فہد اشرف
محفلین
غزل
ہیں جلوۂ تن سے در و دیوار بسنتی
پوشاک جو پہنے ہے مرا یار بسنتی
کیا فصل بہاری نے شگوفے ہیں کھلائے
معشوق ہیں پھرتے سر بازار بسنتی
گیندا ہے کھلا باغ میں میدان میں سرسوں
صحرا وہ بسنتی ہے یہ گل زار بسنتی
اس رشک مسیحا کا جو ہو جائے اشارہ
آنکھوں سے بنے نرگس بیمار بسنتی
گیندوں کے درختوں میں نمایاں نہیں گیندے
ہر شاخ کے سر پر ہے یہ دستار بسنتی
منہ زرد دوپٹے کے نہ آنچل سے چھپاؤ
ہو جائے نہ رنگ گل رخسار بسنتی
کھلتی ہے مرے شوخ پہ ہر رنگ کی پوشاک
اودی، اگری، چمپئی، گلنار، بسنتی
ہے لطف حسینوں کی دو رنگی کا امانتؔ
دو چار گلابی ہوں تو دو چار بسنتی
(امانت لکھنوی)
ہیں جلوۂ تن سے در و دیوار بسنتی
پوشاک جو پہنے ہے مرا یار بسنتی
کیا فصل بہاری نے شگوفے ہیں کھلائے
معشوق ہیں پھرتے سر بازار بسنتی
گیندا ہے کھلا باغ میں میدان میں سرسوں
صحرا وہ بسنتی ہے یہ گل زار بسنتی
اس رشک مسیحا کا جو ہو جائے اشارہ
آنکھوں سے بنے نرگس بیمار بسنتی
گیندوں کے درختوں میں نمایاں نہیں گیندے
ہر شاخ کے سر پر ہے یہ دستار بسنتی
منہ زرد دوپٹے کے نہ آنچل سے چھپاؤ
ہو جائے نہ رنگ گل رخسار بسنتی
کھلتی ہے مرے شوخ پہ ہر رنگ کی پوشاک
اودی، اگری، چمپئی، گلنار، بسنتی
ہے لطف حسینوں کی دو رنگی کا امانتؔ
دو چار گلابی ہوں تو دو چار بسنتی
(امانت لکھنوی)