زیرک
محفلین
ہوا کا رخ کب بدلے گا؟ بدلے گا یہ یا صرف طفل تسلی ہے
چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اسلام آباد میں منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ عندیہ دیا ہے کہ “ہوا کا رخ بدلنے لگا ہے، کچھ عرصے میں آپ کو نظر آ جائے گا، بات بڑی سیدھی سی ہے ، جو کرے گا وہ بھرے گا۔ مالم جبہ اور بی آر ٹی پر ایکشن تیار ہے، تاہم بی آر ٹی پر عدالتوں کے اسٹے آرڈر کی وجہ سے ایکشن نہیں لیا جا سکتا ہے مگر حکم امتناع ختم ہوتے ہی ایکشن لیا جائے گا۔ قانون کی حکمرانی کسی کا رتبہ، چہرہ دیکھنا نہیں، نیب نے تعین کر لیا ہے کہ بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہے نیب کی جنگ صرف کرپشن نہیں، نظام کےخلاف ہے، کسی کے کفن میں جیب نہیں ہوتی، خود احتسابی کا عمل کوئی نیا تحفہ نہیں، خوداحتسابی سے بہت بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں، خوداحتسابی کا راستہ اختیار کیا جائے تو نیب، ایف آئی اے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ میرا پارلیمنٹ یا کسی اور ادارے پر تنقید کا ارادہ نہیں، کرپشن کے خاتمے کے لیے پہلی اینٹ رکھ دی، منزل کا تعین کر لیا ہے، پہلی بار بڑے بڑے چھکے مارنے والے جیلوں میں ہیں یا ملک سے روانہ ہو گئے ہیں۔ اقتدار کی ہوس کی خاطر ملک میں عجیب و غریب تجربات کیے گئے، کرپشن کے خاتمے تک ملک ترقی کے سفر پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ ملک میں کرپشن کے خلاف کارروائیوں کا کریڈٹ نیب کو جاتا ہے، حکومت، وزیروں اور سیاست دانوں سے گزارش ہے کہ پیش گوئیوں سے گریز کریں۔ گورنمنٹ اور اسٹیٹ میں فرق کرنا ہو گا، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ملک کو مدنظر رکھیں۔ پارلیمان قانون سازی کرے گی تو قانون کی حکمرانی کا تصور پورا ہو گا اور اگر ملک میں قانون سازی نہیں ہو گی تو قانون کی حکمرانی نہیں ہو گی۔ کرپشن کے مکمل خاتمے کا دعویٰ نہیں کر سکتے، معاشرے میں خوبصورت یا بدصورت شکل میں کرپشن موجود ہے، کرپشن کا خاتمہ صرف نیب نہیں ہر شہری کی ذمہ داری ہے”۔ چیئرمین نیب نے آنے والے دنوں میں جن ممکنہ اقدامات کا عندیہ دیا ہے وہ اگر واقعی میں ہونے جا رہے ہیں تو پھر سب کا یکساں احتساب کا نعرہ سچ دکھائی دے گا وگرنہ اسے صرف وقتی بیان بازی ہے سمجھا جائے گا کیونکہ قریباً ڈیڑھ سالہ موجودہ حکومتی دور میں تو چند مخصوص شخصیات کا ہی احتساب ہوتا نظر آیا ہے جن کا تعلق اپوزیشن سے ہے، حکومتی چھتری تلے چاہے وزیراعظم ہوں یا ان کے پارٹی یا ان کے وزراء یا صوبائی حکومتوں کے سرکردہ لوگ، ان سب کے خلاف کچھ نہیں ہوا۔ سب سے بڑی مثال پاکستان تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس ہے جسے 5 سال سے لٹکایا جا رہا ہے (اب تو اس کیس کا چلنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ اس وقت نہ تو چیف الیکشن کمشنر موجود ہیں اورنہ ہی سندھ و بلوچستان کے ممبرانِ الیکشن کمیشن، جب فارن فنڈنگ کیس کا نتھارا کرنے والا ادارہ ہی مکمل نہیں ہو گا تو کام کیسے چلے گا؟)۔ پشاور بی آر ٹی کیس پر بھی حکومتی پارٹی نے اسٹے آرڈر لیا ہوا ہے، یہ کیس بھی چلتا نظر نہیں آتا، چیئرمین نیب بھی عدالتی حکمِ امتناع کا ذکر کر چکے ہیں کہ جیسے ہی یہ مسئلہ حل ہو گا اس پر کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ مالم جبہ کیس بھی دور کہیں فائلوں کے نیچے دبا انصاف کا انتظار کر رہا ہے، چیئرمین نیب سے اتنا پوچھنا ہے کہ “نیب کی ہوا کا رخ کب بدلے گا؟ بدلے گا بھی یہ یا صرف طفل تسلیاں ہی ہیں”۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ جب بھی چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کبھی ایسا بیان دیتے ہیں جس میں حکومتی پارٹی کے افراد کے خلاف کیسز چلنے کی بات ہوتی ہے تو ایسے میں ان کے خلاف کوئی نہ کوئی خفیہ وڈیو سامنے لا کر یہ اشارہ کر دیا جاتا ہے ہے کہ “ہمیں نہ چھیڑنا ورنہ ننگا کر کے رکھ دیں گے”، دیکھتے ہیں ہوشربا وڈیو کی اگلی قسط کب آتی ہے؟۔