ہیرا منڈی کلچر کا فروغ اور ہماری خاموشی

ابن عادل

محفلین
راقم کو ٹیلی وژن دیکھنے کا موقع کم ملتا ہے لیکن جب بھی ملتا ہے تو ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کے ساتھ دس منٹ کسی چینل کو سکون سے دیکھا جاسکے ۔ اچھے سے اچھے پروگرام کے درمیان جب ''بریک'' آتا ہے تو آدمی بھی اپنی سماعت وبصارت کو ''بریک ''لگا دیتا ہے ۔ ہم نے گمان کیا کہ شاید یہ ہم جیسے قدامت پسند لوگوں کی طبع پر گراں گزرتا ہے اور لبرل و اعتدال پسند لوگوں کے لیے یہ دورحاضر کے ساتھ قدم ملانے لیے ضروری ہوگا ۔ لیکن پچھلے دنوں مشہور صحافی انصار عباسی صاحب کی ایک دردمندانہ تحریر نظر سے گزری ۔ تو دل کو ڈھارس بندھی کہ​
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں ۔​
ان کے اس احتجاج پر ان کی برادری نے ان کی خوب خبر لی سو انہوں نے پھر اپنے ایمان کا ثبات دیتے ہوئے دوسرا کالم تحریر کیا ۔​
میں یہاں ان کے دونوں کالم اور ان کا ربط دے رہا ہوں اور اس کے ساتھ میں نے پیمرا کو ایک احتجاجی مراسلہ اپنی ناپختہ تحریر کے ذریعے روانہ کررہا ہوں اور آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ آپ بھی اس کام میں (اگر آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں ) تو اپنا حصہ ڈالیے ۔ ( اس سوچ کہ ساتھ کہ میرا وزن کس پلڑے میں ہے ؟)​
ہیرامنڈی کلچرکا فروغ اور ہماری خاموشی

میر اارادہ توتھا کہ میں انجمن غلامان امریکا کی طرف سے پاس کی گئی قراردادپرکچھ لکھتا۔ میں نے یہ بھی سوچ رکھا تھاکہ اعتزازاحسن کی طرف سے کچھ صحافیوں کو بے روزگارکرنے کی دھمکی پربھی تبصرہ کرتا اور یہ کہ رعونت زدہ لوگ کیسے اپنے آپ کو رازق سمجھ بیٹھتے ہیں مگر دی نیوزکے سینئر رپورٹرخالدمصطفیٰ کی فون کال نے مجھے اس موضوع پرلکھنے پر مجبورکردیا جوعمومی طورپر ہرپاکستانی کا مسئلہ ہے اور جس پر میں پہلے بھی بارہارلکھ چکاہوں اور انشاء اللہ اس وقت تک لکھتا رہوں گا جب تک بہتری کا راستہ نہیں نکلتا۔ قدرے غصہ میں خالد نے ایک خاتون کی میزبانی میں چلنے والے ایک تفریحی شوکا حوالہ دیتے ہوئے استفسارکیاکہ میں نے وہ شودیکھایا نہیں۔ میں نے جواب دیاکہ کبھی اس شوکو دیکھنے کا موقع ملا اور نہ ہی کبھی خواہش ہوئی۔خالد کا کہنا تھا کہ وہ اپنے فیملی کے ساتھ شودیکھ رہاتھا کہ پروگرام میں شامل ایک مہمان نے کہاکہ گزشتہ پانچ سال سے وہ کسی عورت کے ساتھ نہیں سویاجبکہ اسی پروگرام میں مدعوایک فاحشہ نے کہاکہ وہ اپنے ہندوستانی مرددوست سے بغل گیربھی ہوتی ہے اور اسے Kiss بھی کرتی ہے جس پر اسے کوئی شرمندگی نہیں ۔ اس فاحشہ کا کہنا تھا کہ اس میں کیا برائی ہے اور یہ کہ کسی دوسرے کو اس پرکیوں تکلیف ہے؟خالد مصطفیٰ کا رونا تھا کہ انٹرٹینمنٹ کے نام پرمیڈیا فحاشی وعریانی کی تمام حدوں کو پھلانگ چکاہے۔ مگر پیمرا‘ حکومت‘ عدالت‘ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں سب اپنی اپنی ذمہ داری سے آنکھیں بندکیے بیٹھے ہیں۔ اب تو حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ گھربیٹھ کر ہم پاکستانی چینلزبھی نہیں دیکھ سکتے۔ نہیں معلوم کب کس قسم کی بے ہودگی ٹی وی اسکرین پر چل پڑے اور دیکھنے والے خاندان کے لوگ شرمندگی میں ایک دوسرے سے آنکھیں ملانے سے کترانے کی کوشش کرتے رہیں۔ میرے اس صحافی دوست نے بتایاکہ امریکا سے پاکستان منتقل ہونے والی اس کی ہمسائی خاتون نے بھی اس سے کیبل کے ذریعہ فحاشی وعریانی کے فروغ پر بات کی اوربتایاکہ وہ اپنے بچوں کو امریکا چھوڑکر پاکستان اس لیے لائی کہ ان بچوں کو اپنی اقدارسکھائی جائیں اورانہیں اس فحش ماحول سے دوررکھا جائے جس کا سامنا مغربی دنیا کوہے۔ مگر اس خاتون کا گلہ یہ ہے کہ پاکستان کا ماحول تو انتہائی ابتری کا شکارہے اور اس میں کیبل ٹی وی نیٹ ورک کا بہت اہم کردارہے۔
خالد سے بات ختم کرنے کے بعد میں نے پیمرا میں ایک افسرسے اس موضوع پر بات کی جس نے مجھے بتایاکہ پیمرا نہ صرف اس تمام صورتحال سے واقف ہے بلکہ اس جرم میں برابرکاشریک ہے۔ اس افسرکا کہناتھاکہ پاکستانی ٹی وی چینلزمیں دکھائے جانے والے قابل اعتراض پروگرام‘ گانے‘ڈانس وغیرہ کا اس فحش موادسے کوئی مقابلہ ہی نہیں جسے غیرقانونی طورپر پاکستان بھرمیں کیبل آپریٹرزبلاروک ٹوک دکھاکر غیرقانونی اشتہارات کے ذریعے اربوں روپے بٹورتے ہیں۔ پیمراکو خوب معلوم ہے کہ درجنوں انڈین اوردوسرے غیرقانونی چینلز دکھانے کے ساتھ ساتھ کیبل نیٹ ورک کے ذریعے غیرقانونی ان ہائوس سی ڈی چینلز کی بھی بھرمارہے جو قابل اعتراض مواد دکھاکرخوب پیسہ بٹوررہے ہیں۔ مجھے بتایاگیا کہ اس حرام کاروبارسے کمائی جانے والی رقم مبینہ طورپر پیمراکے اعلیٰ افسروں کی جیبوں تک پہنچی ہے جس کی وجہ سے یہ بے ہودہ کاروباربلا روک ٹوک جاری وساری ہے۔ ان فحش چینلزکا مقابلہ کرنے کے لیے قانونی طورپر چلنے والے پرائیویٹ چینلز بھی بے ہودگی کے سفرپرگامزن ہیں تاکہ ان کا کاروبارتباہ نہ ہو۔ معاشرہ کی تباہی اوراپنی نسلوں کی اخلاقی اقتدارکو تارتارکرکے پیسہ کمانے والوں کو پیمرا اور دوسرے حکومتی اداروں نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ ہیرامنڈی کلچرکو ملک کے کونے کونے بلکہ ہرگھرمیں پھیلادیں۔ ماضی میں برائی چھپ کرکی جاتی تھی مگر اب برائی کو نہ صرف کھلے عام پیش کیاجاتا ہے بلکہ اس کا آزادمیڈیا کے نام پر پرزوردفاع بھی کیاجاتاہے۔
چند روز قبل ایک قاری نے مجھے لکھا کہ ہم صحافیوں کو اس بات کی فکرہے اور نہ احساس کہ ایک مخصوص طبقہ پاکستان کے ہرگھرمیں ہیرامنڈی کلچرپھیلانے میں مصروف ہے۔ اس قاری نے مزید لکھاکہ ایک فاحشہ کو’’نامور‘‘ کا درجہ دے کر اورطوائفوںکو رول ماڈل بناکرپیش کیاجاتاہے۔ ناچ گانے اورطوائفوں کا شوق ہمیشہ سے مخصوص علاقوں تک محدودرہا مگر کبھی اس کو اچھی نظرسے نہ دیکھاگیا۔ آج کیبل نیٹ ورک اورمیڈیا کی وجہ سے اس گندے کاروبارمیں شامل افرادکو نہ صرف عزت دی جارہی ہے بلکہ اسے غیرمعمولی فروغ بھی مل رہاہے جس سے ہر خاندان متاثرہورہاہے۔ حکومت کجا یہ کہ اس گندگی سے معاشرے کو صاف کرے وہ بھی ہیرامنڈی کلچرکے نمائندوں کو اعلیٰ قومی ایوارڈزسے نوازرہی ہے۔
یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ اب کیا کیاجائے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں پاکستانی اس صورتحال سے پریشان ہیں مگرکوئی کچھ نہیںکررہا۔ چوہدری نثارعلی خان جیسے بااثر سیاستدان بھی اس پریشانی میں مبتلا ہیں مگر مجھ سے وعدہ کے باوجود ابھی تک کوئی عملی قدم اٹھانے سے قاصرہیں۔ حال ہی میں کراچی میں پاکستان کے کچھ انتہائی محترم مفتی صاحبان سے بھی میری اس موضوع پر بات ہوئی اور میں نے ان سے درخواست کی کہ اس بڑھتی ہوئی سماجی برائی کی روک تھام کے لیے علمائے کرام کو اپناکرداراداکرنا چاہیے جس کا انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا۔ اسی سلسلے میں میری ملاقات پاکستان کے ممتازقانون دان اکرم شیخ صاحب سے ہوئی جو خود بھی اس مسئلہ میں انتہائی مضطرب نظرآئے۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیاکہ وہ جلد ہی انٹرنیٹ‘غیرقانونی انڈین چینلز‘ ان ہائوس سی ڈی چینلز اورکیبل ٹی وی کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی وعریانی کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کارخیرمیں اپناحصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یہاں میں انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد کو روکنے کے لیے برسرپیکارکراچی سے تعلق رکھنے والے 15سالہ بچے عبداللہ غازی کے حوصلے کی دادیتاہوں کہ لبرل فاشسٹوں اور ہیرامنڈی کلچرکے پروموٹرزکے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود اس بچے نے چیف جسٹس سپریم کورٹ اورپی ٹی اے کو 20 لاکھ ایسی ویب سائٹس کے ایڈریس بھجوائے ہیں جو فحش اورعریاں ہیں اور جن کو بلاک کرنا حکومت اور پی ٹی اے کی اولین ذمہ داری ہے۔عبداللہ اکثرپوچھتاہے کہ کیاکرپشن کے دوسرے معاملات کی طرح چیف جسٹس آف پاکستان اس اخلاقی ‘سماجی اور معاشرتی کرپشن کے خلاف بھی سخت ترین اقدام اٹھائیں گے؟؟۔
 
بالکل صحیح کہا انصار عبای نے کہ ایک فاحشہ کو’’نامور‘‘ کا درجہ دے کر اورطوائفوںکو رول ماڈل بناکرپیش کیاجاتاہے ۔
اور دوسری بات یہ کہ جب ان پر کوئی انگلی اٹھائے تو طرح طرح کے فتوی لگائے جاتے ہیں مثلاً تم قدامت پسند ہو۔تم عورتوں کو انکے حقوق نہیں دیتےوغیرہ وغیرہ
 
اور یہ مارننگ شوز والا بھی نیا رواج چل پڑا ہے اور اس میں کام کی کوئی بات تو ہوتی نہیں۔بس اپنی ہی بونگیاں مارتے رہتے ہیں
 
میں نے کئی بار مختلف پروگراموں میں دیکھا ہے کہ سٹیج کی کسی ڈانسر کو بلایا ہوتا ہے اور ساتھ میں فلمسٹار اداکارہ وغیرہ وغیرہ جیسے ڈھیروں "القابات" سے نوازا جاتا ہے اور ساتھ میں کہا جاتا ہے کہ یہ فن کی پچھلے دس سال سے خدمت کر رہی ہیں۔حالانکہ وہ محترمہ چند روپوں کے عوض سٹیج پر اپنا سب کچھ دکھا رہی ہوتی ہیں
 

مقدس

لائبریرین
سوری ٹو انٹرپٹ
یہ نہیں کہ میں ان لوگوں کی حمایت کر رہی ہوں، میں انڈین اور پاکستانی پروگرامز بالکل نہیں دیکھتی۔ میں کیا ہمارے گھر میں کوئی نہیں دیکھتا۔۔
مجھے بس اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ان پر اعتراض کرنے والت ان کو دیکھتے کیوں ہیں، جتنا گناہ وہ کر کے کما رہے ہیں، اتنا ہی دیکھنے والے۔۔ تو کرنے اور دیکھنے والے میں فرق کیا ہوا۔۔۔
 
میں پہلے بہت زیادہ ٹی-وی دیکھا کرتا تھا لیکن پچھلے 5،6 ماہ سے دیکھنا بالکل چھوڑ دیا ہے اگر کبھی کبھار دیکھوں بھی تو سیاسی ٹاک شوز دیکھتا ہوں اور ڈراموں میں میرا بالکل انٹرسٹ نہیں
 

سید ذیشان

محفلین
جیو گروپ والے تو ان کاموں مین سب سے آگے ہیں۔ انصار عباسی کو اگر اتنی ہی تکلیف ہو رہی ہے تو اسے چائیے کہ دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے خود استعفی دے۔ ہم خرما و ہم ثواب۔
 
بالكل درست ! يہ ايك ہی پبلكيشن گروپ کے ملازم ہيں سارے اور عوام كو الو بنا رہے ہيں۔
ليكن ۔۔۔۔۔۔۔۔ انصار عباسى سميت جس كو بھی ذرا سى تكليف ہو رہی ہے يہ اس كے ايمان كى نشانى ہے ۔ ڈوبتی كشتى ميں كسى كو تو احساس ہے كہ بچاؤ كى آواز لگانى چاہیے؟
حقيقت يہ ہے كہ خود ميڈيا كے لوگ چلا اٹھے ہيں كہ اور كتنا گرو گے؟ ان كو نہ ديكھنے والوں پر بھی ان ڈبيٹس كا اثر ضرور پڑتا ہے مقدس سس جو يہ لوگ شروع كرتے ہيں ... جب ايك شو كى اينکر پاركوں ميں جا جا كر عبايا والى لڑكياں دكھا رہی تھی تو ہم نے شو ديكھا نہ اس كا نام سنا ليكن ہم سے بار بار لوگوں نے سوالات كيے كئى نے تمسخر كيا كہ يہ ہوتى يں عبائے والى ، وہ تو اللہ رب العزت كا كرم كہ اس اينكر نے بعد ميں خود اعتراف كر ليا كہ وہ لڑكياں پيڈ ايكسٹريسز(پيسہ لے كر كوئى بھی كردار كرنے والى ) تھیں اور وہ سب reenactment تھی اصل باپردہ لڑكياں نہيں، ليكن اس شو سے لے كر اس اعترا ف تك كے دوران كے سارے وقت ميں باحجاب لڑكيوں عورتوں نے جو اذيت جھيلى جو تمسخر برداشت كيا اس كا كوئى حساب كبھی ہو گا ؟
حقيقت يہ ہے كہ يہ نام نہاد انٹرٹينر خود ايك دوسرے كے ہاتھوں ذليل ہو رہے ہيں۔ اللہ تعالى ايسے لوگوں كو مزيد رسوا كرتا رہے گا ۔
 

ساجدتاج

محفلین
میں مقدس سسٹر اور عین سسٹر دونوںکی بات متفق ہوں

مقدس سسٹر نے جس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہمارے اندر خود یہ شوق پیدا ہوئے ہیں یا کیئے ہیں اگر ہمیں ان چیزوں سے اتنی نفرت ہے تو ہم انہیں دیکھتے کیوں ہیں؟ ان کو پسند کرتے کیوں ہیں؟ یہ آج مشہور بنے پھرتے ہیں اور بے حیائیوں کو عام کرتے پھرتے ہیں اور ہم لوگوں نے انہیں سر پر اٹھا رکھا ہے اور ہم کی بے حیائی کو ایوارڈز سے نوازتے ہیں کیوں؟ کبھی یہ تو نہیں سوچا کہ یہ لوگ مشہور ہو کیسے گئے ؟ اگر اتنا ہی بُرا سمجھا جاتا ہے ان کو تو ہمارے گھروں میں کیبل ، ڈِش وغیرہ کا کیا کام ؟ ہمیں بُرائی کو ختم کرنے کی شروعات سب سے پہلے اپنے گھروں سے کرنی چاہیے پھر کسی کے اوپر انگلی اٹھانی چاہیے۔

بڑے فخر سے کہتے ہیں یہ لوگ کہ ان فنکاروں سے دس سال خدمت کی شرم آنی چاہیے ایسا کہتے ہوئے بلکہ ایسا کہنا چاہیے کہ ان کو بے حیائی پھیلاتے ہوئے دس سال بیت گئے ہیں
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
بار بار یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آپ دیکھتے ہی کیوں ہیں؟ اس معصومانہ سوال پر حیرت ہی ہو سکتی ہے؟ ۔۔۔"نہ دیکھنا" آپ کے بس میں ہے لیکن "نہ دیکھنا" اس مسئلے کے حل کی طرف تو لے کر نہیں جائے گا ۔۔۔ کیا ٹی وی بند کر دینے سے اس مسئلے کا حل نکل آئے گا؟ قطعاََ نہیں ۔۔۔ ان معاملات پر مکالمہ جاری رہنا چاہیے ۔۔۔ ایک ضمنی بات یہ بھی ہے کہ ہم اب تک اپنے چینلز کے پروگراموں کو "مقامیا" نہیں سکے ۔۔۔ اکثر پروگرام انگریزی پروگراموں کا چربہ ہوتے ہیں اور اس نقالی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔۔۔ خلیل جبران کا قول یاد آ گیا ۔۔۔ سنیے "قابل رحم ہے وہ قوم کہ جس کا آرٹ نقالی ہو"۔
 

سید ذیشان

محفلین
بالكل درست ! يہ ايك ہی پبلكيشن گروپ کے ملازم ہيں سارے اور عوام كو الو بنا رہے ہيں۔
ليكن ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ انصار عباسى سميت جس كو بھی ذرا سى تكليف ہو رہی ہے يہ اس كے ايمان كى نشانى ہے ۔ ڈوبتی كشتى ميں كسى كو تو احساس ہے كہ بچاؤ كى آواز لگانى چاہیے؟
یہ ایک بہت ہی بھونڈا مذاق ہے جو انصار عباسی نے کیا ہے۔ سب سے پہلے اس کو اپنے ادارے والوں کو سمجھانا چاہیے تھا کہ ایسا نہ کرو۔ اگر وہ نہ سمجھتے تو اس کو استعفی دینا چاہیے تھا۔ کم از کم اس نے بعد والا کام تو نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ وہ (بقول اس کے) "حرام کے پیسے" کے مزے لوٹنا چاہتا ہے اور خود کو ایک بالاتر اخلاقی پوزیشن پر بھی رکھنا چاہتا ہے۔ اور یہ ایمان سے زیادہ منافقت کی نشانی ہے۔
 

ساجدتاج

محفلین
ہمارے یہاں لوگ یہی سوچتے رہ جاتے ہیں کہ پہل کون کرے پہل کون کرے؟ مگر افسوس ہم بس یہی سوچتے رہ رہ جاتے ہیں مگر پہل کوئی بھی نہیں کرتا۔ کیونکہ سچی بات کا ساتھ دینے کے لیے تیار کوئی نہیں ہوتا اور بلاوجہ کوئی جلوس نکالنا ہو تو لوگوںکی لمبی قطاریںلگ جاتی ہیں
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
:terror: انصار عباسی کے حق میں بول کر کون کون "قدامت پسندی" کا ٹھپہ لگوانے کو تیار ہے؟؟؟
 

مہ جبین

محفلین
ابن عادل بھائی نے بہت نازک موضوع پر آواز اٹھائی ہے بیشک یہ حقیقت ہے کہ معاشرے میں جتنا بگاڑ اس وقت آیا ہے شاید ماضی میں اس حد تک نہیں تھا یعنی اس حدیث مبارکہ کا مفہوم اب واضح ہو رہا ہے کہ گھر گھر گانے باجے کی کثرت ہوگی
امر باالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم ہمیں دیا گیا ہے اور یہ بھی غالباً حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ تم نیکی کا حکم دو اور برائیوں سے روکو چاہے خود مکمل مومن نہ بن سکو ، تو اس طرح سے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ارد گرد ہونے والی برائیوں کی روک تھام کرنے کی کوشش کریں خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کریں اب چاہے ہم کامیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن اس کے خلاف آواز تو ضرور اٹھانی ہی چاہئے
کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے کیا خطرہ ٹل جاتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ ہم کو اس کے تدارک کے لئے عملی اقدامات کرنے ہوتے ہیں جو نہیں کرتے وہ پھر بلی کا لقمہء تر بن جاتے ہیں
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اگر تم کہیں برائی دیکھو اور طاقت رکھتے ہو تو ہاتھ سے اس کو ختم کرنے کی کوشش کرو، اگر ہاتھ سے نہیں کر سکتے تو زبان سے کرو اور اگر زبان سے بھی نہیں کر سکتے تو پھر کم از کم دل سے اس برائی کو برا جانو اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے تو ہم ایمان کے کم ترین درجے پر پہنچ جائیں تو اس کو بھی غنیمت جانیں لیکن کوشش یہی ہونی چاہئے کہ ایمان کے اگلے درجے تک بھی ہم پہنچ جائیں تو کیا بات ہے
مقدس بیٹا میری باتوں سے شاید تم متفق نہ بھی ہو تو ایک دفعہ ٹھنڈے دل و دماغ سے ضرور سوچنا کہ کیا اپنی نسلوں کو پاکیزہ ماحول دینا ہمارا فرض نہیں ہے ؟ آج اگر ہم خاموش رہے تو کل ہم ضمیر کی عدالت میں شرمندہ نہیں ہونگے؟
لگے ہاتھوں ایک واقعہ بتاتی چلوں کہ شاید بنی اسرائیل کا ہی واقعہ ہے کہ ایک بستی میں گناہوں کی کثرت کے سبب اللہ نے فرشتوں کو اسے الٹنے کا حکم دیا تو فرشتوں نے موءدبانہ عرض کی کہ یااللہ پاک وہاں تو تیرے فلاں فلاں نیک بندے بھی ہیں جو تیری عبادت میں مشغول رہتے ہیں تو ارشاد ہوا کہ ہاں انکو بھی کیونکہ انہوں نے بستی والوں کو برائیوں سے روکنے کی کوشش نہیں کی واللہ اعلم و باالصواب
اس واقعے کی روشنی میں ہمیں اپنا احتساب بھی کرنا ہوگا کہ ہم ایمان کس درجے میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔!
اگر میں نے کچھ غلط لکھا ہو تو کوئی بھائی یا بہن میری تصحیح ضرور فرمائیں
 
Top