ہچکیوں کا شمار ہے یعنی - خلیل میاں برکاتی

ہچکیوں کا شمار ہے یعنی
آپ کا انتظار ہے یعنی
فتنہ برپا ہے آج عالَم میں
دل بہت بے قرار ہے یعنی
آنکھ اُٹھتی نہیں ہے محشر میں
فتنہ گر شرمسار ہے یعنی
کس قدر سوگوار ہے دنیا
زیست بھی ایک بار ہے یعنی
مستیٔ چشمِ یار ارے توبہ
شام ہی سے خمار ہے یعنی
وہ بُلانے بھی نہیں آتے
حُسن با اختیار ہے یعنی
دل دھڑکتا ہے بَلّیوں میرا
ان کے دل کی پکار ہے یعنی
سارے جلوے ہیں حسنِ کامل کے
عشق بے اختیار ہے یعنی
کس نے دل کا قرار لوٹ لیا
کیوں سکوں ناگوار ہے یعنی
پوچھنا کیا خلیؔلِ مُضطر کا
ایک تازہ شکار ہے یعنی
از خلیل میاں برکاتی قادری
 
مختصر بحر میں لکھنا ہمیشہ مشکل رہا ہے
غزل کے وسعت مضمون کو مختصر بحر میں سمونا جوئے شیر لانے سے کم نہیں
بہت اچھی غزل شریک محفل کی آپ نے
شاد و آباد رہیں
 
Top