زیرک
محفلین
ہوش کی دوا لیں
آسیہ کی بریت کے خلاف احتجاج کرنا عوام کا بنیادی حق ہے، عوام سے گزارش ہے کہ آپ ایسا پر امن احتجاج کریں جس سے نہ راستہ رکے، نہ جلاؤ گھیراؤ ہو اور نہ ہی جان و املاک کا نقصان ہو تو ایسے حالات میں پوری قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے، لیکن مجھے بتائیں کہ لبیک یارسول اللہﷺ کا نعرہ لگا کر اپنے ہی مسلمان بھائی کی گاڑی و املاک کو آگ لگانا کہاں کا اسلام ہے؟ کسی کو برا لگتا ہے تو لگے لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ایسا کرنا میرے آقاﷺ کی تعلیمات نہیں ہیں۔ کیا دوسروں کے گھر جلانے والوں میں اتنی ہمت ہے کہ پہلے اپنے گھروں کو جلائیں؟ طارق بن زیاد نے اپنی کشتیاں جلا کر اندلس کو فتح کیا تھا، اس نے حملہ آور ہونے کے بعد راستے میں عوام کی املاک کو آگ نہیں لگائی تھی۔ مسلمانو! دلیل سے دل جیتنا سیکھو، ڈنڈے سے گائے بیل تو ہانکے جا سکتے ہیں انسان نہیں۔ ملک میں عدالتیں موجود ہیں، دو لوگ عدالت میں جاتے ہیں اپنی دلیلیں دیتے ہیں، لیکن جیتتا ایک ہی ہے، جو ہارتا ہے وہ پھر بھی قانون کا سہارا لیتا ہے اور اس فیصلے کے خلاف اپیل کرتا ہے۔ آپ نے پہلے مرحلے پر اپیل کی ہی نہیں، دلیل دی ہی نہیں اور ڈنڈہ اٹھا کر پل پڑے۔ آپ نے تو اپنے ہی محافظوں اور منصفوں کے قتل کے فتوے جاری کرنے شروع کر دئیے۔ نتیجہ کیا نکلا کہ پورے ملک میں بے گناہ لوگوں کی املاک کو آگ لگائی جا رہی ہے، راستے بند کیے جا رہے ہیں اور راہ چلتوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے، کہاں کا قانون ایسے اقدامات کی اجازت دیتا ہے؟ خدا را! ہوش کی دوا لیں اور قانونی جنگ کو قانون کے میدان میں لڑیں، آپس میں لڑ کر ملک دشمنوں کا کام آسان مت کریں۔