ہوا کے رخ پر چلا نہیں ہوں

الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
محمد عبدالرؤوف
----------
میں روشنی ہوں دیا نہیں ہوں
اسی لئے میں بجھا نہیں ہوں
----------
میں راہِ حق پر ڈٹا ہوا ہوں
ڈرا نہیں ہوں جھکا نہیں ہوں
----------
خدا کے ہاتھوں میں جان میری
میں دشمنوں سے ڈرا نہیں ہوں
-----------
ہیں حوصلے بھی جوان میرے
تھکا نہیں ہوں ِرکا نہیں ہوں
------
مرا ہے ایماں خدا ہے رازق
میں اسی لئے بھی بِکا نہیں ہوں
-----------
مری دعائیں قبول ہوں گی
میں مانگنے سے تھکا نہیں ہوں
------
خدا جو مجھ کو جلا رہا ہے
بجھے جو تم سے دیا نہیں ہوں
------
مرا بلاوا ہے رب کی جانب
دبے جو تم سے صدا نہیں ہوں
---------
خدا نے اذنِ اذاں دیا ہے
میں سمت باطل کھڑا نہیں ہوں
------
گدا ہوں اپنے خدا کے در کا
میں کچھ بھی اس کے سوا نہیں ہوں
---------
مری ہے فطرت میں گر کے اٹھنا
میں مستقل تو گرا نہیں ہوں
----------یا
سدا کہیں پر گرا نہیں ہوں
-----------
تری محبّت ہے دل میں ارشد
میں تجھ سے ہرگز خفا نہیں ہوں
---------
 
آخری تدوین:
میں راہِ حق پر ڈٹا ہوا ہوں
ڈرا نہیں ہوں جھکا نہیں ہوں

ڈٹا۔، رہا ۔ ہوں ۔ ہمیشہ ۔ حق ۔ پر
میں شر کے آگے جھکا نہیں ہوں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
میں روشنی ہوں دیا نہیں ہوں
اسی لئے میں بجھا نہیں ہوں
----------
ثانی مصرع میں 'میں' کا دوبارہ استعمال کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ اگر یوں کر لیں تو میرا خیال ہے کہ بہتر رہے گا
سو جل رہا ہوں بجھا....
میں راہِ حق پر ڈٹا ہوا ہوں
ڈرا نہیں ہوں جھکا نہیں ہوں
----------
تقابل ردیفین کا سقم ہے اولی میں۔
//ہوں راہ حق پر ڈٹا ہوا میں
سے دور ہو جاتا ہے، باقی مجھے قابل قبول لگتا ہے
خدا کے ہاتھوں میں جان میری
میں دشمنوں سے ڈرا نہیں ہوں
-----------
خدا کے ہاتھوں میں 'ہے' جان میری، مکمل بیانیہ ہے، یعنی 'ہے' کی ضرورت ہے
// ہے رب کے ہاتھوں میں جان میری__ سے درست ہو جاتا ہے
مگر دوسرا مجھے پہلے مصرع کے ساتھ تعلق پیدا کرتا ہوا نظر نہیں آ رہا، کسی اور طرح کہہ کر دیکھیں، صرف ڈرا بھی بجائے 'ڈرا ہوا' کے ٹھیک نہیں لگ رہا
ہیں حوصلے بھی جوان میرے
تھکا نہیں ہوں ِرکا نہیں ہوں
------
عجز بیانی کا شکار لگتا ہے یہ شعر، پہلے میں 'بھی' اضافی لگتا ہے
کس چیز سے نہیں تھکے اور کس چیز سے نہیں رکے یہ واضح نہیں۔
مرا ہے ایماں خدا ہے رازق
میں اسی لئے بھی بِکا نہیں ہوں
-----------
ہے میرا ایماں، خدا ہے رازق
سو اس لیے میں...
اسی لیے میں...
سے بہتر ہو جاتا ہے میرے خیال میں
مری دعائیں قبول ہوں گی
میں مانگنے سے تھکا نہیں ہوں
------
یہاں بھی روانی کی کمی ہے، وہی بات کہ آپ شاید اب بھی الفاظ کی نشست بدل بدل کر نہیں دیکھتے
//قبول ہوں گی مری دعائیں
دوسرا بھی مجھے 'کہ' کے ساتھ شروع ہو تو ربط میں بہتر لگتا ہے، مثلاً
کہ مانگنے سے تھکا....
خدا جو مجھ کو جلا رہا ہے
بجھے جو تم سے دیا نہیں ہوں
------
روشن رکھا ہوا ہے خدا نے، یا بچا کر رکھا ہوا ہے اس طرح کا کوئی بیانیہ لائیں، جلا رہا ہے مجھے بھلا معلوم نہیں ہوتا
مزید یہ کہ 'بجھے جو تم سے میں وہ دیا نہیں ہوں' سے واضح ہوتا ہے دوسرا مصرع، جو ظاہر ہے کہ بحر میں نہیں آ سکتا، طریقہ بدل کر کہا جا سکتا ہے یہ شعر
مرا بلاوا ہے رب کی جانب
دبے جو تم سے صدا نہیں ہوں
---------
یہ بھی پچھلے شعر والا معاملہ ہے، خصوصاً دوسرا مصرع عجز بیانی کا شکار ہے
خدا نے اذنِ اذاں دیا ہے
میں سمت باطل کھڑا نہیں ہوں
------
میرا خیال ہے کہ دوسرے مصرع میں' محض/صرف' کی کمی ہے، یعنی میں سمت باطل صرف کھڑا ہوا ہی نہیں ہوں
اس کے علاوہ سمت باطل کھڑا ہونا بھی کچھ عجیب لگ رہا ہے
گدا ہوں اپنے خدا کے در کا
میں کچھ بھی اس کے سوا نہیں ہوں
---------
ٹھیک، حاصل غزل شعر کہا جا سکتا ہے
مری ہے فطرت میں گر کے اٹھنا
میں مستقل تو گرا نہیں ہوں
----------یا
سدا کہیں پر گرا نہیں ہوں
-----------
ہے میری فطرت.... وہی الفاظ کی نشست بدل کر نہیں دیکھی گئی شاید
دوسرے دونوں متبادل ٹھیک نہیں ہیں، کچھ اور کہہ کر دیکھیں
تری محبّت ہے دل میں ارشد
میں تجھ سے ہرگز خفا نہیں ہوں
پہلے میں تبدیلی کی ضرورت ہے
یعنی پہلے جیسا ہی تجھے چاہتا ہوں ویسی ہی محبت/چاہت ہے، کچھ نہیں بدلا، جیسا مفہوم ہو تو دوسرے کا پہلے سے ربط بنتا ہے کچھ
 
الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
محمد عبدالرؤوف
--------------
اصلاح
--------------------
میں روشنی ہوں دیا نہیں ہوں
سو جل رہا ہوں بجھا نہیں ہوں
-------
ہوں راہِ حق پر ڈٹا ہوا میں
ڈرا نہیں ہوں جھکا نہیں ہوں
-------
ہے رب کے ہاتھوں میں جان میری
کہ موت سے بھی ڈرا نہیں ہوں
----------
مری ہے ہمّت جواں ابھی تک
تھکا نہیں ہوں ِرکا نہیں ہوں
-------
مرا ہے ایماں خدا ہے رازق
اسی لئے میں بِکا نہیں ہوں
----------
قبول ہوں گی مری دعائیں
-----یا
مجھے ہے تائید رب کی حاصل
کہ مانگنے سے رکا نہیں ہوں
--------
کیا ہے روشن خدا نے مجھ کو
بجھے جو تم سے دیا نہیں ہوں
------
بلا رہا ہوں خدا کی جانب
دبا لو جس کو صدا نہیں ہوں
----------
کہیں برائی نہ پھیل جائے
صدائے حق سے رکا نہیں ہوں
----------
مری ہے فطرت میں گر کے اٹھنا
میں مستقل تو گرا نہیں ہوں
----------
ہے میری فطرت میں گر کے اٹھنا
گرا تو کیا پھر اٹھا نہیں ہوں؟
----------
تری وفائیں ہیں یاد ارشد
خفا میں تجھ سے ہوا نہیں ہوں
-----------
 

عظیم

محفلین
ہے رب کے ہاتھوں میں جان میری
کہ موت سے بھی ڈرا نہیں ہوں
ابھی بھی بات نہیں بنی، میرا خیال ہے کہ بحر چھوٹی ہونے کی وجہ سے یہ خیال نظم کرنا مشکل ہو گا۔ زیادہ الفاظ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے

مری ہے ہمّت جواں ابھی تک
تھکا نہیں ہوں ِرکا نہیں ہوں
ہے میری ہمت... روانی میں بہتر ہے، مگر دوسرے میں اب بھی وہی وضاحت کی کمی قائم ہے

مرا ہے ایماں خدا ہے رازق
اسی لئے میں بِکا نہیں ہوں
'ہے میرا ایماں' ہی بہتر تھا روانی میں

قبول ہوں گی مری دعائیں
-----یا
مجھے ہے تائید رب کی حاصل
کہ مانگنے سے رکا نہیں ہوں
رب کی تائید حاصل ہونا بے معنی لگ رہا ہے مجھے، قبول کے ساتھ 'کہ مانگنے سے تھکا' سے شعر درست رہتا ہے

کیا ہے روشن خدا نے مجھ کو
بجھے جو تم سے دیا نہیں ہوں
------
پہلا ٹھیک ہو گیا ہے مگر دوسرے میں وہی کمی اب بھی ہے کہ جو تم سے بجھ پائے میں "وہ" دیا نہیں ہوں، کسی اور طرح کہہ لیں

بلا رہا ہوں خدا کی جانب
دبا لو جس کو صدا نہیں ہوں
----------
یہ بھی پچھلے شعر والا معاملہ ہے، دوسرے میں "وہ" کے بغیر بات مکمل نہیں لگتی مجھے


کہیں برائی نہ پھیل جائے
صدائے حق سے رکا نہیں ہوں
----------
نہیں ارشد بھائی، بات نہیں بنی
دو لختی کی سی کیفیت ہے
//کہیں برائی نہ پھیل جائے
//نصیحتوں سے رکا نہیں ہوں
یہ محض مثال کے طور پر ہے، کچھ اچھا کہیں اس طرح کہ کچھ شعر بن سکے


مری ہے فطرت میں گر کے اٹھنا
میں مستقل تو گرا نہیں ہوں
----------
ہے میری فطرت۔۔۔ ہی بہتر تھا روانی میں
دوسرا اب بھی ٹھیک نہیں ہے، مستقل بھی فٹ نہیں بیٹھا اور گرا بجائے گرا ہوا کے ٹھیک نہیں لگتا
شعر نکال بھی سکتے ہیں کہ اس غزل میں کمی نہیں اشعار کی

ہے میری فطرت میں گر کے اٹھنا
گرا تو کیا پھر اٹھا نہیں ہوں؟
----------
معذرت کے ساتھ، نہیں، بات نہیں بنی

تری وفائیں ہیں یاد ارشد
خفا میں تجھ سے ہوا نہیں ہوں
-----------
میں تجھ سے ہرگز خفا نہیں ہوں
خوب تھا، محض پہلے میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں
تجھے یہ کیسی ہے فکر ارشد
میں تجھ سے ہرگز....
 
Top