امین شارق
محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
ہو کے بِسمل خموش ہے اب بھی
شاد ہے دِل خموش ہے اب بھی
عِشق کے بعد بھی سکُون میں ہے
قُلزمِ دِل خموش ہے اب بھی
لب کُشا ہو تب ہی آساں ہو مگر
تیری مُشکل خموش ہے اب بھی
حق کے آگے زبان کیسے کُھلے؟
دیکھ باطِل خموش ہے اب بھی
خط میں لِکھے ہزار شِکوے مگر
وہ مُقابل خموش ہے اب بھی
سب نے پُوچھے سوال واعظ سے
ایک جاہِل خموش ہے اب بھی
دیکھے ظُلم و سِتم سمندر کے
پھر بھی ساحِل خموش ہے اب بھی؟
شہر میں راج ہے جفاؤں کا
اور عادِل خموش ہے اب بھی
صدمہ ہے میری موت کا شاید
میرا قاتِل خموش ہے اب بھی
ہے سراسیمہ دیکھ کر اُن کو
ماہِ کامِل خموش ہے اب بھی
شاہ سے چاہتا ہے بے مانگے
ایک سائِل خموش ہے اب بھی
میرے جیسا کوئی تو ہے مخفی
مُجھ میں شامِل خموش ہے اب بھی
شعر کیا خُوب ہیں ترے شارؔق
پر یہ محفِل خموش ہے اب بھی
شاد ہے دِل خموش ہے اب بھی
عِشق کے بعد بھی سکُون میں ہے
قُلزمِ دِل خموش ہے اب بھی
لب کُشا ہو تب ہی آساں ہو مگر
تیری مُشکل خموش ہے اب بھی
حق کے آگے زبان کیسے کُھلے؟
دیکھ باطِل خموش ہے اب بھی
خط میں لِکھے ہزار شِکوے مگر
وہ مُقابل خموش ہے اب بھی
سب نے پُوچھے سوال واعظ سے
ایک جاہِل خموش ہے اب بھی
دیکھے ظُلم و سِتم سمندر کے
پھر بھی ساحِل خموش ہے اب بھی؟
شہر میں راج ہے جفاؤں کا
اور عادِل خموش ہے اب بھی
صدمہ ہے میری موت کا شاید
میرا قاتِل خموش ہے اب بھی
ہے سراسیمہ دیکھ کر اُن کو
ماہِ کامِل خموش ہے اب بھی
شاہ سے چاہتا ہے بے مانگے
ایک سائِل خموش ہے اب بھی
میرے جیسا کوئی تو ہے مخفی
مُجھ میں شامِل خموش ہے اب بھی
شعر کیا خُوب ہیں ترے شارؔق
پر یہ محفِل خموش ہے اب بھی