ہو کے بِسمل خموش ہے اب بھی غزل نمبر 138 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
ہو کے بِسمل خموش ہے اب بھی
شاد ہے دِل خموش ہے اب بھی

عِشق کے بعد بھی سکُون میں ہے
قُلزمِ دِل خموش ہے اب بھی

لب کُشا ہو تب ہی آساں ہو مگر
تیری مُشکل خموش ہے اب بھی

حق کے آگے زبان کیسے کُھلے؟
دیکھ باطِل خموش ہے اب بھی

خط میں لِکھے ہزار شِکوے مگر
وہ مُقابل خموش ہے اب بھی

سب نے پُوچھے سوال واعظ سے
ایک جاہِل خموش ہے اب بھی

دیکھے ظُلم و سِتم سمندر کے
پھر بھی ساحِل خموش ہے اب بھی؟

شہر میں راج ہے جفاؤں کا
اور عادِل خموش ہے اب بھی

صدمہ ہے میری موت کا شاید
میرا قاتِل خموش ہے اب بھی

ہے سراسیمہ دیکھ کر اُن کو
ماہِ کامِل خموش ہے اب بھی

شاہ سے چاہتا ہے بے مانگے
ایک سائِل خموش ہے اب بھی

میرے جیسا کوئی تو ہے مخفی
مُجھ میں شامِل خموش ہے اب بھی

شعر کیا خُوب ہیں ترے
شارؔق
پر یہ محفِل خموش ہے اب بھی
 

الف عین

لائبریرین
ردیف کئی اشعار میں بے معنی لگ رہی ہے، پہلے بھی کیوں خموش تھی جو اب بھی ہے؟ مثلاً مطلع میں ہی!
الف عین سر
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
ہو کے بِسمل خموش ہے اب بھی
شاد ہے دِل خموش ہے اب بھی
ردیف

عِشق کے بعد بھی سکُون میں ہے
قُلزمِ دِل خموش ہے اب بھی
درست، یہاں "عشق کے بعد" کہنے سے "اب بھی" کی معنویت پیدا ہو گئی ہے

لب کُشا ہو تب ہی آساں ہو مگر
تیری مُشکل خموش ہے اب بھی
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے، مشکل کیسے خاموش یا گویا ہوتی ہے؟

حق کے آگے زبان کیسے کُھلے؟
دیکھ باطِل خموش ہے اب بھی
درست

خط میں لِکھے ہزار شِکوے مگر
وہ مُقابل خموش ہے اب بھی

تھیک

سب نے پُوچھے سوال واعظ سے
ایک جاہِل خموش ہے اب بھی
ردیف

دیکھے ظُلم و سِتم سمندر کے
پھر بھی ساحِل خموش ہے اب بھی؟
ٹھیک

شہر میں راج ہے جفاؤں کا
اور عادِل خموش ہے اب بھی
ردیف

صدمہ ہے میری موت کا شاید
میرا قاتِل خموش ہے اب بھی
درست

ہے سراسیمہ دیکھ کر اُن کو
ماہِ کامِل خموش ہے اب بھی
ردیف

شاہ سے چاہتا ہے بے مانگے
ایک سائِل خموش ہے اب بھی
ردیف

میرے جیسا کوئی تو ہے مخفی
مُجھ میں شامِل خموش ہے اب بھی
ردیف

شعر کیا خُوب ہیں ترے شارؔق
پر یہ محفِل خموش ہے اب بھی
درست
 
Top