کاشفی
محفلین
غزل
(وحشت کلکتوی)
ہوسِ سُود میں سودائے زیاں کرتا ہوں
جو مجھے چاہئے کرنا وہ کہاں کرتا ہوں
دل پھُنکا جاتا ہے پر آہ کہاں کرتا ہوں
کس قدر پاس ترا سوزِ نہاں کرتا ہوں
حال دل کچھ تو نگاہوں سے عیاں کرتا ہوں
اور کچھ طرزِ خموشی سے بیاں کرتا ہوں
شغلِ اُلفت میں کوئی دم بھی نہیں ہے بیکار
اور جب کچھ نہیں کرتا ہوں فغاں کرتا ہوں
ہمنشیں میرے بہت ہیں ، نہیں ہمراز کوئی
دل کی جو بات ہے کب وقف زباں کرتا ہوں
عقل حیران ہے خود اپنی کہ میں کیا کیا کچھ
دوستی میں تری اے دشمنِ جاں کرتا ہوں
جانتا کیا نہیں میں تیری وفا کو لیکن
صرف رنگینیء عنوانِ بیاں کرتا ہوں
شغل مے سے مجھے کیا کام مگر جب ناصح
پوچھتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ ہاں کرتا ہوں
لطف آجاتا ہے ارباب سخن کو وحشت
جب کبھی تذکرہء حسنِ بتاں کرتا ہوں