ہیں نا تمام حسرتیں ، ہے اس کا نام زندگی---برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
------------
مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
----------
ہیں نا تمام حسرتیں ، ہے اس کا نام زندگی
ملی نہ ہم کو چاہتیں ، ہے اس کا نام زندگی
-----------------
اسے یہاں سزا ملی ، نہ جس کا کچھ قصور تھا
یہاں نہیں عدالتیں ، ہے اس کا نام زندگی
-----یا
کہاں گئیں عدالتیں ، ہے اس کا نام زندگی
-----------
کسی کا گھر جلا دیا کہ نام تک مٹا دیا
دلوں میں ہیں رقابتیں ، ہے اس کا نام زندگی
---------
غریب کے نصیب میں ، سکون ہے نہ چین ہے
امیر کی شرارتیں ، ہے اس کا نام زندگی
----------
غریب کو دیا نہیں ، بھرا ہے گھر عزیز کا
ہیں نام کی سخاوتیں ، ہے اس کا نام زندگی
---------
جو لوٹتے ہیں آپ کو وہی بنے ہیں حکمراں
ہیں ان کی سب وزارتیں ، ہے اس کا نام زندگی
------------
نکالتے ہیں کام سب جو لے کے نام دین کا
وہ بیچتے ہیں آیتیں ، ہے اس کا نام زندگی
-----------
جو لوگ کل امیر تھے وہ آج بھی امیر ہیں
غریب پر ہیں آفتیں ، ہے اس کا نام زندگی
-------------
فلاں بہت عظیم ہے ، حمایتی غریب کا
ہیں جھوٹ سب روایتیں ، ہے اس کا نام زندگی
--------------
 

الف عین

لائبریرین
ردیف قوافی پسند نہیں آئے، ردیف میں 'ہے' کی کمی روانی کو متاثر کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ زندگی کی بات کی جائے تو کچھ فلسفیانہ خیالات ہونے چاہئیں۔ یہاں تو اس قسم کا بیانیہ ہے کہ آج کل کا چلن اس طرح کا بن گیا ہے!
یہی چلن ہے آج کل
مثال کے طور پر۔
قوافی میں بھی ہر جگہ جمع اچھی نہیں لگتی۔ بہرحال
ہیں نا تمام حسرتیں ، ہے اس کا نام زندگی
ملی نہ ہم کو چاہتیں ، ہے اس کا نام زندگی
----------------- 'ملیں' ہونا چاہیے نا!

اسے یہاں سزا ملی ، نہ جس کا کچھ قصور تھا
یہاں نہیں عدالتیں ، ہے اس کا نام زندگی
-----یا
کہاں گئیں عدالتیں ، ہے اس کا نام زندگی
----------- ردیف ہی بھرتی کی لگ رہی ہے، یہاں بھی چلن ہی بہتر ہو گا۔ اولی مصرعے میں بھی دوسرا ٹکڑا رواں نہیں۔ 'قصور جس کا کچھ نہ تھا' بہتر ہو گا، اور اسے بھی پہلا ٹکڑا بنا دو

کسی کا گھر جلا دیا کہ نام تک مٹا دیا
دلوں میں ہیں رقابتیں ، ہے اس کا نام زندگی
--------- نام physically مٹانا تو ممکن نہیں، کچھ اور کہو

غریب کے نصیب میں ، سکون ہے نہ چین ہے
امیر کی شرارتیں ، ہے اس کا نام زندگی
---------- ٹھیک
غریب کو دیا نہیں ، بھرا ہے گھر عزیز کا
ہیں نام کی سخاوتیں ، ہے اس کا نام زندگی
--------- اپنے عزیزوں میں سے کسی کا؟ واضح نہیں

جو لوٹتے ہیں آپ کو وہی بنے ہیں حکمراں
ہیں ان کی سب وزارتیں ، ہے اس کا نام زندگی
------------ درست

نکالتے ہیں کام سب جو لے کے نام دین کا
وہ بیچتے ہیں آیتیں ، ہے اس کا نام زندگی
----------- درست

جو لوگ کل امیر تھے وہ آج بھی امیر ہیں
غریب پر ہیں آفتیں ، ہے اس کا نام زندگی
------------- دوسرے مصرعے میں 'مگر' کی کمی ہے

فلاں بہت عظیم ہے ، حمایتی غریب کا
ہیں جھوٹ سب روایتیں ، ہے اس کا نام زندگی
-------------- اس کو نکال دیں، بے تکا شعر ہے
 
فرصت میں دیکھتا ہوں اسے، رب تک راحل دیکھ لیں تو خوشی ہو گی
بہت معذرت استاد محترم، آپ کے ارشاد کی تعمیل میں تساہل برتا.
اصل میں مجھے بھی ردیف کی وجہ سے کچھ لکھنے میں تردد تھا، کہ اکثر اشعار میں ردیف کا باقی شعر سے ربط نظر نہیں آرہا تھا. بس اسی سوچ میں کام ٹلتا چلا گیا.
ایک بار پھر بہت معذرت.
 
Top