راقم کو ٹیلی وژن دیکھنے کا موقع کم ملتا ہے لیکن جب بھی ملتا ہے تو ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کے ساتھ دس منٹ کسی چینل کو سکون سے دیکھا جاسکے ۔ اچھے سے اچھے پروگرام کے درمیان جب ''بریک'' آتا ہے تو آدمی بھی اپنی سماعت وبصارت کو ''بریک ''لگا دیتا ہے ۔ ہم نے گمان کیا کہ شاید یہ ہم جیسے قدامت پسند لوگوں کی طبع پر گراں گزرتا ہے اور لبرل و اعتدال پسند لوگوں کے لیے یہ دورحاضر کے ساتھ قدم ملانے لیے ضروری ہوگا ۔ لیکن پچھلے دنوں مشہور صحافی انصار عباسی صاحب کی ایک دردمندانہ تحریر نظر سے گزری ۔ تو دل کو ڈھارس بندھی کہ
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں ۔
ان کے اس احتجاج پر ان کی برادری نے ان کی خوب خبر لی سو انہوں نے پھر اپنے ایمان کا ثبات دیتے ہوئے دوسرا کالم تحریر کیا ۔
میں یہاں ان کے دونوں کالم اور ان کا ربط دے رہا ہوں اور اس کے ساتھ میں نے پیمرا کو ایک احتجاجی مراسلہ اپنی ناپختہ تحریر کے ذریعے روانہ کررہا ہوں اور آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ آپ بھی اس کام میں (اگر آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں ) تو اپنا حصہ ڈالیے ۔ ( اس سوچ کہ ساتھ کہ میرا وزن کس پلڑے میں ہے ؟)
ہیرامنڈی کلچرکا فروغ اور ہماری خاموشیمیر اارادہ توتھا کہ میں انجمن غلامان امریکا کی طرف سے پاس کی گئی قراردادپرکچھ لکھتا۔ میں نے یہ بھی سوچ رکھا تھاکہ اعتزازاحسن کی طرف سے کچھ صحافیوں کو بے روزگارکرنے کی دھمکی پربھی تبصرہ کرتا اور یہ کہ رعونت زدہ لوگ کیسے اپنے آپ کو رازق سمجھ بیٹھتے ہیں مگر دی نیوزکے سینئر رپورٹرخالدمصطفیٰ کی فون کال نے مجھے اس موضوع پرلکھنے پر مجبورکردیا جوعمومی طورپر ہرپاکستانی کا مسئلہ ہے اور جس پر میں پہلے بھی بارہارلکھ چکاہوں اور انشاء اللہ اس وقت تک لکھتا رہوں گا جب تک بہتری کا راستہ نہیں نکلتا۔ قدرے غصہ میں خالد نے ایک خاتون کی میزبانی میں چلنے والے ایک تفریحی شوکا حوالہ دیتے ہوئے استفسارکیاکہ میں نے وہ شودیکھایا نہیں۔ میں نے جواب دیاکہ کبھی اس شوکو دیکھنے کا موقع ملا اور نہ ہی کبھی خواہش ہوئی۔خالد کا کہنا تھا کہ وہ اپنے فیملی کے ساتھ شودیکھ رہاتھا کہ پروگرام میں شامل ایک مہمان نے کہاکہ گزشتہ پانچ سال سے وہ کسی عورت کے ساتھ نہیں سویاجبکہ اسی پروگرام میں مدعوایک فاحشہ نے کہاکہ وہ اپنے ہندوستانی مرددوست سے بغل گیربھی ہوتی ہے اور اسے Kiss بھی کرتی ہے جس پر اسے کوئی شرمندگی نہیں ۔ اس فاحشہ کا کہنا تھا کہ اس میں کیا برائی ہے اور یہ کہ کسی دوسرے کو اس پرکیوں تکلیف ہے؟خالد مصطفیٰ کا رونا تھا کہ انٹرٹینمنٹ کے نام پرمیڈیا فحاشی وعریانی کی تمام حدوں کو پھلانگ چکاہے۔ مگر پیمرا‘ حکومت‘ عدالت‘ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں سب اپنی اپنی ذمہ داری سے آنکھیں بندکیے بیٹھے ہیں۔ اب تو حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ گھربیٹھ کر ہم پاکستانی چینلزبھی نہیں دیکھ سکتے۔ نہیں معلوم کب کس قسم کی بے ہودگی ٹی وی اسکرین پر چل پڑے اور دیکھنے والے خاندان کے لوگ شرمندگی میں ایک دوسرے سے آنکھیں ملانے سے کترانے کی کوشش کرتے رہیں۔ میرے اس صحافی دوست نے بتایاکہ امریکا سے پاکستان منتقل ہونے والی اس کی ہمسائی خاتون نے بھی اس سے کیبل کے ذریعہ فحاشی وعریانی کے فروغ پر بات کی اوربتایاکہ وہ اپنے بچوں کو امریکا چھوڑکر پاکستان اس لیے لائی کہ ان بچوں کو اپنی اقدارسکھائی جائیں اورانہیں اس فحش ماحول سے دوررکھا جائے جس کا سامنا مغربی دنیا کوہے۔ مگر اس خاتون کا گلہ یہ ہے کہ پاکستان کا ماحول تو انتہائی ابتری کا شکارہے اور اس میں کیبل ٹی وی نیٹ ورک کا بہت اہم کردارہے۔
خالد سے بات ختم کرنے کے بعد میں نے پیمرا میں ایک افسرسے اس موضوع پر بات کی جس نے مجھے بتایاکہ پیمرا نہ صرف اس تمام صورتحال سے واقف ہے بلکہ اس جرم میں برابرکاشریک ہے۔ اس افسرکا کہناتھاکہ پاکستانی ٹی وی چینلزمیں دکھائے جانے والے قابل اعتراض پروگرام‘ گانے‘ڈانس وغیرہ کا اس فحش موادسے کوئی مقابلہ ہی نہیں جسے غیرقانونی طورپر پاکستان بھرمیں کیبل آپریٹرزبلاروک ٹوک دکھاکر غیرقانونی اشتہارات کے ذریعے اربوں روپے بٹورتے ہیں۔ پیمراکو خوب معلوم ہے کہ درجنوں انڈین اوردوسرے غیرقانونی چینلز دکھانے کے ساتھ ساتھ کیبل نیٹ ورک کے ذریعے غیرقانونی ان ہائوس سی ڈی چینلز کی بھی بھرمارہے جو قابل اعتراض مواد دکھاکرخوب پیسہ بٹوررہے ہیں۔ مجھے بتایاگیا کہ اس حرام کاروبارسے کمائی جانے والی رقم مبینہ طورپر پیمراکے اعلیٰ افسروں کی جیبوں تک پہنچی ہے جس کی وجہ سے یہ بے ہودہ کاروباربلا روک ٹوک جاری وساری ہے۔ ان فحش چینلزکا مقابلہ کرنے کے لیے قانونی طورپر چلنے والے پرائیویٹ چینلز بھی بے ہودگی کے سفرپرگامزن ہیں تاکہ ان کا کاروبارتباہ نہ ہو۔ معاشرہ کی تباہی اوراپنی نسلوں کی اخلاقی اقتدارکو تارتارکرکے پیسہ کمانے والوں کو پیمرا اور دوسرے حکومتی اداروں نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ ہیرامنڈی کلچرکو ملک کے کونے کونے بلکہ ہرگھرمیں پھیلادیں۔ ماضی میں برائی چھپ کرکی جاتی تھی مگر اب برائی کو نہ صرف کھلے عام پیش کیاجاتا ہے بلکہ اس کا آزادمیڈیا کے نام پر پرزوردفاع بھی کیاجاتاہے۔
چند روز قبل ایک قاری نے مجھے لکھا کہ ہم صحافیوں کو اس بات کی فکرہے اور نہ احساس کہ ایک مخصوص طبقہ پاکستان کے ہرگھرمیں ہیرامنڈی کلچرپھیلانے میں مصروف ہے۔ اس قاری نے مزید لکھاکہ ایک فاحشہ کو’’نامور‘‘ کا درجہ دے کر اورطوائفوںکو رول ماڈل بناکرپیش کیاجاتاہے۔ ناچ گانے اورطوائفوں کا شوق ہمیشہ سے مخصوص علاقوں تک محدودرہا مگر کبھی اس کو اچھی نظرسے نہ دیکھاگیا۔ آج کیبل نیٹ ورک اورمیڈیا کی وجہ سے اس گندے کاروبارمیں شامل افرادکو نہ صرف عزت دی جارہی ہے بلکہ اسے غیرمعمولی فروغ بھی مل رہاہے جس سے ہر خاندان متاثرہورہاہے۔ حکومت کجا یہ کہ اس گندگی سے معاشرے کو صاف کرے وہ بھی ہیرامنڈی کلچرکے نمائندوں کو اعلیٰ قومی ایوارڈزسے نوازرہی ہے۔
یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ اب کیا کیاجائے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں پاکستانی اس صورتحال سے پریشان ہیں مگرکوئی کچھ نہیںکررہا۔ چوہدری نثارعلی خان جیسے بااثر سیاستدان بھی اس پریشانی میں مبتلا ہیں مگر مجھ سے وعدہ کے باوجود ابھی تک کوئی عملی قدم اٹھانے سے قاصرہیں۔ حال ہی میں کراچی میں پاکستان کے کچھ انتہائی محترم مفتی صاحبان سے بھی میری اس موضوع پر بات ہوئی اور میں نے ان سے درخواست کی کہ اس بڑھتی ہوئی سماجی برائی کی روک تھام کے لیے علمائے کرام کو اپناکرداراداکرنا چاہیے جس کا انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا۔ اسی سلسلے میں میری ملاقات پاکستان کے ممتازقانون دان اکرم شیخ صاحب سے ہوئی جو خود بھی اس مسئلہ میں انتہائی مضطرب نظرآئے۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیاکہ وہ جلد ہی انٹرنیٹ‘غیرقانونی انڈین چینلز‘ ان ہائوس سی ڈی چینلز اورکیبل ٹی وی کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی وعریانی کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کارخیرمیں اپناحصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یہاں میں انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد کو روکنے کے لیے برسرپیکارکراچی سے تعلق رکھنے والے 15سالہ بچے عبداللہ غازی کے حوصلے کی دادیتاہوں کہ لبرل فاشسٹوں اور ہیرامنڈی کلچرکے پروموٹرزکے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود اس بچے نے چیف جسٹس سپریم کورٹ اورپی ٹی اے کو 20 لاکھ ایسی ویب سائٹس کے ایڈریس بھجوائے ہیں جو فحش اورعریاں ہیں اور جن کو بلاک کرنا حکومت اور پی ٹی اے کی اولین ذمہ داری ہے۔عبداللہ اکثرپوچھتاہے کہ کیاکرپشن کے دوسرے معاملات کی طرح چیف جسٹس آف پاکستان اس اخلاقی ‘سماجی اور معاشرتی کرپشن کے خلاف بھی سخت ترین اقدام اٹھائیں گے؟؟۔
خالد سے بات ختم کرنے کے بعد میں نے پیمرا میں ایک افسرسے اس موضوع پر بات کی جس نے مجھے بتایاکہ پیمرا نہ صرف اس تمام صورتحال سے واقف ہے بلکہ اس جرم میں برابرکاشریک ہے۔ اس افسرکا کہناتھاکہ پاکستانی ٹی وی چینلزمیں دکھائے جانے والے قابل اعتراض پروگرام‘ گانے‘ڈانس وغیرہ کا اس فحش موادسے کوئی مقابلہ ہی نہیں جسے غیرقانونی طورپر پاکستان بھرمیں کیبل آپریٹرزبلاروک ٹوک دکھاکر غیرقانونی اشتہارات کے ذریعے اربوں روپے بٹورتے ہیں۔ پیمراکو خوب معلوم ہے کہ درجنوں انڈین اوردوسرے غیرقانونی چینلز دکھانے کے ساتھ ساتھ کیبل نیٹ ورک کے ذریعے غیرقانونی ان ہائوس سی ڈی چینلز کی بھی بھرمارہے جو قابل اعتراض مواد دکھاکرخوب پیسہ بٹوررہے ہیں۔ مجھے بتایاگیا کہ اس حرام کاروبارسے کمائی جانے والی رقم مبینہ طورپر پیمراکے اعلیٰ افسروں کی جیبوں تک پہنچی ہے جس کی وجہ سے یہ بے ہودہ کاروباربلا روک ٹوک جاری وساری ہے۔ ان فحش چینلزکا مقابلہ کرنے کے لیے قانونی طورپر چلنے والے پرائیویٹ چینلز بھی بے ہودگی کے سفرپرگامزن ہیں تاکہ ان کا کاروبارتباہ نہ ہو۔ معاشرہ کی تباہی اوراپنی نسلوں کی اخلاقی اقتدارکو تارتارکرکے پیسہ کمانے والوں کو پیمرا اور دوسرے حکومتی اداروں نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ ہیرامنڈی کلچرکو ملک کے کونے کونے بلکہ ہرگھرمیں پھیلادیں۔ ماضی میں برائی چھپ کرکی جاتی تھی مگر اب برائی کو نہ صرف کھلے عام پیش کیاجاتا ہے بلکہ اس کا آزادمیڈیا کے نام پر پرزوردفاع بھی کیاجاتاہے۔
چند روز قبل ایک قاری نے مجھے لکھا کہ ہم صحافیوں کو اس بات کی فکرہے اور نہ احساس کہ ایک مخصوص طبقہ پاکستان کے ہرگھرمیں ہیرامنڈی کلچرپھیلانے میں مصروف ہے۔ اس قاری نے مزید لکھاکہ ایک فاحشہ کو’’نامور‘‘ کا درجہ دے کر اورطوائفوںکو رول ماڈل بناکرپیش کیاجاتاہے۔ ناچ گانے اورطوائفوں کا شوق ہمیشہ سے مخصوص علاقوں تک محدودرہا مگر کبھی اس کو اچھی نظرسے نہ دیکھاگیا۔ آج کیبل نیٹ ورک اورمیڈیا کی وجہ سے اس گندے کاروبارمیں شامل افرادکو نہ صرف عزت دی جارہی ہے بلکہ اسے غیرمعمولی فروغ بھی مل رہاہے جس سے ہر خاندان متاثرہورہاہے۔ حکومت کجا یہ کہ اس گندگی سے معاشرے کو صاف کرے وہ بھی ہیرامنڈی کلچرکے نمائندوں کو اعلیٰ قومی ایوارڈزسے نوازرہی ہے۔
یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ اب کیا کیاجائے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں پاکستانی اس صورتحال سے پریشان ہیں مگرکوئی کچھ نہیںکررہا۔ چوہدری نثارعلی خان جیسے بااثر سیاستدان بھی اس پریشانی میں مبتلا ہیں مگر مجھ سے وعدہ کے باوجود ابھی تک کوئی عملی قدم اٹھانے سے قاصرہیں۔ حال ہی میں کراچی میں پاکستان کے کچھ انتہائی محترم مفتی صاحبان سے بھی میری اس موضوع پر بات ہوئی اور میں نے ان سے درخواست کی کہ اس بڑھتی ہوئی سماجی برائی کی روک تھام کے لیے علمائے کرام کو اپناکرداراداکرنا چاہیے جس کا انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا۔ اسی سلسلے میں میری ملاقات پاکستان کے ممتازقانون دان اکرم شیخ صاحب سے ہوئی جو خود بھی اس مسئلہ میں انتہائی مضطرب نظرآئے۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیاکہ وہ جلد ہی انٹرنیٹ‘غیرقانونی انڈین چینلز‘ ان ہائوس سی ڈی چینلز اورکیبل ٹی وی کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی وعریانی کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کارخیرمیں اپناحصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یہاں میں انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد کو روکنے کے لیے برسرپیکارکراچی سے تعلق رکھنے والے 15سالہ بچے عبداللہ غازی کے حوصلے کی دادیتاہوں کہ لبرل فاشسٹوں اور ہیرامنڈی کلچرکے پروموٹرزکے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود اس بچے نے چیف جسٹس سپریم کورٹ اورپی ٹی اے کو 20 لاکھ ایسی ویب سائٹس کے ایڈریس بھجوائے ہیں جو فحش اورعریاں ہیں اور جن کو بلاک کرنا حکومت اور پی ٹی اے کی اولین ذمہ داری ہے۔عبداللہ اکثرپوچھتاہے کہ کیاکرپشن کے دوسرے معاملات کی طرح چیف جسٹس آف پاکستان اس اخلاقی ‘سماجی اور معاشرتی کرپشن کے خلاف بھی سخت ترین اقدام اٹھائیں گے؟؟۔
ربط