھا ہے​
حضرت علی المرتضی ٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول پیش ہے:۔ کسی کے اندر عیب ڈھونڈنے والا اس مکھی کی طرح ہے جو سارا صاف ستھرا جسم چھوڑ کر اس جگہ بیٹھنا پسند کرتی ہے جہاں غلاظت لگی ہو ۔​
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہ میرے محترم کیا اعلی تحریر لکھی ہے
ایک تخلیق کار ہی سمجھ سکتا ہے کہ لکھتے وقت لکھاری کس دباؤ اور ذہنی اذیت میں ہوتا ہے ۔
مگر انڈہ فرائی کر کے یا ابال کے نگل جانے والے کو کیا معلوم کہ مرغی کس عذاب سے سے گزری یہ انڈہ دیتے وقت۔
اب سچ بولا ہو تو سزا وجزا بنا وضاحت کے قبول کرنا لازم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں کبھی بھی کسی کی تضحیک کیلئے نہیں لکھتا، مقصد صرف مزاح ہوتا ہے ۔ اور مزاح صرف مزاح ہوتا ہے​
میرا مقصد بھی صرف یہی ہوتا ہے۔ پر میں تیرے جتنا اچھا نہیں لکھتا۔ :cry:
وحشی تحریریں ہوتی ہیں تیری۔ :applause:
 

عسکری

معطل
یار آپ ایک آئی پوڈ - ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ لے لیں بجلی جائے گی تو بھی آپ کی ٹائپنگ بند نہیں ہو گی :rolleyes:
 

باباجی

محفلین
ہر کوئی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے ستر ماؤں کے مجموعی پیار سے بھی زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے ۔ لیکن کوئی یہ نہیں جانتا کہ ایک ماں اپنی اولاد سے کتنا پیار کرتی ہے ۔ جب کوئی ایک ماں کے پیار کا اندازہ نہیں کر سکتا تو کوئی کیسے حساب لگائے گا کہ ستر ماؤں کے مجموعی پیار سے بھی زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرنےوالے اللہ کا اپنی مخلوقات سے پیار کتنا ہوگا۔ اس کے باوجود قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ہم سے پہلے گزر چکی قوموں پر اللہ کا عذاب کا نازل ہوتا رہا ۔عقل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اللہ نے سب کو دی ہے ، اور قرآن مجید بار بار غورو فکر کی دعوت دیتا ہے کہ اس کائنات میں کچھ بھی بے سبب اور بے جوڑ نہیں ہے ۔ ساری کائنات ایک مربوط نظام کے تحت ایک دوسرے سے جڑی ہے ۔​
ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ بر صغیر میں کسی ان پڑھ سےپوچھ لیں کہ مغلیہ سلطنت کیوں زوال پذیر ہوئی تو جواب ہوگا اللہ کی یہی مرضی تھی۔ لیکن یہی سوال اگر کسی بھی تاریخ کے طالب علم سے پوچھا جائے کہ مغلیہ سلطنت کیوں زوال پذیر ہوئی ، تو اس کا جواب یہ نہیں ہوگا کہ اللہ کی یہی مرضی تھی ۔ بلکہ وہ آپ کو باقاعدہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے اسباب بتائے گا ۔وہ صرف انگریزوں کی چالبازیوں اور ریشہ دوانیوں کو ہی سبب نہیں بتائے گا ۔ بلکہ وہ مغل بادشاہوں کی نالائقی ، آرام پسندی ، ناانصافی کا دور دورہ ، اور آپسی چپقلش وغیرہ کا بھی ذکر کرے گا۔​
اور یہی ہے ایک جاہل اور پڑھے لکھے آدمی کا فرق ۔ نیوٹن کی مثال سب کے سامنے ہے ۔ سیب گرا تو وہ اللہ کا بندہ بجائے اسے کھانے کے اس سوچ میں پڑ گیا کہ سیب درخت سے نیچے کیوں گرا ، یہ اوپر بھی تو جا سکتا تھا ۔ اور یہی سوچنے کی عادت اسے بابائے فزکس بنا گئی ۔ کوئی میرےجیسا ہوتا تو وہ مزے سے سیب کھا کے ڈکار مارتا اور ایک اور گرنے کا انتظار کرتا ۔​
اب یہی سوال ہمارے سامنے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات سے بے حد و بے اندازہ پیار کرتا ہے تو پھر کیا وجہ بنی کہ قوم عاد و ثمود ، وغیرہ وغیرہ پر اللہ نے عذاب نازل کر دیا ۔ کیا (نعوذ باللہ ) اللہ تعالیٰ کو اپنی اس مخلوق سے پیار نہیں تھا۔۔۔ ؟؟ یقینا ً تھا ، اور اتنا ہی تھا جتنا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی باقی مخلوقات سے ہے ، مگر جب وہ حد سے گزر گئے تو اللہ کا غضب بھی اللہ تعالیٰ کے پیار پر غالب آ گیا ۔ اور ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ اس کائنات میں کچھ بھی بے سبب نہیں ہوتا ، نیوٹن کا قانون بھی کچھ یہی ثابت کرتا ہے کہ "ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے"​
اور کچھ ایسا ہی اپنے میر تقی میرؔ صاحب فرما گئے ہیں :۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں ٭٭ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ۔​
اب سوال یہ سامنے ہے کہ خالق (اللہ ) کو اپنی مخلوقات سے اتنا پیار کیوں ہے ۔۔۔ ؟؟؟؟ ایک ماں کو اپنی اولاد اتنی پیاری کیوں ہوتی ہے ۔۔۔ ۔؟؟؟​
اس سوال کا سب سے درست جواب صرف اور صرف ایک ماں ہی دے سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی نہیں ۔​
مولانا حضرات بے شک اپنے خطبات میں علم و معانی کے دریا بہا دیں ، کہ قبر میں یہ یہ عذاب ہوتا ہے ، قبر ایسے مردے کو بھینچتی ہے ، قبر میں سانپ بچھو ہوتے ہیں ۔ یا پھر کسی کیلئے قبر جنت کا ایک باغ ہوتی ہے ، قبر میں کملی والے سرکار ﷺ کا دیدار نصیب ہوگا ۔مگر ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں ، کوئی قبر میں یہ سب دیکھ کر نہیں آیا ، سبھی اندازے لگاتے ہیں ۔ قبر کے حال سے واقف اگر کوئی ہے تو صرف وہی میت جو اس میں دفن ہے ۔ اسی کو معلوم ہے کہ جنت کا باغ ہے یا دوزخ کا گڑھا ۔​
بالکل ایسے ہی کوئی جتنا مرضی سیانا آجائے ، جیسا بھی مکاشفتہ القلوب کا ماہر ہو وہ اس کا رتی برابر بھی اندازہ نہیں کر سکتا کہ ایک ماں کو اپنے بچے سے کتنا پیار ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے ۔ اس سوا ل کا درست ترین جواب صرف ایک ماں ہی دے سکتی ہے ۔ ہم میں سے کوئی ان تکالیف کا اندازہ بھی کر سکتا جو ایک ماں کو تخلیق کے مراحل سے گزرتے ہوئے سہنی پڑتی ہیں ۔ کوئی مائی کا لال اس تکلیف کا ایک فیصد بھی نہیں سوچ سکتا جوایک ماں زچگی کے مرحلے میں سہہ کر اولاد کو جنم دیتی ہے ۔یہ سب ہو گیا ، اب ایک حدیث شریف سنیے تاکہ آپ کو کچھ اندازہ ہو کہ ماں کے پیروں کے نیچے جنت کیوں رُل رہی ہے ۔" دودھ پلانے کا مرحلہ اتنا سخت ہے کہ ایک شہ سوار کو بھی گھوڑے کی پیٹھ سے گرانے کو کافی ہے۔" (ترجمہ خود کیا ہے اس لیے کسی غلطی پر معذرت ) تو پھر ہم کیسے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ماں کا بچے سے پیار کتنا اور کیوں ہے۔؟ بے شک دیکھنے والوں کو میں بدصورت ، بد شکل اور کوجھا لگتا ہوں ۔مجھے دیکھ کر کئی لوگوں کا حلق کڑوا ہوجاتا ہے ، مجھے اس بات کابھی ا ندازہ ہے ۔ مگر کوئی اس بات کا اندازہ نہیں کر سکتا کہ میں اپنی اماں جان کو کتنا پیارا ہوں ۔صرف میں ہی کیوں ہر ایک ماں کو اپنا ہر بچہ اتنا ہی پیارا ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس نے اسے جنا ہے ، اور ہنسی تو مجھے ان احمقوں پر آتی ہے جوکسی کو حقیر جانتے ہیں یا اس میں سے کیڑے یا نقص نکالتے ہیں ۔کبھی خود سے تخلیق کی تلخی چکھ کر دیکھیں ، لگ پتا نہ جائے تو میرا نام بھی چھوٹا غالبؔ نہیں ۔​
ایک آدمی کا بیٹا نکھٹو تھا ۔ تنگ آ کر اس نے بیٹے کو الٹی میٹم دیا کہ یا تو کما کر لاؤ یا پھر اس گھر سے دفع ہو جاؤ ۔ ماں تو ماں ہوتی ہے ، وہ اپنے بیٹے کو ایک روپیہ دے کر کہتی کہ شام کو آ کر یہی روپیہ باپ کی ہتھیلی پر رکھ دینا کہ کما کر لایا ہوں ۔ بیٹے نے ایسا ہی کیا ، سارا دن فارغ پھرتا اور شام کو آ کر ماں کا دیاہوا ایک روپیہ باپ کے حوالے کردیتا ۔ باپ وہ روپیہ لیکر چولہے میں پھینک دیتا ۔ کافی عرصہ یہی معمول رہا ۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ماں کے پاس بیٹے کو دینے کیلئے روپیہ نہ تھا ، مجبوراً اسے مزدوری کر کے ایک روپیہ کمانا پڑا ۔ شام کو حسبِ معمول جب روپیہ باپ کے حوالے کیا اور باپ نے وہ چولہے میں پھینکا تو بیٹے نے تڑپ کے آگ میں ہاتھ ڈالا اور روپیہ نکال کے بولا ابا جان یہ کیا طریقہ ہے ؟ میری محنت کی کمائی کو اس طرح چولہے میں پھینک دیا ؟۔ باپ مسکرایا اور بولا بیٹا آج تک میں پیسے چولہے میں پھینکتا رہا ، مگر تجھے کوئی تکلیف ہوئی نہ احساس ، کیونکہ وہ تیری محنت کی کمائی نہیں تھی۔ آج جب تیری محنت کی کمائی چولہے میں پھینکی تو تجھے تکلیف ہوئی اور تو نے آگ کی پرواہ کیے بغیر اپنا روپیہ نکال لیا ۔ اب اسی کہانی کو ذہن میں رکھ کر فدوی کی گزارش کو دل سے پڑھیں ۔​
میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سب سے چھوٹے ضلع کے ایک دور دراز گاؤں میں رہتا ہوں۔ جہاں بجلی قطرہ قطرہ آتی ہے ۔بے وقت بجلی کی آنکھ مچولی پر جو کوفت ہوتی ہے سو ہوتی ہے مگر جو تکلیف ٹائپنگ کا ردھم ٹوٹنے پر ہوتی ہے اس کا اندازہ کوئی میرے جیسا اناڑ ی ہی کر سکتا ہے ۔ اس کے بعد میرے پاس نیٹ کنکشن کیلئے پی ٹی سی ایل وی وائرلیس ہے ، اور پی ٹی سی ایل کا ٹاور میرے گاؤں سے 13کلومیٹر دور ہے ، مجھ تک صرف ایک یا دو سگنل پہنچتے ہیں ۔(اب وہ بھی نہیں آتے ) مجبورا ً مجھے موٹرسائیکل مانگ کر (ادارے کی طرف سے گاڑی ملی تھی جب جاب گئی تو گاڑی بھی گئی) 13 کلومیٹر دور لودھراں شہر جا کر کسی نیٹ کیفے میں پوسٹنگ کرنی پڑتی ہے ۔​
اور اس ساری خجل خواری کے باوجود جب اردو محفل میرے ساتھ وہ سلوک کرے جو برہمن کسی شودر کے ساتھ کرتے ہیں ۔ تو کس کا حلق کڑوا نہیں ہوگا؟؟​
ایک تخلیق کار ہی سمجھ سکتا ہے کہ لکھتے وقت لکھاری کس دباؤ اور ذہنی اذیت میں ہوتا ہے ۔​
مگر انڈہ فرائی کر کے یا ابال کے نگل جانے والے کو کیا معلوم کہ مرغی کس عذاب سے سے گزری یہ انڈہ دیتے وقت۔​
جیسے اللہ کو اپنی مخلوقات میں سے ہر ایک پیارا ہے ، جیسے ایک ماں کو اپنا بچہ پیارا ہوتا ہے ، جیسے ایک شاعر کو اپنا ہر ایک شعر پیارا ہوتا ہے ، ویسے ہی مجھے بھی اپنی ہر ایک تحریر کا ایک ایک لفظ پیارا ہے ۔ اور اس سے پیار کرنے اور اس کا دفاع کرنے کا مجھے پورا پورا حق ہے ۔اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں کبھی بھی کسی کی تضحیک کیلئے نہیں لکھتا، مقصد صرف مزاح ہوتا ہے ۔ اور مزاح صرف مزاح ہوتا ہے ۔ اسے کوئی اور معنیٰ دینے کی کوشش سراسر آپ کی اپنی ہے اس میں بے چارا مصنف کسی قسم کا ذمہ دار نہیں ۔ کسی کی سمجھ شریف میں اگر میری تحریر نہ آئے یا ان کے سر سے گزر جائے تو وہ اپنی کج فہمیوں کو میری تحریر کا عیب نہ بنائیں ۔ میری کوئی تحریر اگرکسی کو آئینہ دکھا دیتی ہے ، تو اسے اپنے اندر کی خبر لینی چاہیے نہ کہ میرے خلاف جلسے جلوس نکالنے چاہییں ۔​
مثلاً​
میں نے ایک تحریر لکھی جس میں ، سورۃ بقرہ ، سورۃ کہف، سورۃ الطارق، سورۃ منافقون وغیرہ کی نہ صرف آیات بلکہ ترجمہ بھی بلا تکلف شامل تحریر ہوتا گیا ۔ مگر مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب میں نے ایک صاحب کا تبصرہ پڑھا ، جو مجھے کہہ رہے تھے "اتنی تحقیق قرآن میں کی ہوتی تو پائے کے عالم ہوتے" ۔ اور میں کنفیوز ہوگیا کہ اس بات پر زور زور کے قہقہے لگاؤں ، یا اپنا سر پیٹ لوں ۔ یا پھر اس صاحبِ فہم و ذکا سے پوچھوں کہ جناب آپ کہیں 32 سیپاروں والے قرآن مجید کی بات تو نہیں کر رہے۔؟ کیونکہ جو 30 پاروں والا قرآن میں پڑھتا اور سمجھتا تھا اور جس کی آیات اور ان کا ترجمہ میں نے شامل ِ تحریر کیا تھا اس کو تو جناب قرآن ہی نہیں سمجھتے ۔ اور کچھ ایسےصاحبان ِ علم و دانش تھے جنہوں نے محض لفظ قرآن کو دیکھ کر اس تبصرے پر متفق ، زبردست ، اور نجانے کیا کیا ریٹنگ دی ہوئی تھی ۔ اور میں منٹو کا "کبیرا " بنا غالبؔ کے اس شعر میں ڈوب گیا :۔" حیران ہوں دل کو روؤں ، کہ پیٹوں جگر کو میں ۔" کیونکہ یہاں تو ہمیشہ ہی ایسی صورتِ حال پیش آتی ہے "مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں۔ "​
آپ ہی بتائیے کہ میں کیا کروں ، کہ مسلمان آج صرف لفظ قرآن کو جانتا ہے ۔ یہ نہیں جانتا کہ قرآن کے اندر کیا ہے ۔؟ قرآن کو ہم نے صرف قسمیں کھانے کیلئے محدود کر دیا ہے ۔ کسی نے بزعم ِ خود مجھے ایک بار اسی محفل پر طعنہ بھی مارا تھا کہ چھوٹے غالب نے "قرآن کو ریفرنس بک بنا لیا ہے۔"​
عرض کیا ہے (کبھی کبھی کر لیتا ہوں )​
پہلے اپنی سوچ کو تعمیر کر​
پھر مرے افکار کی تفسیر کر​
ایسے لوگ بھی ہیں جو خود تو کچھ لکھ نہیں سکتے مگر کسی کو لکھتا بھی نہیں دیکھ سکتے ۔ کیونکہ اس سے ان کی مناپلی اور اجارہ داری پر ضرب کلیم لگتی ہے۔ ان میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں کہ کسی غریب کا حوصلہ بڑھا دیں۔ وہ صرف ناپسند یا غیر متفق پر کلک کر کے اپنے آپ کو چنگیز خان سمجھ لیتے ہیں ۔ اکثر لوگوں نے یہ پراپیگنڈہ پھیلایا ہوا ہے کہ چھوٹا غالب ؔ ریٹنگ کا خبطی ہے ، یا بداخلاقی کا دیوتا ہے ۔ تو ان سب کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ بھاڑ میں گئی ریٹنگ ، اور رہی بداخلاقی تو بقول حالی ؔ:۔ ہے ادب شرط بس منہ نہ کھلوائیں ٭٭ ہم نے سب کا کلام دیکھا ہے​
حضرت علی المرتضی ٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول پیش ہے:۔ کسی کے اندر عیب ڈھونڈنے والا اس مکھی کی طرح ہے جو سارا صاف ستھرا جسم چھوڑ کر اس جگہ بیٹھنا پسند کرتی ہے جہاں غلاظت لگی ہو ۔​
میرے بھائی غالب میں نے طعنہ نہیں مارا تھا
میں مردوں کی طرح کھلی اور صاف بات کرتا ہوں
منافقوں کی طرح ڈھکی چھپی نہیں
آپ "بزعم خود" کی جگہ میرا نام لکھتے تو خوشی ہوتی مجھے
اور آج بھی کہتا ہوں صرف آپ نہیں اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو بجائے عمل کے قرآن کریم کو اپنی علمی قابلیت و رعب جھڑنے کے لیئے
بطور ریفرنس بُک استعمال کرتے ہیں

آپ سے میری مؤدبانہ گزارش ہے اگر کہیں کوئی بات میرے لیئے یا میرے حوالے سے کہنی ہو تو صاف میرا نام لے کر کہیں
کیونکہ مجھے کسی قسم کا کوئی زعم نہیں ہے اور نہ میں کسی کا خود ساختہ شاگرد ہوں

شکریہ
 

مہ جبین

محفلین
ہر نظر بس اپنی اپنی روشنی تک جاسکی
ہر کسی نے اپنے اپنے ظرف تک پایا تجھے
اس شعر میں سب کچھ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹاغالبؔ
تحریر کی روانی اور سوز و گداز اپنی مثال آپ ہے​
لاجواب اور عمدہ اندازِ تحریر​
زبردست​
 

عسکری

معطل
میرے بھائی غالب میں نے طعنہ نہیں مارا تھا
میں مردوں کی طرح کھلی اور صاف بات کرتا ہوں
منافقوں کی طرح ڈھکی چھپی نہیں
آپ "بزعم خود" کی جگہ میرا نام لکھتے تو خوشی ہوتی مجھے
اور آج بھی کہتا ہوں صرف آپ نہیں اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو بجائے عمل کے قرآن کریم کو اپنی علمی قابلیت و رعب جھڑنے کے لیئے
بطور ریفرنس بُک استعمال کرتے ہیں

آپ سے میری مؤدبانہ گزارش ہے اگر کہیں کوئی بات میرے لیئے یا میرے حوالے سے کہنی ہو تو صاف میرا نام لے کر کہیں
کیونکہ مجھے کسی قسم کا کوئی زعم نہیں ہے اور نہ میں کسی کا خود ساختہ شاگرد ہوں

شکریہ
یہ کیا مسلہ چل ریا ہے یہاں پر کچھ لا انفورسمنٹ کو بتائیں گے ذرا ساجد بھائی :biggrin:
 

سید زبیر

محفلین
عزیزم@چھوٹاغالبؔ ،اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔ ۔ ۔ بہت حساس تحریر ایک خوبصورت ذہن کی عکاس ۔ ۔ ۔ جیتے رہیں
 
اکثر لوگوں نے یہ پراپیگنڈہ پھیلایا ہوا ہے کہ چھوٹا غالب ؔ ریٹنگ کا خبطی ہے ، یا بداخلاقی کا دیوتا ہے ۔
اگر معیار کو خبط تصور کیا جائے تو یہ ایک بےوقوفانہ بات ہوگی۔​
بھائی جان آپ کی ریٹنگ بتاتی ہے کہ آپ کو لوگ کس قدر پسند کرتے ہیں۔ کوئی دوسرا قریب بھی نہیں آپ کے۔​
دیوتا تو آپ ہیں مگر تحریروں کے۔ محفل کی شان تصور کرتا ہوں میں آپ کو۔​
:applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause:
یہ قوال نہیں بٹھائے میں نے۔:D
تالیاں بجوارہا ہوں آپ کی تحریروں پر۔۔۔​
میں انیس ہوں اکثر نہیں۔۔۔:D
 
Top