ہونٹوں پہ تبسم ہے آنکھوں میں نمی ہے

ہونٹوں پہ تبسم ہے آنکھوں میں نمی ہے
ہم پر دمِ رخصت یہ عنایت بھی بڑی ہے

تم چاہو تو الفت سے گرا سکتے ہو اسکو
یہ ترکِ تعلق کی جو دیوار کھڑی ہے

کیا پوچھتے ہو شہرِ ستم گار کے حالات؟
ہر شے میں تفاوت ہے ہر دل میں کجی ہے

وہ پھول بھی ہو جائیں گے کیا نذر خزاں کی!
جن پھولوں پہ شبنم تری زلفوں کی پڑی ہے

شکریہ ۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم
تکنیکی اعتبار سے ایک مصرع کچھ کمزور لگا باقی غزل درست ہے :

ہر شے میں تفاوت ہے ہر دل میں کجی ہے

یہاں "تفاوت" کی جگہ کوئی "ملاوٹ" جیسا لفظ سوچیں ۔تفاوت جچتا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیوں ہنستے ہو اے دیدہ ورو حال پہ میرے
تم کو نہیں معلوم کہ اللہ غنی ہے

اصلاح سخن سے ہٹ کر ایک بات کرتا ہوں کہ اللہ جل شانہ کی شان میں یہ طنزیہ اسلوب مناسب نہیں گوشاعر یہ کام بہت کرتے ہیں اور تکنیکی اعتبار سے عیب نہیں لیکن اپنی برباد حالی میں اللہ کے غنا کا کیا ذکر ،یہ تو سراسر انسان کا خود کو مستقل بالذات سمجھنے کا وبال ہے ۔ کیا خوب فرمایا من موہن نے:

كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤىۙ(۶)اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰىؕ(۷)اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰىؕ(۸)
( علق)
ترجمہ:

ہرگز نہیں بے شک انسان سرکشی کرتا ہےاس واسطے کہ خود کو غنی سمجھ لیا، بے شک لوٹنا تو (آخر) تمھارے رب ہی کی طرف ہے۔

اللہ جل شانہ کی ذات تو بہت محبت کرنے والی ذات ہے چنانچہ حدیث قدسی ہے:


انس بن مالک اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے رب سے روایت کیا ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ”جب بندہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے، تو میں اُس سے ایک ہاتھ (گز) قریب ہوتا ہوں اور جب بندہ ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں، جب بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں“۔
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]

بے پروائی اور لاپروائی میں لغت کے اعتبار سے فرق ہے ۔شعرا اکثر بطور طنز پہلے لفظ کا دوسرے کے ساتھ اختلاط کرتے ہیں۔اللہ جل شانہ بے پروا(مستغنی/بے نیاز/مستقل بالذات) تو ہیں ،لاپروا (careless)نہیں اور بات یہ ہے کہ ان کو بے پروائی زیبا ہے کہ کسی کے محتاج نہیں ساری مخلوق سرکشی پہ اتر آئے تو ان کی شان میں ذرہ برابر کمی نہ آئے اور سب سجدے میں گر جائیں تب بھی ان کی شان میں ذرہ برابر اضافہ نہ ہو۔

ہاں انسان کو بے پروائی زیبا نہیں کہ کئی احتیاجیں اس کے ساتھ لگی ہیں اور خود اس کا خالق اعلان فرما رہا ہے:"انتم الفقرا"۔تم (سب کے سب) فقیر ہو ،"خلق الانسان ضعیفا"۔ انسان کو ضعیف پیدا کیا گیا ہے۔

میرا مشورہ ہے اس شعر کو فنا فی اللہ کر دیں کہ رکھنے سے بھی کچھ حاصل نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
تفاوت والا مصرع تو بحر میں بھی نہیں، 'تو' کے اضافے سے درست ہو سکتا ہے وزن۔ ویسے یاسر سے متفق ہوں
 
جی یاسر بھائی بہت شکریہ آپ کا ۔ اس شعر کو نکال دینا ہی بہتر ہو گا ۔۔ آپ نے اس طرف توجّہ دلائی تو اس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں ۔ انسان کو ہر گز زیبا نہیں کہ وہ ذاتِ باری تعالیٰ پہ طنز کرے
اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف کرے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کیوں ہنستے ہو اے دیدہ ورو حال پہ میرے
تم کو نہیں معلوم کہ اللہ غنی ہے
جبکہ میں اس شعر میں "دیدہ ورو" پہ طنز سمجھ رہا تھا کہ وہ ظاہری اسباب کی قلت پر ہنس رہے ہیں اور اصل کمالات جو بقول شاعر اللہ نے اسے بخش رکھے ہیں وہاں تک دیکھنے والوں کو ابھی ادراک نہیں ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
جبکہ میں اس شعر میں "دیدہ ورو" پہ طنز سمجھ رہا تھا کہ وہ ظاہری اسباب کی قلت پر ہنس رہے ہیں اور اصل کمالات جو بقول شاعر اللہ نے اسے بخش رکھے ہیں وہاں تک دیکھنے والوں کو ابھی ادراک نہیں ہے۔
واقعی ایک یہ رخ بھی ہو سکتا ہے شعر فہمی کا کہ غنی ذات بہت کچھ نواز سکتی ہے گو فورا اس طرف خیال نہیں جاتا ۔
باقی آپ کا یہ کہنا :"اصل کمالات جو بقول شاعر اللہ نے اسے بخش رکھے ہیں" ایسا شعر میں کہاں ہے؟

میں چاہوں گا کہ ریحان بھائی کچھ روشنی ڈالیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یاسر بھائی آپ نے جو پہلے مراسلے میں اشکال بیان کیا یقیناً وہ بھی نظر انداز کر دینے کے لائق نہیں۔
باقی آپ کا یہ کہنا :"اصل کمالات جو بقول شاعر اللہ نے اسے بخش رکھے ہیں" ایسا شعر میں کہاں ہے؟
لیکن اس بات کا مطلب میں نے لفظ " غنی" سے اخذ کیا کہ جب اللہ "غنی" ذات ہے تو اس نے مجھے کیسے محروم کر رکھا ہو گا۔
 
واقعی ایک یہ رخ بھی ہو سکتا ہے شعر فہمی کا کہ غنی ذات بہت کچھ نواز سکتی ہے گو فورا اس طرف خیال نہیں جاتا ۔
باقی آپ کا یہ کہنا :"اصل کمالات جو بقول شاعر اللہ نے اسے بخش رکھے ہیں" ایسا شعر میں کہاں ہے؟

میں چاہوں گا کہ ریحان بھائی کچھ روشنی ڈالیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
اس سے میری مراد یہی تھی کہ تم لوگ میری محرومیوں کو دیکھ کر مت ہنسو کیونکہ اللہ عنی ہے وہ مجھے نواز بھی سکتا ہے اور تمہیں محروم بھی کرسکتا ہے۔ میری مجال کہ ذاتِ باری تعالیٰ پر طنز کروں ؟ ۔ اس ایک شعر سے شاید حاصل کچھ نہ ہو لیکن یہ دارین کے خسارے کا سبب بن سکتا ہے
اس لیے اس کو قلم زد کردینا ہی مناسبت ہے ۔ تاکہ کسی کے ذہن میں میری وجہ سے ایسا اشکال پیدا نہ ہو جس کا آپ نے اوپر ذکر کیا
 
ہونٹوں پہ تبسم ہے آنکھوں میں نمی ہے
ہم پر دمِ رخصت یہ عنایت بھی بڑی ہے

تم چاہو تو الفت سے گرا سکتے ہو اسکو
یہ ترکِ تعلق کی جو دیوار کھڑی ہے

کیا پوچھتے ہو شہرِ ستم گار کے حالات؟
ہر شے میں تفاوت ہے ہر دل میں کجی ہے

وہ پھول بھی ہو جائیں گے کیا نذر خزاں کی!
جن پھولوں پہ شبنم تری زلفوں کی پڑی ہے

شکریہ ۔
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ کچھ مصرعے شاذ وزن میں موزوں کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جیسے کہ مطلع کا پہلا مصرع ۔۔۔ خواہ مخواہ بیچ میں سکتہ آتا ہے جس کی وجہ سے روانی مجروح ہوتی ہے۔ تکنیکی پہلو ایک طرف، مگر جمالیاتی اعتبار سے مجھے تو اس طرح دو اوزان کا ایک شعر میں جمع کرنا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ قاری کو ’’پھوکٹ کی ٹینشن‘‘ ہوتی ہے :)

مطلع بہت جاندار ہے ۔۔۔ دوسرا شعر اس کی بہ نسبت اتنا ’’تگڑا‘‘ نہیں ۔۔۔
دیدہ ورو والے شعر سے میں نے بھی ’’باطنی‘‘ مفہوم ہی اخذ کیا تھا :) ۔۔۔ اگر غنی کے بجائے ولی کی صفت استعمال کی جائے تو شاید ابہام کم ہو سکے؟

مقطعے کا دوسرا مصرع مجھے سمجھ نہیں آ سکا ۔۔۔ زلفوں کی شبنم مجھے غیر مانوس ترکیب لگی۔
 
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ کچھ مصرعے شاذ وزن میں موزوں کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جیسے کہ مطلع کا پہلا مصرع ۔۔۔ خواہ مخواہ بیچ میں سکتہ آتا ہے جس کی وجہ سے روانی مجروح ہوتی ہے۔ تکنیکی پہلو ایک طرف، مگر جمالیاتی اعتبار سے مجھے تو اس طرح دو اوزان کا ایک شعر میں جمع کرنا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ قاری کو ’’پھوکٹ کی ٹینشن‘‘ ہوتی ہے :)

مطلع بہت جاندار ہے ۔۔۔ دوسرا شعر اس کی بہ نسبت اتنا ’’تگڑا‘‘ نہیں ۔۔۔
دیدہ ورو والے شعر سے میں نے بھی ’’باطنی‘‘ مفہوم ہی اخذ کیا تھا :) ۔۔۔ اگر غنی کے بجائے ولی کی صفت استعمال کی جائے تو شاید ابہام کم ہو سکے؟

مقطعے کا دوسرا مصرع مجھے سمجھ نہیں آ سکا ۔۔۔ زلفوں کی شبنم مجھے غیر مانوس ترکیب لگی۔
راحل بھائی بہت شکریہ آپ کا
آپ نے جو تجویز دی میں آئندہ ان کا ضرور خیال رکھوں گا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تہِ ٹیگ کرنے کا شکریہ ۔ :)
چونکہ غزل مجھے تدوین شدہ حالت میں نظر آرہی ہے اس لئے اکثر تبصرے غیر متعلق لگ ر ہے ہیں ۔ کوشش کیجئے کہ اصل متن میں تدوین نہ کریں تاکہ مبصرین کی باتیں پڑھنے والوں کی سمجھ میں آجائیں ۔
اس غزل کا وزن مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہے ۔ اس بحر میں تسکینِ اوسط کا استعمال جائز ہے ۔ لیکن جیسا کہ برادرم راحل نے کہا کوشش کرنی چاہئے ایک ہی شعر میں دو مختلف اوزان کا اختلاط نہ ہو اِلا یہ کہ اس کے بغیر کوئی اور بہتر صورت نہ بنتی ہو ۔ یہ بحرتو بہت آسان اور رواں ہے چنانچہ اس میں تسکین اوسط کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔
ہونٹوں پہ تبسم ہے آنکھوں میں نمی ہے
ہم پر دمِ رخصت یہ عنایت بھی بڑی ہے

پہلے مصرع میں تبسم ہے کے بعد "تو" کا اضافہ کیجئے ۔ نہ صرف یہ لفظ وزن پورا کرنے کے لئے ناگزیر ہے بلکہ مصرع میں تبسم اور نمی کی متضاد کیفیات کا تقابل کرنے کے لئے بھی ضروری ہے۔
دوسرے مصرع میں ہم پر کے بجائے مجھ پر درست ہوگا کہ یہاں بات ایک محب یا عاشق کی ہورہی ہے پورے مجمع کی نہیں ۔ فیض نے اسی وجہ سے مجھ سے پہلی سی محبت ۔۔۔ والی نظم میں واحد متکلم کا صیغہ استعمال کیا ۔ ہم سے پہلی سے محبت نہیں کہا ۔ یہ شعر یوں ہونا چاہئے :
ہونٹوں پہ تبسم ہے تو آنکھوں میں نمی ہے
مجھ پر دمِ رخصت یہ عنایت بھی بڑی ہے
 
تہِ ٹیگ کرنے کا شکریہ ۔ :)
چونکہ غزل مجھے تدوین شدہ حالت میں نظر آرہی ہے اس لئے اکثر تبصرے غیر متعلق لگ ر ہے ہیں ۔ کوشش کیجئے کہ اصل متن میں تدوین نہ کریں تاکہ مبصرین کی باتیں پڑھنے والوں کی سمجھ میں آجائیں ۔
اس غزل کا وزن مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہے ۔ اس بحر میں تسکینِ اوسط کا استعمال جائز ہے ۔ لیکن جیسا کہ برادرم راحل نے کہا کوشش کرنی چاہئے ایک ہی شعر میں دو مختلف اوزان کا اختلاط نہ ہو اِلا یہ کہ اس کے بغیر کوئی اور بہتر صورت نہ بنتی ہو ۔ یہ بحرتو بہت آسان اور رواں ہے چنانچہ اس میں تسکین اوسط کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔
ہونٹوں پہ تبسم ہے آنکھوں میں نمی ہے
ہم پر دمِ رخصت یہ عنایت بھی بڑی ہے

پہلے مصرع میں تبسم ہے کے بعد "تو" کا اضافہ کیجئے ۔ نہ صرف یہ لفظ وزن پورا کرنے کے لئے ناگزیر ہے بلکہ مصرع میں تبسم اور نمی کی متضاد کیفیات کا تقابل کرنے کے لئے بھی ضروری ہے۔
دوسرے مصرع میں ہم پر کے بجائے مجھ پر درست ہوگا کہ یہاں بات ایک محب یا عاشق کی ہورہی ہے پورے مجمع کی نہیں ۔ فیض نے اسی وجہ سے مجھ سے پہلی سی محبت ۔۔۔ والی نظم میں واحد متکلم کا صیغہ استعمال کیا ۔ ہم سے پہلی سے محبت نہیں کہا ۔ یہ شعر یوں ہونا چاہئے :
ہونٹوں پہ تبسم ہے تو آنکھوں میں نمی ہے
مجھ پر دمِ رخصت یہ عنایت بھی بڑی ہے
سر بہت مشکور ہوں آپ کا کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت ضائع کر کے میری اس غزل کی اصلاح کی
اللہ آپ کو اس کی جزائے خیر عطا فرمائے
 

فاخر رضا

محفلین
سر بہت مشکور ہوں آپ کا کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت ضائع کر کے میری اس غزل کی اصلاح کی
اللہ آپ کو اس کی جزائے خیر عطا فرمائے
آپ غزل کو اصل حالت میں دوبارہ کردیجیے اور تمام اصلاحات کے بعد اسے دوبارہ آخر میں لکھ دیجیے
مجھے غنی والے شعر میں کوئی پرابلم نہیں لگی. خدا پر طنز سمجھنا سمجھنے والوں کا فعل ہے. غالب کے بھی اشعار پر اسی طرح تنقید ہوسکتی ہے.
 
Top