ہو رہا ہے کیا یہاں کچھ عقدۂ محشر کھلے ۔۔۔ عمران شناور

آپ دوستوں کی نذر

طرحی غزل

ہو رہا ہے کیا یہاں کچھ عقدہء محشر کھلے
اب فصیلِ تیرگی میں روشنی کا در کھلے

بزمِ یاراں سج گئی ہے بس یہی ارمان ہے
کوئی تو ساحر ہو ایسا جس پہ وہ ازور کھلے

’کتنا اچھا دور تھا‘ ہم نے بزرگوں سے سنا
چھوڑ کر جاتے تھے جب ہم اپنے اپنے گھر کھلے

سوچتے تھے زندگی میں اب کوئی مشکل نہیں
ایک کا حل مل گیا تو مسئلے دیگر کھلے

تو مری شہ رگ کے اتنا پاس کیسے ہوگیا
’’سوچنے بیٹھا تجھے تو کیسے کیسے در کھلے‘‘

ڈوب کو بحرِ سخن میں مَیں شناور ہوگیا
ایک پل میں زندگی کے کتنے ہی جوہر کھلے

عمران شناور​
 

الف عین

لائبریرین
واہ
’کتنا اچھا دور تھا‘ ہم نے بزرگوں سے سنا
چھوڑ کر جاتے تھے جب ہم اپنے اپنے گھر کھلے
ٹائپو ہو گئی ہے مقطع میں۔ درست کر لیں
 

ابو مصعب

محفلین
بہت خوب
بہت عمدہ
لیکن آخری شعر میں
ڈرب کو بحرِ سخن میں جب شناور ہوگیا
ڈرب کا کیا مطلب ؟
اور
کوئی تو ساحر ہو ایسا جس پہ وہ ازور کھلے
اس مصرعے میں "ازور" کا کیا مطلب ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
’کتنا اچھا دور تھا‘ ہم نے بزرگوں سے سنا
چھوڑ کر جاتے تھے جب ہم اپنے اپنے گھر کھلے

سوچتے تھے زندگی میں اب کوئی مشکل نہیں
ایک کا حل مل گیا تو مسئلے دیگر کھلے

تو مری شہ رگ کے اتنا پاس کیسے ہوگیا
’’سوچنے بیٹھا تجھے تو کیسے کیسے در کھلے‘‘

بہت خوب اچھی غزل ہے عمران بھائی۔

بہت سی داد حاضرِ خدمت ہے۔ قبول کیجے۔
 
بہت خوب
بہت عمدہ
لیکن آخری شعر میں
ڈرب کو بحرِ سخن میں جب شناور ہوگیا
ڈرب کا کیا مطلب ؟
اور
کوئی تو ساحر ہو ایسا جس پہ وہ ازور کھلے
اس مصرعے میں "ازور" کا کیا مطلب ہے؟

ابو مصعب غزل پسند کرنے کے لیے بہت شکریہ۔
لفظ ڈرب غلط لکھا گیا تھا اصل میں ڈوب تھا
درست کر دیا ہے۔ دیکھ لیں
اور ازور کے معنی ہیں: لائق، سزاوار‘ مستحق
یہاں بمعنی لائق استعمال ہوا ہے۔
آپ میں سیکھنے کا مادہ بہت زیادہ ہے۔ اللہ پاک آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ آمین
 

ایم اے راجا

محفلین
’کتنا اچھا دور تھا‘ ہم نے بزرگوں سے سنا
چھوڑ کر جاتے تھے جب ہم اپنے اپنے گھر کھلے

سوچتے تھے زندگی میں اب کوئی مشکل نہیں
ایک کا حل مل گیا تو مسئلے دیگر کھلے

واہ واہ بہت خوب
 
Top