غزل قاضی
محفلین
ہونٹوں کے ماہ تاب ہیں ، آنکھوں کے بام ہیں
سَر پھوڑنے کو ایک نہیں سو مقام ہیں
تم سے تو ایک دل کی کلی بھی نہ کِھل سکی
یہ بھی بلا کشان ِ محبت کے کام ہیں
دل سے گزر خدا کے لیے اور ہوشیار
اِس سر زمیں کے لوگ بہت بدکلام ہیں
تھوڑی سی دیر صبر کہ اِس عرصہ گاہ میں
اے سوز ِ عشق ، ہم کو ابھی اور کام ہیں
تم بھی خُدا سے سوزِ جنوں کی دُعا کرو
ہم پر تو اِن بزرگ کے احسان عام ہیں
وہ کیا کرے جو تیری بدولت نہ ہنس سکا
اور جس پہ اتفاق سے آنسُو حرام ہیں
اپنے پہ آ پڑیں تو نئے پن کی حَد نہیں
جو واقعات سب کی حکایت میں عام ہیں
مُنعم کا تو خُدا بھی اَمیں ، بُت بھی پاسباں
مُفلس کے صرف تیغ علیہ السّلام ہیں
مصطفیٰ زیدی
(شہرِ آذر)
سَر پھوڑنے کو ایک نہیں سو مقام ہیں
تم سے تو ایک دل کی کلی بھی نہ کِھل سکی
یہ بھی بلا کشان ِ محبت کے کام ہیں
دل سے گزر خدا کے لیے اور ہوشیار
اِس سر زمیں کے لوگ بہت بدکلام ہیں
تھوڑی سی دیر صبر کہ اِس عرصہ گاہ میں
اے سوز ِ عشق ، ہم کو ابھی اور کام ہیں
تم بھی خُدا سے سوزِ جنوں کی دُعا کرو
ہم پر تو اِن بزرگ کے احسان عام ہیں
وہ کیا کرے جو تیری بدولت نہ ہنس سکا
اور جس پہ اتفاق سے آنسُو حرام ہیں
اپنے پہ آ پڑیں تو نئے پن کی حَد نہیں
جو واقعات سب کی حکایت میں عام ہیں
مُنعم کا تو خُدا بھی اَمیں ، بُت بھی پاسباں
مُفلس کے صرف تیغ علیہ السّلام ہیں
مصطفیٰ زیدی
(شہرِ آذر)