با ادب
محفلین
,
Let sea-discoverers to new worlds have gone,
Let maps to other, worlds on worlds have shown,
Let us possess one world, each hath one, and is one
آؤ سمندروں کی خاک چھانتے کسی دور دیس نکل پڑیں
دنیا کے نقشے پہ نئی دنئیائیں تلاش کریں
آؤ ہم ایک دنیا رکھیں
دونوں کی الگ ، دونوں کی ایک دنیا
سنئیے ۔
خاموشی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا جی چاھتا ھے ہم کولمبس کی طرح گھومتے پھرتے ایک دن ایک نئی دنیا دریافت
کر لیں ۔
ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
آپ چلیں گے میرے ساتھ ؟؟
خاموشی۔۔۔۔
میں جب بھی ایک نئی دنیا کا تصور کروں تو ذہن کے نقشے پہ جو دنیا وجود میں
ؔآتی ہے وہ ہماری دنیا جیسی لیکن ہماری دنیا سے مختلف ایک دنیا ہے ۔
اس دنیا میں جہاں گہرے سمندر ہیں چیختےچنگاڑتے پانیوں کا شور ہے ۔ حد نگاہ تک
سبزہ پھیلا ہے ۔اور کچی مٹی کا جھونپڑہ ہے ۔ جہاں صرف ہم ہوں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔
تخیل کی پراواز مزید بلند ہوسکتی تھی اگر توجہ مل جاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا دن لمبی چوڑی گفتگو کے نتیجے میں جواب ملتا ہے ۔۔۔۔۔ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کنوئیں میں کود جاؤں ۔۔۔۔
ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں دریا میں چھلانگ لگا دوں ۔۔۔
ہوں ۔۔
میں آپ کو اچھی لگتی ہوں ؟
ہوں ۔
میں آپ کو بری لگتی ہوں ؟
ہوں ۔
آپ سارا دن کرتے کیا ہیں ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزار ہا گروپس اور محافل پہ انکی موجودگی یقینی ہے ۔ اور ان ہی گروپس اور
محافل کو چھان مارئیے تین سال کے عرصے میں جہاں ایک کمنٹ کیا گیا ہوگا وہ بھی
اتنا مختصر کہ سیکنڈ ختم ہونے سے پہلے پڑھا جائے ۔
آپ لکتھے کیوں نہیں ؟
ہوں ۔
بولتے کیوں نہیں ؟؟
ذرا صبر بھی کر لیا کیجیئے بیگم ۔
اور پھر صبر کرتے کرتے چاہے آپ کا صبر تمام ہو جائے صبر صبر ہی رہے گا ۔
یہ رویہ ہر گز فقط مجھ سے روا نہیں رکھا جاتا ۔
کسی گزری صدی میں ایک دن ان کی والدہ محترمہ فرمانے لگیں ارے بیٹا تم ہی بات
کر لیا کرو ہم سے تو کوئی بات نہیں کرتا ۔۔
ہم نے تو ان کی باتوں کے دیوان لکھ رکھے ہیں ۔۔
دیوان کا پہلا حرف “ہوں”
دیوان کا آخری حرف “ہوں”
اب تو زندگی کا یہی چلن ہے ۔ جس دن “ہوں” تمیز سے کہا جائے سمجھئیے محترم کا
مزاج معتدل ہے ۔ اس دن آپ کو سو خون بھی معاف ہیں جو مرضی آئے کرتے پھرئیے
خاموش لبوں سے “اف” نہیں نکلنے والا ۔
جس دن “ہوں” تبسم فرما کے کہہ دیں اس دن انھیں قتل کر ڈالئیے ہنس کہ ہر ستم
گوارہ ہے ۔
لیکن جس بری گھڑی “ہوں” غضب کی صورت ادا ہو اس دن جان کی امان پائیے اور کسی
کونے کھدرے میں دبک کے بیٹھ جائیے ۔۔۔ نہیں نہیں غلط ہر گز مت سمجھیئے گا اس
دن کوئی دنگا فساد قتل غرت کرنے والے نہیں ۔۔ اس دن سے اگلے چند ایام تک مکمل
خاموش ہو جائیں گے اور آپ زندگی بخش “ہوں” سے بھی جایئں گے ۔
لفظ خاموشی میری زندگی کی تعریف ہے ۔
محترم کو آدم بیزار ہر گز نہ سمجھا جائے انکی یقینا کوئی پوشیدہ محبوبہ موجود
ہے جس کی شان میں غزلیں کہی جا سکتی ہیں ۔ لیکن میری تمام تر ہمدردیاں اس
محبوبہ کے ساتھ ہیں جنم جلی کی اچھائی کسی غزل میں نہ بیان کی گئی ہے ۔ گو ان
کے اہل خانہ کا متفقہ بیان ہے کہ زندگی میں میرے علاوہ موصوف نے کبھی کسی پہ
پہلی نگاہ بھی نہیں ڈالی ۔
اس سے بھی ہر گز مراد یہ نہ لی جائے کہ موصوف “ خواتین بیزار ” ہیں ۔ دفتر ،
آس پڑوس حتیٰ کہ میری سہیلیوں کے بھی انتہائی صد احترام اور چہیتے “بھائی” ہیں
۔
اور حقوق نسواں کے بہترین علمبردار بھی ۔
زندگی میں صرف ایک موقع پہ ان کا غصہ دیکھا ہے اور دعا ہے کہ ایسا کوئی موقع
دوبارہ کبھی نہ آئے ۔ آمین ۔
کٹ ہی گئی خاموشی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے تو دن گزر گئے میرے ہی دن گزر گئے ۔
Let sea-discoverers to new worlds have gone,
Let maps to other, worlds on worlds have shown,
Let us possess one world, each hath one, and is one
آؤ سمندروں کی خاک چھانتے کسی دور دیس نکل پڑیں
دنیا کے نقشے پہ نئی دنئیائیں تلاش کریں
آؤ ہم ایک دنیا رکھیں
دونوں کی الگ ، دونوں کی ایک دنیا
سنئیے ۔
خاموشی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا جی چاھتا ھے ہم کولمبس کی طرح گھومتے پھرتے ایک دن ایک نئی دنیا دریافت
کر لیں ۔
ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
آپ چلیں گے میرے ساتھ ؟؟
خاموشی۔۔۔۔
میں جب بھی ایک نئی دنیا کا تصور کروں تو ذہن کے نقشے پہ جو دنیا وجود میں
ؔآتی ہے وہ ہماری دنیا جیسی لیکن ہماری دنیا سے مختلف ایک دنیا ہے ۔
اس دنیا میں جہاں گہرے سمندر ہیں چیختےچنگاڑتے پانیوں کا شور ہے ۔ حد نگاہ تک
سبزہ پھیلا ہے ۔اور کچی مٹی کا جھونپڑہ ہے ۔ جہاں صرف ہم ہوں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔
تخیل کی پراواز مزید بلند ہوسکتی تھی اگر توجہ مل جاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا دن لمبی چوڑی گفتگو کے نتیجے میں جواب ملتا ہے ۔۔۔۔۔ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کنوئیں میں کود جاؤں ۔۔۔۔
ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں دریا میں چھلانگ لگا دوں ۔۔۔
ہوں ۔۔
میں آپ کو اچھی لگتی ہوں ؟
ہوں ۔
میں آپ کو بری لگتی ہوں ؟
ہوں ۔
آپ سارا دن کرتے کیا ہیں ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزار ہا گروپس اور محافل پہ انکی موجودگی یقینی ہے ۔ اور ان ہی گروپس اور
محافل کو چھان مارئیے تین سال کے عرصے میں جہاں ایک کمنٹ کیا گیا ہوگا وہ بھی
اتنا مختصر کہ سیکنڈ ختم ہونے سے پہلے پڑھا جائے ۔
آپ لکتھے کیوں نہیں ؟
ہوں ۔
بولتے کیوں نہیں ؟؟
ذرا صبر بھی کر لیا کیجیئے بیگم ۔
اور پھر صبر کرتے کرتے چاہے آپ کا صبر تمام ہو جائے صبر صبر ہی رہے گا ۔
یہ رویہ ہر گز فقط مجھ سے روا نہیں رکھا جاتا ۔
کسی گزری صدی میں ایک دن ان کی والدہ محترمہ فرمانے لگیں ارے بیٹا تم ہی بات
کر لیا کرو ہم سے تو کوئی بات نہیں کرتا ۔۔
ہم نے تو ان کی باتوں کے دیوان لکھ رکھے ہیں ۔۔
دیوان کا پہلا حرف “ہوں”
دیوان کا آخری حرف “ہوں”
اب تو زندگی کا یہی چلن ہے ۔ جس دن “ہوں” تمیز سے کہا جائے سمجھئیے محترم کا
مزاج معتدل ہے ۔ اس دن آپ کو سو خون بھی معاف ہیں جو مرضی آئے کرتے پھرئیے
خاموش لبوں سے “اف” نہیں نکلنے والا ۔
جس دن “ہوں” تبسم فرما کے کہہ دیں اس دن انھیں قتل کر ڈالئیے ہنس کہ ہر ستم
گوارہ ہے ۔
لیکن جس بری گھڑی “ہوں” غضب کی صورت ادا ہو اس دن جان کی امان پائیے اور کسی
کونے کھدرے میں دبک کے بیٹھ جائیے ۔۔۔ نہیں نہیں غلط ہر گز مت سمجھیئے گا اس
دن کوئی دنگا فساد قتل غرت کرنے والے نہیں ۔۔ اس دن سے اگلے چند ایام تک مکمل
خاموش ہو جائیں گے اور آپ زندگی بخش “ہوں” سے بھی جایئں گے ۔
لفظ خاموشی میری زندگی کی تعریف ہے ۔
محترم کو آدم بیزار ہر گز نہ سمجھا جائے انکی یقینا کوئی پوشیدہ محبوبہ موجود
ہے جس کی شان میں غزلیں کہی جا سکتی ہیں ۔ لیکن میری تمام تر ہمدردیاں اس
محبوبہ کے ساتھ ہیں جنم جلی کی اچھائی کسی غزل میں نہ بیان کی گئی ہے ۔ گو ان
کے اہل خانہ کا متفقہ بیان ہے کہ زندگی میں میرے علاوہ موصوف نے کبھی کسی پہ
پہلی نگاہ بھی نہیں ڈالی ۔
اس سے بھی ہر گز مراد یہ نہ لی جائے کہ موصوف “ خواتین بیزار ” ہیں ۔ دفتر ،
آس پڑوس حتیٰ کہ میری سہیلیوں کے بھی انتہائی صد احترام اور چہیتے “بھائی” ہیں
۔
اور حقوق نسواں کے بہترین علمبردار بھی ۔
زندگی میں صرف ایک موقع پہ ان کا غصہ دیکھا ہے اور دعا ہے کہ ایسا کوئی موقع
دوبارہ کبھی نہ آئے ۔ آمین ۔
کٹ ہی گئی خاموشی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے تو دن گزر گئے میرے ہی دن گزر گئے ۔