ہوس اقتدار کے پجاری۔۔۔۔دیوار پہ دستک۔۔۔۔منصور آفاق

پاکستان کے بربادی کا اصل سبب ہوسِ اقتدارہے۔۔صرف ہوس اقتدار ۔کبھی اقتدار کے حصول کیلئے اور کبھی اقتدار کو طوالت دینے کیلئے اس ملک کو تباہی کے آخری دہانے پر پہنچا دیا گیا ۔ مارشل لاء بھی ہوسِ اقتدار کی کوکھ سے بر آمد ہوئے۔ذوالفقار علی بھٹو جیسے عظیم لیڈر نے بھی ہوسِ اقتدار کے ہاتھوں مجبور کر 1977کے انتخابات میں ناقابل معافی غلطیاں کیں۔نون لیگ نے ہوس اقتدارمیں سپریم کورٹ پر حملہ کردیاتھا۔وہ بھی ہوس اقتدار تھی جس نے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔پاکستان کے جسم کا وہ حصہ جس میں ستاون فیصد آبادی تھی جسے ہم مشرقی پاکستان کہتے تھے ان کی عددی اکثریت سے ہم نے روزِ اول سے خوف کھانا شروع کر دیا تھا۔پہلے ہم نے اپنے چاروں صوبوں کوتوڑ کر ون یونٹ اس لئے بنایاکہ صوبہ مغربی پاکستان بمقابلہ مشرقی پاکستان کھڑا کردیں۔مگر جب ہم نے دیکھا کہ اب بھی جمہوریت کے مسلمہ اصول کے مطابق بالغ رائے دہی پر الیکشن ہوتے ہیں اور مشرقی پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے توہم نے جمہوریت کا منہ چڑانے کیلئے یہ فارمولا ایجاد کیا کہ دونوں صوبوں سے برابر کی تعداد میں نمائندے منتخب ہوں گے۔یوں ستاون فیصد اور تیتالیس فیصد کا حیرت انگیز اصول نکالا گیا۔ مغربی پاکستان کا ایک ووٹ مشرقی پاکستان کے تقریباً ڈیڑھ ووٹ کے برابر شمار کیا جانے لگا ان غربیوں نے یہ بات بھی قبول کرلی۔پھر ہم نے مارشل لا لگادیا۔ اور جب مارشل لا کے بعد ملک کے پہلے عام انتخابات ہوئے اور مشرقی پاکستان کو واضح کثریت حاصل ہوگئی تو ہم نے وہاں فوج بھیج دی۔بے انتہا قتل و غارت کے بعد بالآخر وہ حصہ ہم سے علیحدہ ہوگیا۔ سچ یہی ہے کہ ہمارے صاحبانِ اقتدار کی ہوسِ اقتدارنے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے پر محبور کر دیا تھااور اب اس زیادتی کی معافی مانگنے پر بھی تیار نہیں۔بھارت اور پاکستان میں جو دشمنی چل رہی ہے اس کی بنیاد بھی دونوں طرف ہوس اقتدار ہے کہ حکمران پارٹیاں ہوس اقتدار میں ایک دوسرے خلاف مکے لہراتی رہتی ہیں ۔مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی وجہ بھی یہی ہوس اقتدار ہے۔ اوریہ ہوس اقتدار کی جنگ دونوں ملکوں کے عوام کیلئے بہت خوفناک ہے ۔دونوں طرف لوگ بھوکوں مر رہے ہیں۔دونوں اپنے وسائل ہولناک سے ہولناک تر اسلحہ تیار کرنے پر پھونک رہے ہیں ہم عجیب پڑوسی ہیں۔ دونوں کی انگلیاں ٹریگر پر ہیں۔بے خوابی نے ہمارے اعصاب توڑ دئیے ہیں۔کسی کو ممکن ہے اونگھ آجائے اور انگلی ٹریگر دبا بیٹھے تو پھر کیا ہو گا۔کچھ بھی نہیں بچے گا کیونکہ دونوں ممالک عوام کے منہ سے نوالے چھین چھین کرایٹمی قوت بن چکے ہیں ۔ہوسِ اقتدار نے کبھی کسی حکمران کو درست فیصلہ کرنے ہی نہیں دیا
مجھے ایک دن داتا دربارمیں ایک شخص ملا۔کہنے لگا مجھ سے کان صاف کرا لیجئے ۔میں بڑے اچھے طریقے سے کان صاف کرتا ہوں ۔ میں نے غور سے دیکھا تو اس کا چہرہ مجھے جانا پہچانا لگا۔مجھے اگلے ہی لمحے یاد آگیا کہ اس شخص کے ساتھ تو برسوں پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھتا رہا ہوں۔یہ پاکستان کا اچھا بھلا مشہور ادیب ہے۔اس نے بھی مجھے پہچان لیا۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ تم یہ لوگ کان کیوں صاف کرتے پھر رہے ہو۔اچھے بھلے لکھنے والے آدمی ہو۔ تمہیں کہیں بھی نوکری مل سکتی تھی۔ کہنے لگا میں پیسوں کے لئے تو لوگوں کے کان صاف نہیں کرتا۔ دراصل اس قوم کے کانوں میں بڑی میل جم گئی ہے ۔لوگوں کو کوئی بات سنائی ہی نہیں دیتی ۔ اب دیکھو پچھلے سات انتخابات سے میں لوگوں کے سامنے تقریریں کر رہا ہوں کہ مجھے ووٹ دو ۔ ووٹ کاحقدار میں ہوں ۔یہ سرمایہ دار اور جاگیردار نہیں ہیں ۔یہ لٹیرے ہیں ڈاکو ہیں چور ہیں قاتل ہیں ۔مگر لوگ میری بات سنتے ہی نہیں۔میں ان لوگوں کے خلاف کون سی کورٹ میں نہیں گیا۔کس عدالت کا دروازہ میں نے نہیں کھٹکھٹا یا مگر کوئی سنتا ہی نہیں۔بس بات میری سمجھ میں آگئی کہ اس قوم کے کانوں سے میل نکالنی بڑی ضروری ہے۔ بات میری سمجھ میں بھی آگئی تھی کہ ہوس اقتدارکے پجاریوں نے اس کے ساتھ کچھ ایسا کیاہے کہ بیچارہ دماغ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔۔
اس وقت پھر ہوسِ اقتدار کے پجاری میدان میں اترے ہوئے ہیں۔مگرایک اچھی خبر کی طرح ان میں عمران خان بھی موجودہے جوہوس اقتدار کیلئے نہیں پاکستان کے تابناک مستقبل کیلئے ۔پاکستانی قوم کے لئے ایک روشن تبدیلی کیلئے۔ظلمتِ شب کے رکھوالوں سے جنگ پرپوری طرح آمادہ ہے ۔مجھے پورایقین ہے کہ پاکستانی قوم اس موقع کو ضائع نہیں ہونے دے گی۔وہ لوگ زندگی جن کے اردگرد بڑی مکروہ اور قابل نفرت ہو چکی ہے۔عمران خان انہیں ایک اچھی زندگی کی نوید دینے والے ہیں ۔
وہ زندگی جو ایک زخم ہے۔ گلتا ہوا زخم ۔بہتا ہوا زخم۔اس کے علاج کی امید عمران خان کے سوا کسی اور سے نہیں کی جا سکتی ۔ وہ زندگی جو چم چم کرتی کاروں اور لش لش کرتے بنگلوں میں رہتی ہے۔وہ ان کالی کالی گلیوں اور گرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھروندوں میں بھول کر بھی۔۔کبھی بھٹک کر بھی قدم نہیں رکھتی۔ جس میں دنیا کی نوے فیصد آبادی مقیم ہے۔ جہاں لوگوں کی زندگی پردکھ کے سائے ہر وقت تھرتھراتے رہتے ہیں۔۔کہیں کسی کے معصوم سے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔کہیں کسی کی بیوی بیمار ہے تڑپ رہی ہے۔ تحقیق۔یہ زندگیاں کینسر سے زیادہ اذیت ناک ہیں۔بڑی بے رحم اور ظالم ہیں۔ زندگیاں ۔زندگیاں نہیں حالات کے شکجے میں جکڑی ہوئی عمریں ہیں ۔یہ لمحوں کا بہتا ہوا دریا ہے۔لوگ جس کے دھارے پربے بس تنکوں کی طرح بہے جارہے ہیں۔مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ جو لوگ اس دھارے کا رخ موڑ لیتے ہیں ان کی زندگی سے ملاقات ہو جاتی ہے۔اس زندگی سے جو تمہاری تلاش میں ہے تمہیں ڈھونڈتی پھرتی ہے۔جسے شکایت ہے کہ تم اسے آواز نہیں دیتے۔کہ وہ تم تک پہنچ سکے۔ آئیے عمرا ن خان کے ساتھ مل کر اس زندگی کی تلاش کریں۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 
Top