ہوں برائے اصلاح

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سو زخم چھپائے ہیں تو پھر پھول ہوا ہوں​
کن مشکلوں سے صاحبِ کردار بنا ہوں​
مقتل میں مجھے جینے کے آداب سکھا دے​
اک پھول ہوں، سوکھی ہوئی ڈالی پہ کِھلا ہوں​
تصویرِ وفا ہوں، میں محبت پہ فدا ہوں​
کب میں نے کہا ہے کہ میں تعزیرِ جفا ہوں​
اک پل کی تو مہلت مجھے دے دے غمِ دنیا​
میں جامِ فنا پی کے عجب مست ہوا ہوں​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں گرامر کی غلطیاں دیکھتا ہوں یا کبھی کبھار وزن کی، وہ تو نظر نہیں آتیں، قافیے پر شک ہے کہ کہیں وہ غلط نہ ہو، اور معنوی اعتبار سے کچھ کہنے سے قاصر ہوں، لیکن زبردستی کچھ کہوں تو کچھ یوں ہوگا:
سو زخم چھپائے ہیں تو پھر پھول ہوا ہوں
کن مشکلوں سے صاحبِ کردار بنا ہوں
÷÷کن مشکلوں کی جگہ میں مشکلوں سے قدرے بہتر ہوتا شاید
مقتل میں مجھے جینے کے آداب سکھا دے
اک پھول ہوں، سوکھی ہوئی ڈالی پہ کِھلا ہوں
÷÷سکھا دے یا سکھا دو، ایک ہی بات ہے، لیکن سکھا دو بہتر اس لحاظ سے سمجھتا ہوں کہ کنفیوژن بالکل نہیں ہوگا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن ضروری نہیں۔ تاہم گلشن کا محل تھا مقتل کی بجائے۔
تصویرِ وفا ہوں، میں محبت پہ فدا ہوں
کب میں نے کہا ہے کہ میں تعزیرِ جفا ہوں
÷÷÷دوسرے شعر میں بھی تصویرہی ہونا چاہئے تھاشاید۔
اک پل کی تو مہلت مجھے دے دے غمِ دنیا
میں جامِ فنا پی کے عجب مست ہوا ہوں
۔۔۔ جام فنا کچھ کھٹک رہا ہے مجھے یہ ہونا چاہئے کہ نہیں۔۔۔۔
 
اچھا کلام ہے ماشا اللہ۔ تنقید کرنا تو میرا کام نہیں بہر حال کچھ کہہ دیتا ہوں۔
وزن و قافیہ درست ہیں۔ البتہ کہیں کہیں محاوروں کا ایسا استعمال ہوا ہے جو قابل پکڑ ہو سکتا ہے۔ ربط بھی مجروح ہے۔
مثلاً پہلا شعر: زخم چھپا کر پھول بننے سے کیا مراد؟
پک پک کر کندن ہونا سمجھ آتا تھا۔ کٹ پٹ کر نگینہ ہوجانا بھی ٹھیک تھا۔
پھر مطلعے کے دونوں مصرعوں میں ایک ہی بات کو دہرایا گیا ہے جو شعر کا حسن نہیں ہے۔ ہونا تو ایسا چاہئے تھا کہ ایک مصرع دوسرے کو تقویت بخشتا۔

دوسرا شعر: مقتل میں جینے کے آداب کون سکھائے؟ یہ وضاحت نہیں۔
پھر اگلا مصرع ایک دم پڑھا جائے تو بے جوڑ محسوس ہوتا ہے۔ سوکھی ہوئی ڈالی اور مقتل کا جوڑ؟

تیسرا شعر: پہلا مصرع تو درست ہے۔ البتہ ایک تردد جو پڑھنے والے کو ہوسکتا ہے وہ یہ جب محبت پر فدا اور تصویر جفا ہیں تو تعزیر جفا کا کیا ُتک؟ اگر پہلا مصرع یوں کردو تو یہ امکان جاتا رہے: ”حاضر ہوں سزا کو کہ میں تصویر وفا ہوں“

مزید کے لئے اساتذہ کا انتظار کرو۔
 

الف عین

لائبریرین
میں متفق ہوں بسمل کی رائے سے۔ اگر بلال ہی کچھ تبدیلی کر لیں تو اس تبدیل شدہ صورت کو میں دیکھ لوں گا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بھائی بلال اعظم ایک بات تو بتاؤ ۔۔۔ یہ ’’ہوں برائے اصلاح‘‘ کیسا ٹائٹل ہوا؟؟؟کسی دن ’’اونہوں برائے اصلاح‘‘ کی امید بھی رکھیں کیا آپ سے؟؟
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بھائی بلال اعظم ایک بات تو بتاؤ ۔۔۔ یہ ’’ہوں برائے اصلاح‘‘ کیسا ٹائٹل ہوا؟؟؟کسی دن ’’اونہوں برائے اصلاح‘‘ کی امید بھی رکھیں کیا آپ سے؟؟

بس ایک عادت ہے کہ "ردیف برائے اصلاح" پہ ہی عنوان رکھتا ہوں۔
اگر "ہونہوں" بھی ردیف کے طور پہ آئی تو، تو اس کی بھی امید رکھیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
فی الحال محرم کا مقدس مہینہ ہے، ورنہ اونہوں کی ردیف کا ایک شعر تو اآپ کو دے ہی دیتا تاکہ آپ یہ شوق بھی پورا کرسکیں۔۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اب دیکھیے
استادِ محترم الف عین صاحب
مزمل شیخ بسمل بھائی
شاہد شاہنواز بھائی

مقتل میں مجھے جینے کے آداب سکھا دے​
سچ بول کے احساس کے سینے میں چبھا ہوں
حاضر ہوں سزا کو کہ میں تصویر وفا ہوں
کب میں نے کہا ہے کہ میں تعزیرِ جفا ہوں​
اک پل کی تو مہلت مجھے دے دے غمِ دنیا​
میں جامِ بقا پی کے عجب مست ہوا ہوں​
اگر "فنا" کو "بقا" سے بدل دوں تو کیسا ہے؟
آنکھوں میں دہکتے ہوئے خوابوں کی قسم
سو بار میں اپنی ہی تمنا میں جلا ہوں
جس شہر کے سب لوگ ہیں کردار سے عاری
اُس شہر کی اُجڑی ہوئی بیداد فضا ہوں
اتنا تو مجھے شبِ ہجراں کا صلہ دے
بس ایک نظر دیکھ، ترا بندِ قبا ہوں
احساسِ مآلِ غمِ دل اب ہو بھی تو کیا
اک عمر گزاری، نہ جلا ہوں نہ بجھا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
بقا یقیناً بہتر ہے فنا کی جگہ۔
نئے اشعار میں بحر سے خارج مصرعے"
آنکھوں میں دہکتے ہوئے خوابوں کی قسم
’آنکھوں میں دہکتے ہوئے خوابوں کی قسم ہے‘ سے درست ہو جاتے ہیں اوزان

اتنا تو مجھے شبِ ہجراں کا صلہ دے
’اتنا تو مجھے کچھ شبِ ہجراں کا صلہ دے‘ سے اوزان کے حساب سے درست کیا جا سکتا ہے۔

احساسِ مآلِ غمِ دل اب ہو بھی تو کیا
ہو بھی ‘ہُبی‘ تقطیع ہو رہا ہے۔ یوں درست ہو سکتا ہے
’احساسِ مآلِ غمِ دل ہو بھی تو اب کیا‘‘
یہ محض اوزان کے حساب سے، بعد میں مکمل دیکھتا ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بقا یقیناً بہتر ہے فنا کی جگہ۔
نئے اشعار میں بحر سے خارج مصرعے"
آنکھوں میں دہکتے ہوئے خوابوں کی قسم
’آنکھوں میں دہکتے ہوئے خوابوں کی قسم ہے‘ سے درست ہو جاتے ہیں اوزان

اتنا تو مجھے شبِ ہجراں کا صلہ دے
’اتنا تو مجھے کچھ شبِ ہجراں کا صلہ دے‘ سے اوزان کے حساب سے درست کیا جا سکتا ہے۔

احساسِ مآلِ غمِ دل اب ہو بھی تو کیا
ہو بھی ‘ہُبی‘ تقطیع ہو رہا ہے۔ یوں درست ہو سکتا ہے
’احساسِ مآلِ غمِ دل ہو بھی تو اب کیا‘‘
یہ محض اوزان کے حساب سے، بعد میں مکمل دیکھتا ہوں۔

بہت بہتر سے۔
شکریہ استادِ محترم
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
استادِ محترم الف عین صاحب
کچھ مزید اشعار

اب ہجر کی راتیں بھی مجھے کچھ نہیں کہتیں​
میں ہجر کی راتوں میں نگینے سا جڑا ہوں​
یہ مان چکا تو مرا کچھ بھی نہیں لیکن​
پاگل سا میں اب بھی تری چوکھٹ پہ کھڑا ہوں​
جو بھی ہے خطائے دلِ ناداں نہیں معلوم​
بس اتنا ہے معلوم کہ تجھ پہ فدا ہوں​
میں کس کو بتاؤں جو ہے حالت مرے دل کی​
خوش ہوں میں بظاہر پہ بہت ٹوٹا ہوا ہوں​
 
Top