منیب: اچھا اب میں آپ کو تیسری غزل سناتا ہوں جو کہ شاید میری لکھی ہوئی اور آپ کی پسند کی ہوئی۔۔
عرفان: میری پسندیدہ ہے۔
منیب: ہاں، ان میں سے ایک ہے۔
عرفان: یہ وہ ہے ”ہو سکتا ہے“۔
منیب: ہاں، It is possible
عرفان: In fact, only it is possible
.but we are just seeing the things from the wrong side
منیب: ہاں، exactly، کہ ہمارے دیکھنے کا جو ۔۔
عرفان: ہاں، ہم غلط side سے دیکھ رہے ہیں۔
اب آپ پڑھیں گے تو سب کو اِس بات کا پتا لگے گا کہ actually بات کیا ہو رہی ہے؟
ہم کس غلط side کی بات کر رہے ہیں؟
منیب: ہاں!
ہو سکتا ہے تم روز کو بھی رات سمجھ لو
دن ہو۔
تم کہو نہیں، یہاں روشنی نہیں ہے، یہاں اندھیرا ہی ہے۔
ہو سکتا ہے تم روز کو بھی رات سمجھ لو
ہو سکتا ہے تم رات کو بھی رات نہ جانو
عرفان: واہ!
اِس سے نا مجھے ایک اور ہمارے پسندیدہ شاعر محسن نقوی صاحب ہیں
اُن کی بات یاد آ گئی کہ
کیا غضب ہے کہ جلتے ہوئے شہروں میں
بجلیوں کے فضائل سنائے گئے
منیب: صحیح بات ہے!
عرفان: تو یہاں رات کو بھی رات ماننے کو کوئی تیار نہیں ہے۔
منیب: اُس کو بھی وہ دن سمجھ رہے ہیں۔
عرفان: صبحِ روشن کی مانند سمجھ رہے ہیں، یا بے وقوف بنائے جا رہے ہیں۔
منیب: خود کو دھوکا دے رہے ہیں۔
ہو سکتا ہے تم بات کے الفاظ پکڑ لو
الفاظ کے پردے میں کہی بات نہ جانو
عرفان: واہ!
اِس پہ بھی ہم نے ایک شعر سنا تھا۔
سب سمجھتے ہیں بات مطلب کی
کس نے سمجھا ہے بات کا مطلب؟
منیب: زبردست
ایک نا معنی پھوٹتا ہے اندر سے۔
بعض اوقات وہ معنی الفاظ کے بغیر بھی convey ہو جاتا ہے۔
عرفان: بالکل، ایسا ہی ہے۔
منیب: لیکن ہم اِتنے سطحی الفاظ کو پکڑ کے بیٹھ جاتے ہیں،
اُن کے جھگڑے میں پڑ جاتے ہیں کہ اُس بات کی اصل بات نہیں سمجھ میں آتی۔
عرفان: بالکل، ایسا ہی ہے۔
منیب:
ہو سکتا ہے تم گردشِ حالات کو دیکھو
کل امیر تھا، آج غریب ہو گیا۔
کل خوشی تھی، آج دکھ ہے۔
حالات گردش کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے تمھاری نظر میں یہ ہو۔
ہو سکتا ہے تم باعثِ حالات نہ جانو
لیکن اِس گردش کا باعث کیا ہے؟ وہ نظر سے پوشیدہ ہے۔
عرفان: واہ!
منیب:
ہو سکتا ہے تم حاملِ تورات ہو لیکن
ہو سکتا ہے تم معنیِ تورات نہ جانو
عرفان: واہ وا!
منیب: اور آخری اِس کا شعر ہے،
ہو سکتا ہے تم ذاتِ خدا پر کرو بحثیں
ہو سکتا ہے تم آدمی کی ذات نہ جانو
عرفان: واہ، واہ وا!
منیب: یہ جو آخری دو اشعار ہیں نا، تھوڑے نازک سے ہیں۔
عرفان: نہیں، میرے نزدیک یہ نازک نہیں ہیں۔ اِن پہ کوئی بھی شخص اعتراض نہیں کر سکتا۔
یہ میرے خیال سے آئینہ ہیں۔
اگر کسی کو اپنی شکل اِن میں نہیں پسند آئے گی، تو وہی کوئی الٹا سیدھا comment کر سکتا ہے، ورنہ۔۔
منیب: بعض مضامین ایسے ہیں کہ وہ شعر کے پردے میں ہی کہے جا سکتے ہیں۔
جیسے ہی آپ اُن پہ کھلیں گے نا تو آپ کی پکڑ ہو جائے گی۔
عرفان: ہو سکتا ہے!
اور اِس نظم کا سب سے پسندیدہ شعر بھی میرا یہی تھا کہ
ہو سکتا ہے تم ذاتِ خدا پر کرو بحثیں
ہو سکتا ہے تم آدمی کی ذات نہ جانو
منیب:
افسوس صد ہزار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے
اب اِن آخری دو شعروں پہ بہت کچھ میں بول سکتا ہوں لیکن اگر میں نے ویسے ہی بولنا ہوتا تو پھر میں شاعری نہ لکھتا۔
خوفِ فسادِ خلق ایسا ہے کہ شعر میں ہی رہیں۔