عمران شناور
محفلین
آپ دوستوں کی نذر
طرحی غزل
ہو رہا ہے کیا یہاں کچھ عقدہء محشر کھلے
اب فصیلِ تیرگی میں روشنی کا در کھلے
بزمِ یاراں سج گئی ہے بس یہی ارمان ہے
کوئی تو ساحر ہو ایسا جس پہ وہ ازور کھلے
’کتنا اچھا دور تھا‘ ہم نے بزرگوں سے سنا
چھوڑ کر جاتے تھے جب ہم اپنے اپنے گھر کھلے
سوچتے تھے زندگی میں اب کوئی مشکل نہیں
ایک کا حل مل گیا تو مسئلے دیگر کھلے
تو مری شہ رگ کے اتنا پاس کیسے ہوگیا
’’سوچنے بیٹھا تجھے تو کیسے کیسے در کھلے‘‘
ڈوب کو بحرِ سخن میں مَیں شناور ہوگیا
ایک پل میں زندگی کے کتنے ہی جوہر کھلے
عمران شناور
طرحی غزل
ہو رہا ہے کیا یہاں کچھ عقدہء محشر کھلے
اب فصیلِ تیرگی میں روشنی کا در کھلے
بزمِ یاراں سج گئی ہے بس یہی ارمان ہے
کوئی تو ساحر ہو ایسا جس پہ وہ ازور کھلے
’کتنا اچھا دور تھا‘ ہم نے بزرگوں سے سنا
چھوڑ کر جاتے تھے جب ہم اپنے اپنے گھر کھلے
سوچتے تھے زندگی میں اب کوئی مشکل نہیں
ایک کا حل مل گیا تو مسئلے دیگر کھلے
تو مری شہ رگ کے اتنا پاس کیسے ہوگیا
’’سوچنے بیٹھا تجھے تو کیسے کیسے در کھلے‘‘
ڈوب کو بحرِ سخن میں مَیں شناور ہوگیا
ایک پل میں زندگی کے کتنے ہی جوہر کھلے
عمران شناور