ہوا کے دوش پر۔ سائبر ادب

ہوا کے دوش پر۔ سائیبر ادب
محمد خلیل الرحمٰن

میں اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال​
ہوا کے دوش پر اڑنے کی خواہش نہ صرف زبیدہ خانم کو تھی، بلکہ فی زمانہ ہر شعبہ زندگی کی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے یہ دنیاء ہواؤں میں اڑی جارہی ہے۔ کیا کاروبار، لین دین، کیا دفتری معاملات، کیا علم و فن اور کیا تفریح۔ سب اسی ہوا و ہوس میں ہیں ۔ ہر شعبے کے ساتھ اب لفظ ای لگ چکا ہے جیسے ای کامرس، ای نیوز پیپر، ای میگزین، ای فارم وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے اردو محفل کے زندہ دلان نے اس کا ترجمہ برقی کیا ہے لہٰذا ای بکس کو برقی کتابیں کہا جاتا ہے۔نہ ہوئے شفاف تحریک کے بانی جناب اکرام اللہ انور صاحب ، ورنہ وہ اس زمرے میں کئی ایک خوفناک الفاظ ایجاد کرچکے ہوتے۔ اب تو خیر سے جرائم بھی اسی زمرے میں آتے ہیں اور سائیبر جرائم کہلاتے ہیں۔
پچھلے چند سالوں کو چھوڑ کر یہ دنیاء بنیادی طور پر نہ صرف کاغذ سے منسلک رہی ہے بلکہ اسی کاغذ پر کلیتاً ا نحصار کیے ہوئے تھی۔ غالب کی زبان میں یوں کہیں گے کہ کا غذی تھا پیرا ہن ہر پیکرِ تصویر کا۔
ایک مشہور روسی ادیب کا افسانہ اس وقت ہمیں یاد آرہا ہے جس میں موصوف ایک مشکل صورتحال میں بری طرح پھنس جاتے ہیں۔ ایک کرم فرما انھیں اس صورتحال سے نکلنے کا رستہ سمجھاتے ہوئے ان کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ایک تصدیق نامہ لے آئیں ، ان کا کام ہوجائے گا۔ وہ حضرت اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک خط نکالتے ہیں اور متعلقہ کلرک کے ہاتھ میں تھمادیتے ہیں۔
کلرک اس کاغذ پر لکھی ہوئی عبارت کا پہلا جملہ‘‘ ہم تصدیق کرتے ہیں کہ۔۔۔۔۔’’ پڑھ کر ان کا مسئلہ حل کردیتا ہے۔
کم و بیش یہی صورتحال ہر شعبہ زندگی میں تھی۔ کتاب ، کاپی ، خط ، تصدیق نامہ ، تار، انسانی زندگی کا انحصار انھی چند کاغذوں پر تھا۔ہمارے ہاں تو محکمہ ڈاک کی کارکردگی الا ماشاء اللہ لیکن مغربی ممالک میں صورتحال کچھ یوں تھی۔ شرلاک ہومز عموماً اپنے ساتھی ڈاکٹر واٹسن کوخط لکھا کرتے تھےکہ ‘‘ آج ساڑھے چار بجے کی ریل گاڑی سے یہاں پہنچ جائیے۔’’
کہتے ہیں کہ سب سے بڑا بیوقوف وہ ہوتا ہے جو اپنی کتاب کسی کو پڑھنے کے لیے عاریتاً دیدے۔ اور اس سے بڑا بیوقوف وہ ہوتا ہے جو کتاب پڑھ کر واپس بھی کردے۔ اب سے پیشتر کتابیں مانگ کر پڑھنے کا رواج عام تھا۔ ’’مانگے کی کتا بیں واپسی پر‘‘ کچھ اس قابل نہ رہ جاتیں کہ انھیں دوبارہ پڑھا جاسکے۔ ایک شاعر نے تو ایک عجیب شکوہ کیا۔
مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ جاتے جاتے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب​
یہ کتاب کاغذی تھی یا برقی، اس کا علم مصنف کو نہ ہوسکا۔
اِدھر فنونِ لطیفہ اور دیگر اصنافِ ادب کا بھی یہی حال تھا۔ کاغذ کے ساتھ ان کا اٹوٹ رشتہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ کسی ادیب، شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، کہانی نویس، سیاح، انشاء پرداز کی معراج اسکی تخلیقات کا چھپ کر بازار میں آجانا ہوتا تھا۔ اور اسی امید میں وہ راتیں کالی کیے بیٹھے دفتر پہ دفتر سیاہ کیے جاتے تھے۔
شاعری کامزاج اک ذرا مختلف تھا۔ شاعر کی معراج مشاعرے میں اسکے سامنے شمعِ محفل کا آجانا اور سامعین و حاضرین کے دادو تحسین کے ڈونگرے ہوتے تھے۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ شاعری بھی اسی ڈھنگ میں رنگی گئی تھی اور شاعر کی معراج بھی اسکے مجموعہ کلام کا چھپ کر کتابی شکل میں آجانا ٹھہرا۔
اب سے کم و بیش دس سال پہلے ایک تحریک اٹھی اور عرصہ چند سال میں اس نے پوری دنیاء کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ تحریک پیپر لیس آفس یا بنا کاغذ دفتر کی تحریک کہلاتی ہے۔ ای میل جو اب تک ایک غیر رسمی تبادلہ خیال تصور کیا جاتا تھا ، اس نے آہستہ آہستہ رسمی خط و کتابت کی شکل اختیار کرلی۔
انٹرفس میمو یا بین الدفتری یاد داشتوں اور خطوط نے بھی ای میل میں جگہ پائی۔ کتابیں برقی نوع میں تبدیل کی جانے لگیں۔بین الاقوامی جہازوں سے سامان کی ترسیل اور کسٹم حکام سے اسے چھڑانے کے عمل کو بھی سائیبرادیا گیا۔ اب جہاز کی آمد سے پہلے اس کی غیر کاغذی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تاکہ سامان کی آمد کے ساتھ ہی اسے، بلا تاخیر منزلِ مقصود کی طرف روانہ کیا جاسکے اور باعثِ تاخیر امور کو پہلے ہی نمٹا دیا جائے۔۔ ہوائی جہاز کے ٹکٹ بھی جو کاغذی پیراہن میں دستیاب ہوتے تھے، اک دن ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہوگئے۔ہمارے پاس ہمسایہ دوست ملک چین سے ایک انجینئر صاحب وارد ہوئے اور ہمیں ان کے ساتھ کام کا موقعہ ملنے کی وجہ افسرِ تعلقاتِ عامہ بھی بنا دیا گیا، یعنی افسر بکارِ خاص برائے چینی انجینئر دوست۔ ہم اس ذمہ داری کے ملنے پر پھولے نہ سمائے اور فوراً اس چینی دوست سے اس کے جہاز کے ٹکٹ کا مطالبہ کردیا تاکہ اسے واپسی کے سفر کے لیے بکنگ کی خاطر اپنے دفتر بھجواسکیں۔ اس کے جواب نے ہم پر واضح کردیا کہ ہم تکنیکی طور پر اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس نے بتایا کہ چونکہ وہ ای ٹکٹ پر سفر کرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے لہٰذا اس کے پاس کوئی کاغذی ثبوت موجود نہیں۔ اس نے ائر پورٹ پہنچ کر اپنا شناختی کارڈ پیش کیا اور کہا کہ اس کی فلائٹ بک کی جاچکی ہے۔ ائر پورٹ حکام نے کمپیوٹر پر چیک کرکے اسے بورڈنگ پاس عطا فرمادیا اور اس طرح وہ پاکستان پہنچ گیا۔ہم بہت خوش ہوئے اور کراچی واپس آتے ہوئے ہم نے بھی لاہور ائر پورٹ پر اپنے ٹکٹ کا نمبر دکھایا جو ہمیں برقی ذرائع سے حاصل ہوا تھا اور ٹرمنل کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی جس پر ہمیں واپس باہر ہوائی کمپنی کے حکام سے مشورے کے لیے کہا گیا تاکہ ہم ایک کاغذ پر چھپا ہوا ٹکٹ حاصل کرسکیں۔ ہمیں یقینِ کامل ہوگیا کہ ہم بناء کاغذ کی اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں۔
نوبت بایں جا رسید کہ ردی کی ٹوکری جو مدیروں اور پبلشروں کی بہترین دوست ہوا کرتی تھی ، اب ری سائیکل بِن میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اب مدیروں اور پبلشروں کو تازہ واردانِ بساط ہوائے دل کی تخلیقات یعنی ردّی کے ٹھکانے لگانے کے بارے میں ذرا بھی فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں رہی۔ ایک ماؤس کلک ان بد نصیب تخلیقات کو تحت الثریٰ کی عمیق گہرائیوں میں پھینک دیتی ہے، اور وہ بیچارے ماضی کی طرح انِ کی نگاہِ تغافل کا شکا ر ہوکر طاقِ نسیاں پر دھرے رہ جاتے ہیں اور اس طرح گوشہ گمنامی کے بھیانک غار میں چھپ جاتے ہیں۔
خدا خوش رکھے ان امریکن کمپنیوں کو جنھوں نے ایک طرف تو سائیبر اشتہار بازی سے پیسہ بنایا اور دوسری طرف ہم جیسے خانماں آبادوں کے لیے نیٹ پر مفت جگہ کا انتظام کردیا کہ ہم اس پر اپنی تمام تر غیر شائع شدہ تخلیقات کو نمایاں طور پر عوام الناس کے لیے پیش کرسکیں۔ ہمار ا وطیرہ یہ رہا ہے کہ ہم ابتک اپنی رودادِ شہرِ ذات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کے بعد خود ہی اپنے گھر کی ردی کی ٹوکری کی نظر کردیتے تھے ۔
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو​
اب ہم ان مدیروں اور پبلشروں سے کیسے پوچھتے کہ آپ نے ہماری اس تخلیق کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے وقت کیا سوچا تھا۔ ہم جی کڑا کرکے اپنی تخلیقات کو خود ہی زمین میں دفن کردیتے اور مطمئن ہوجاتے۔ بالآخر ایک دن اچانک ہم پر منکشف ہوا کہ ہم بھی اپنے کمپیوٹر پر اردو لکھ سکتے ہیں اور سائبر فائلیں بنا کر انٹرنیٹ پر اپنا ذاتی بلاگ بنا سکتے ہیں۔ پھر کیا تھا، ہم بھی ماڈرن زمانے کے سائبر ادیب بن گئے اور اپنا ذاتی بلاگ بنا کر اپنی نئی تخلیقات اس پر ڈھیر کرنے لگے۔ ایک دن یونہی سرفینگ کرتے ہوئے علامہ اقبال کے بارے میں ایک ویب پیج نظر آیا تو اس کے ممبر بنے اور وہاں بھی ہماری تخلیقات کو جگہ دی گئی، اسی اثناء میں اردو محفل فورم پر ممبر بنے تو جو پزیرائی ہوئی اس نے سائبر ادب کی اہمیت کے بارے میں ہمارے ایقان کو راسخ کردیا۔محفل کے ایک سینئر حضرت جو اردو اور فارسی شاعری پر اور نقطہ ھائے عروض پر مہارتِ کلی رکھتے ہیں ، ان سے رابطہ ہوا تو انھوں نے علامہ اقبال پر ہمارے کام پر نظرِ ثانی کی یقین دہانی کروائی۔ اِدھر اردو محفل پر اپنے تعارف میں ہم نے انتہائے انکساری سے ایک جملہ لکھا کہ‘‘ ہم ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو تقریباً مکمل ہے، یعنی لکھ چکے ہیں ، صرف پبلشر کا ملنا باقی ہے’’۔ اس جملے نے استادِ محترم (جو بشمول ہمارے، محفل کے نوآموز شعراء کے استاد اور ہمارے دلوں کی دھڑکن بن چکے ہیں ) کو گھائل کردیا اور انھوں نے مہربانی اور شفقت کا معاملہ کرتے ہوئے ہمیں بطور برقی پبلشر ہماری کتاب چھاپنے کی پیشکش کردی جو ہماری زندگی میں اس قسم کی پہلی پیشکش ہے۔
ہوا کے دوش پر ، سائبر ادب کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ہم بناء کاغذ کے دفتر کی طرح بناء کاغذ کا ادب دیکھ سکیں گے؟ کیا تمام ادب برقی حالت میں منتقل ہوپائے گا؟ کیا کبھی سائبر ادب کو کاغذی ادب جیسی پزیرائی نصیب ہوسکے گی؟ ادیب کو پیسےتو شاید پہلے بھی نہیں ملتے تھے، لیکن کیا مدیروں اور پبلشروں کی اجارہ داری کبھی ختم ہوسکے گی؟ ان سوالات کے جواب ہمیں مستقبل ہی سے مل سکیں گے لیکن اردو اور ادب کی جو خدمت اردو محفل کررہی ہے وہ لائقِ صد ستائش ہے۔ اللہ محفل کو قائم و دائم رکھے اور اسے دن دونی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور اس کے منتظمین کو اردو کی اس گراں قدر و بیش بہا خدمت کا صلہ عطا فرمائے اور انھیں خوش رکھے۔ ( آمین)
 

الف عین

لائبریرین
دلچسپ تحریر ہے، بطور خاص فیض کا شعر خوب استعمال کیا ہے!! اور میرے ذکر خیر کا شکریہ کیا ادا کروں!!
اگر اس میں یہ ذکر نہ ہوتا اور اردو محفل کا تذکرہ نہ ہوتا، تو یہ بطور ’انشائیہ‘ سمت کے لئے منتخب کیا جا سکتا تھا۔
 
استادِ محترم
پسندیدگی کا شکریہ قبول کیجیے۔
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے​
مطلب یہ کہ آپ کے حسنِ تدبیر کا کیا کہنا۔ حکم کیجیے تو ہم اس کا آخری پیراگراف مناسب تبدیلی کے ساتھ آپ کو روانہ کردیتے ہیں۔ ہمارے لیے یہی اعزاز کچھ کم نہیں کہ آپ نے پسند کیا، چہ جائیکہ آپ اسے چھپوانے کا وعدہ کریں اور وہ بھی سمت میں۔ سو بسم اللہ ( پنجابی )
 

الف عین

لائبریرین
بصد شوق، لیکن میاں اس عاجز کا ذکر نہ ہو، محض عمومی ہو نہ کسی فرد خاص کا تذکرہ ہو اور نہ کسی مخصوص فورم کا۔ ورنہ یہ اشتہار مانا جائے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ماشاء اللہ۔ اللہ کرئے زور قلم اور زیادہ۔
آپ کی تحریریں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔
 
خلیل الرحمٰن صاحب، واللہ آپ "چور" بھی ہیں۔ :)

ہا ہا ہا ہمارا مطلب یہ نہیں کہ آپ نے یہ مضمون کہیں سے چرایا ہے۔ بلکہ آپ کے تمام مضامین نے بارہا ہمارا دل چرایا ہے۔ وہ تو ہم امتحانات میں مصروف تھے کہ تبصرہ لکھنے کی فرصت نہیں مل رہی تھی ہمیں۔
 
خلیل الرحمٰن صاحب، واللہ آپ "چور" بھی ہیں۔ :)

ہا ہا ہا ہمارا مطلب یہ نہیں کہ آپ نے یہ مضمون کہیں سے چرایا ہے۔ بلکہ آپ کے تمام مضامین نے بارہا ہمارا دل چرایا ہے۔ وہ تو ہم امتحانات میں مصروف تھے کہ تبصرہ لکھنے کی فرصت نہیں مل رہی تھی ہمیں۔

الزام کا سن کر تو پیروں تلے سے زمین نکل جاتی ہے، الٹا ہم پڑھ کر خوشی سے پھول کر کپا ہوگئے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔
 
سائبر ادب پر قبل ازیں طویل تو کیا کوئی مختصر تحریر بھی نظر سے نہیں گزری جبکہ یہاں تو پورا تفصیلی مضمون فراہم کیا گیا جس میں کاغذ پر ہونے والے تمام امور کا خوب صورتی سے احاطہ اور اس پر سونے پر سہاگہ خلیل الرحمن صاحب کا خوب صورت انداز۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
میری طرف سے اتنا خوب صورت اور جامع مضمون لکھنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد قبول فرمائیں۔

والسلام
 
سائبر ادب پر قبل ازیں طویل تو کیا کوئی مختصر تحریر بھی نظر سے نہیں گزری جبکہ یہاں تو پورا تفصیلی مضمون فراہم کیا گیا جس میں کاغذ پر ہونے والے تمام امور کا خوب صورتی سے احاطہ اور اس پر سونے پر سہاگہ خلیل الرحمن صاحب کا خوب صورت انداز۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
میری طرف سے اتنا خوب صورت اور جامع مضمون لکھنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد قبول فرمائیں۔

والسلام
حافظ سمیع اللہ بھائی۔ لگتا ہے جس سکون اور اطمینان کے ساتھ آپ مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں اسی سکون کے ساتھ جواب بھی دیتے ہیں۔ خوش رہیے۔ پسندیدگی کا شکریہ۔ آپ اور محفل کے دیگر ساتھی ہماری ہمت بندھارہے ہیں جس سے لکھنے کے لیے تحریک ملتی رہے گی۔ انشاء اللہ۔
جزاک اللہ الخیر
 

loneliness4ever

محفلین
آداب ۔۔۔۔۔ محترم اور شفیق استاد محمد خلیل الرحمٰن

فقیر نے سوچا سالگرہ کے موقع پر اس تحریر کو اوپر ہونا ضروری ہے
اللہ سے دعا ہے وہ آپ کو دین و دنیا کی نعمتوں سے مالا مال فرمائے ۔۔۔ آمین
 
Top