درست کہا ۔ میں بھی ساری عمر اسے وتیرہ ہی لکھتا آیا ہوں ۔
یہ دیکھئے میری ایک پرانی غزل کا ربط۔ لیکن اب وطیرہ کو ایک نیا طوطا سمجھئے ۔
میں پچھلے ایک دو سالوں سے کوشش کررہا ہوں کہ املا نامہ کی سفارشات پر عمل کروں اور متنازعہ الفاظ کو ایک معیاری املا سے لکھنے کی کوشش کروں ۔ املا کمیٹی کا کہنا ہے کہ املا کے سلسلے میں چلن یا رواج کو مقدم رکھنا ضروری ہے۔ سو اب میں بھی وطیرہ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے پچاس سالوں میں لوگ وتیرہ کو بالکل ہی بھول بھال جائیں ۔
یاسر بھائی ، وطیرہ کے استعمال سے میں بخوبی واقف ہوں ۔ تاہم لغت کا ربط دینے کا شکریہ ۔ اس شعر میں وطیرہ بنا رکھنا ہی کا محل ہے لیکن اسے میرا عجزِ کلام سمجھئے کہ وطیرہ رکھنا نظم ہوسکا ۔ ویسے تو یہاں بات ختم ہوجاتی ہے ۔ لیکن اس کا دفاع کرنا چاہوں تو یہ کہوں گا کہ زبان ایک جیتی جاگتی شے ہے ۔ وقت کے ساتھ ذرا ذرا سی بدلتی رہتی ہے ۔ زبان میں کچھ کچھ تبدیلیاں آنا ایک ناگزیر عمل ہے ۔ فرہنگ آصفیہ اب ایک سو پچیس سال اور نوراللغات سو سال کی عمروں کو پہنچیں ۔ فیروزاللغات بھی ایک سو بیس سال کی ہوگئی ۔ جو محاورے اُن وقتوں میں مروج تھے ان میں سے کچھ بدل بھی گئے ہیں اور بہت سارے نئے محاورے بھی ایجاد ہوگئے ہیں ۔ مثلاً ’’مہارت رکھنا‘‘ ایک عام سا روز مرہ ہے اور تحریر و تقریر میں بلا تکلف استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن یہ آپ کو فرہنگ اور نوراللغات اور فیروزاللغات میں نہیں ملے گا ۔ جدید لغات میں البتہ مل جائے گا ۔ سو شاعر کو اتنی سی آزادی دی جاسکتی ہے کہ وہ شعری ضرورت کے تحت ایک حد میں رہتے ہوئے لسانی قواعد کو مجروح کئے بغیر کسی لفظ یا محاورے کے ساتھ کھیل سکے ۔ یعنی کسی لفظ کو اُسی قبیل کے دیگر الفاظ پر قیاس کرتے ہوئے کہیں کہیں شعری ضرورت کے تحت ایک خاص انداز سے استعمال کرنا اتنا معیوب نہیں ۔ اور اسی طرح زبان میں وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ ایک مشہور شعر اس وقت یاد آرہا ہے۔
پتھرو ! آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے
اب اصل محاورہ تو خدا بنانا اور خدا بنا رکھنا ہے ۔ لیکن شعری پابندیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا ۔ چنانچہ محاورے سے انحراف کے باوجود یہ شعر برا نہیں ہے ۔ اپنے مفہوم کے ابلاغ میں کامیاب ہے ۔ اب اس سے زیادہ لکھوں گا تو ایک اور نئی بحث شروع ہوجائے گی ۔ اور اُس کے لئے میں کہاں سے وقت نکالوں گا ۔
سو اس بات کو یہاں پر ختم کرتا ہوں کہ وطیرہ کے اس طرح استعمال کو میری عاجز کلامی سمجھئے ۔
یاسر میاں ، آپ یہاں صرف موت ہی کو عدم کیوںسمجھ رہے ہیں ۔ زندگی کے وجود میں آنے سے پہلے کا عرصہ بھی تو عدم کہلاتا ہے ۔ یعنی زندگی عدم سے وجود میں آئی اور موت کے بعد پھر عدم ہوگئی ۔ سو اس طرح زندگی اپنا سفر پورا کرکے جہاں سے چلی تھی وہیں پہنچ گئی ۔ یعنی دائرہ مکمل ہوگیا ۔ یہ تو بالکل سیدھا سا شعر ہے ۔
’’پھر‘‘ واضح طور پر بھرتی کا ہے ۔ بعض اوقات شاعر کے لئے بھرتی کا لفظ رکھنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کیونکہ مصرع کی متبادل صورت نسبتاً زیادہ قبیح ہوتی ہے ۔ یہاں پہلے مصرع کی ابتدائی صورت یہ تھی:
کھلی کی کھلی رہ گئیں دونوں آنکھیں
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دونوں آنکھیں کہنا خلافِ محاورہ ہے ۔ اور ایسا کہنے سے جو لفظی تصویر ذہن میں بنتی ہے وہ ناگوار بھی ہے ۔ سو اس کے مقابلے میں بھرتی کا ایک لفظ رکھنا مجھے زیادہ بہتر محسوس ہوا ۔ شعری تخلیق کے دوران شاعر کو ایسے پیچیدہ فیصلے اپنی صوابدید اور ذوق کے مطابق کرنے ہی ہوتے ہیں ۔
یہ تبصرہ بھی باعثِ حیرت ہوا ۔ یاسر بھائی ، اس شعر کا یہ مطلب کیسے ہوگیا ؟! پتا پوچھنا ایک مستند اور عام محاورہ ہے جس کے معنی ہیں تلاش کرنا (حوالے کے لئے کوئی بھی لغت دیکھ لیجئے) ۔ سو یہ کہنا کہ موت زندگی کی تلاش میں ہے ایک عام سی بات ہے ۔ میری طرح آپ نے بھی یہ بات مذہبی اور ادبی نثر میں متعدد بار پڑھی ہوگی۔ سنی ہوگی ۔ یہ پیرایہء اظہار بڑا لطیف ہے اور سننے والے پر ایک نقش چھوڑتا ہے ۔ مثال کے لئے فی الحال آپ شان الحق حقی صاحب کا یہ شعر دیکھئے کہ مشہور ماہرِ لسانیات اور لغت نویس تھے:
بڑی تلاش سے ملتی ہے زندگی اے دوست
قضا کی طرح پتا پوچھتی نہیں آتی
سو میرے شعر کا سیدھا سا لفظی مطلب یہ ہوا کہ اے بے خبر زندگی غفلت سے باز آجا ، موت تیری تلاش میں ہے ۔ اب اگر آپ سطحی نظر سےدیکھیں گے اور کہیں گے کہ ملک الموت کو تو معلوم ہے کہ کس کی روح قبض کرنی ہے اور کہاں کرنی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ تو بہت مشکل ہوجائے گی ۔ یہ شاعرانہ اندازہے ۔ ا س طرح کا پیرایہء اظہار ہی تو شاعری کو عام تحریر سے ممتاز کرتا ہے ۔ شاعری میں عموماً لفظوں کے ( Concrete) یعنی جامد اور لغوی پہلو کے بجائے (abstract) یعنی تجریدی پہلو مراد لیا جاتا ہے ۔ اگر شاعری کو اس طرح سطحی اور منطقی انداز سے دیکھا جائے گا تو پھر اردو کے اچھے خاصے اشعار قلمزد کرنے پڑیں گے ۔ ایک مشہور شعر دیکھئے کہ جو ضرب المثل کا درجہ اختیار کرگیا ہے:
میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں
اب یہاں یہ اعترض اٹھایا جاسکتا ہے کہ پتھر کے بت خود تو بھگوان نہیں بنتے بلکہ انسان انہیں بھگوان بناتے ہیں ۔ لیکن شعر کی خوبصورتی ہی اس پیرایہء اظہار میں ہے اور اسی طرح کہنے کی وجہ سے یہ شعر کم ظرف ، احسان فراموش آدمی پر منطبق ہوتا ہے ۔
منطقی توجیہہ تو شعر میں موجود ہے ۔ صرف شعر فہمی کی بات ہے ۔ پھول اور دامن کے استعاروں کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ جملے دیکھئے :
۔ اُس کی زندگی کا دامن کانٹوں سے پُر تھا ۔ (یعنی اس کی زندگی میں درد و غم اور مشکلات ہی تھیں)
۔ اُس کی زندگی کے دامن میں صرف پھول ہی پھول تھے ۔( یعنی اس کی زندگی میں محبت اور خوشیاں تھیں)
یہ استعارے اردو نثر ی ادب میں عام پائے جاتے ہیں ۔ یہ شعر انہی استعاروں کےسہارے لکھا گیا ہے ۔ یعنی زندگی کے دامن میں جتنی محبتیں اور خوشیاں ڈالی جائیں گی وہ اتنا ہی کشادہ ہوگا ۔ اب تنگ دامنی اور کشادہ دامنی کا مطلب بتانے کی یہاں شاید ضرورت نہیں ہے ۔
آپ کا کہا سر آنکھوں پر۔ یاسر بھائی ، شعر کی پسند یا ناپسند تو اپنے اپنے ذوق کی بات ہے ۔ ہر غزل تو میر اور غالب کی بھی اچھی نہیں ۔ تو پھر میں کس کھیت کی مولی ہوں ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو ہماری کوئی اور غزل پسند آجائے ۔ ایک آدھ دن میں پھر ٹائپ کرنے بیٹھتا ہوں اور لگاتا ہوں کوئی اور کلام ۔
یاسر شاہ