محمد ریحان قریشی
محفلین
ہارے بھی اگر جان تو جاں ہم نہیں ہارے
ہیں زیورِ افلاک کُہن مردہ ستارے
جتنا بھی چلیں اتنا پرے جاتی ہے منزل
جائیں گے کہاں گردشِ افلاک کے مارے
ظاہر میں تو ہیں سامنے بیٹھے ہوئے ہم تم
پر کتنے جہاں ہیں کہ جو ہیں بیچ ہمارے
تم تک جو چلوں، کتنے زمانوں کا سفر ہے؟
تھم جائے نہ خود وقت جو پاس آؤں تمھارے
یہ کون سا قانونِ طبیعی ہے بتاؤ؟
اِس سَمت جو گُل ہیں وہ ہیں اُس سَمت شرارے
افراد کے بس میں تو یہاں کچھ بھی نہیں ہے
اُتنے ہی کھڑے راست ہیں جتنے ہوں سہارے
بے بس تو نہیں، تنگ ہوئی ہم پہ زمیں گر
لے جائیں گے گھر دور کہیں باندھ غبارے
ملنی ہو جنھیں چل کے خود آ جاتی ہے منزل
ایسے نظر آتے نہیں ریحانؔ اشارے
ہیں زیورِ افلاک کُہن مردہ ستارے
جتنا بھی چلیں اتنا پرے جاتی ہے منزل
جائیں گے کہاں گردشِ افلاک کے مارے
ظاہر میں تو ہیں سامنے بیٹھے ہوئے ہم تم
پر کتنے جہاں ہیں کہ جو ہیں بیچ ہمارے
تم تک جو چلوں، کتنے زمانوں کا سفر ہے؟
تھم جائے نہ خود وقت جو پاس آؤں تمھارے
یہ کون سا قانونِ طبیعی ہے بتاؤ؟
اِس سَمت جو گُل ہیں وہ ہیں اُس سَمت شرارے
افراد کے بس میں تو یہاں کچھ بھی نہیں ہے
اُتنے ہی کھڑے راست ہیں جتنے ہوں سہارے
بے بس تو نہیں، تنگ ہوئی ہم پہ زمیں گر
لے جائیں گے گھر دور کہیں باندھ غبارے
ملنی ہو جنھیں چل کے خود آ جاتی ہے منزل
ایسے نظر آتے نہیں ریحانؔ اشارے