حسان خان
لائبریرین
ہیں وہ آمادہ مرے لاشے پہ آنے کے لیے
کیا کریں شرم و حیا مانع ہے جانے کے لیے
لو نکیرین آئے تربت میں ستانے کے لیے
کیا بلایا تھا ہمیں باتیں سنانے کے لیے
موسمِ گل ہو گیا آمادہ جانے کے لیے
اور جگہ ڈھونڈا کیے ہم آشیانے کے لیے
خاک اڑا رکھی ہے کیوں [اے] چرخ اٹھانے کے لیے
نقشِ پا ہیں ہم تو خود بیٹھے تھے جانے کے لیے
کس قدر جلدی مجھے محبوب کے آنے کی ہے
خود سواری بھیج دی اُس کے بلانے کے لیے
ہم صفیرو کیجیو اتنی توجہ بعدِ ذبح
پر میرے لے جائیو تم آشیانے کے لیے
قدردانی آپ کی ہم ناتواں کیا روئیں گے
دل میں طاقت چاہیے آنسو بہانے کے لیے
یوں نہ آئے ایک دن لاشے پہ آج آئے حضور
کچھ بہانہ ڈھونڈتے تھے آپ آنے کے لیے
حشر کو کہتے اٹھے خوابیدگانِ کوئے دوست
کس مزے کی نیند میں آئے جگانے کے لیے
دیکھ لوں میں آخری دیدار آنکھیں کھول کر
آپ اتریں قبر میں شانہ ہلانے کے لیے
روتے روتے مر گیا تھا میں جو یادِ زلف میں
شبنم آئی قبر پر چادر چڑھانے کے لیے
سانپ پانی کا مری آنکھوں میں ہے ہر موجِ آب
آج اُس نے بال کھولے ہیں نہانے کے لیے
باغباں کیا کیا مرے دم کے ہیں جلوے باغ میں
برق جگنو بن گئی ہے آشیانے کے لیے
زخم اے جراح ہیں اُس شرمگیں کی تیغ کے
آئیو منہ پھیر کر ٹانکے لگانے کے لیے
دل جگر میں ہو گئے ناسور کیا جی خوش ہوا
اور دو آنکھیں ملیں آنسو بہانے کے لیے
ایڑیاں ہم یاں رگڑتے ہیں خمارِ مرگ ہے
واں ملی جاتی ہے مہندی نیند آنے کے لیے
تھا وہ پروانہ کہ روئی شمع مجھ کو رات بھر
صبح کو آئی صبا لاشہ اٹھانے کے لیے
عاشقِ یک رنگ ہوں اس کی رعایت ہے ضرور
مل کے مہندی آؤ تلواریں لگانے کے لیے
ہیں وہ غم دیدہ اگر کچھ بھی ہمیں دیتا فلک
خاکِ حسرت مول لیتے گھر بنانے کے لیے
خانۂ دل کیا بگاڑا ہے کہ فرماتے ہیں وہ
اب تو معمارِ ازل آئے بنانے کے لیے
دستِ رنگیں سے گرا ہے دل مرا جب مثلِ گل
فصلِ گل دوڑی ہے آنکھوں سے اٹھانے کے لیے
ہم یہاں اے ضعف ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئے
واں اٹھے پردے ہوائے سرد آنے کے لیے
آنکھ بھی کھولیں نہ پامال آپ کی رفتار کے
فتنۂ محشر اگر آئے جگانے کے لیے
ہم بہل جاتے ذرا ہوتا جو زندہ ابنِ قیس
دو گھڑی مل بیٹھتے رونے رلانے کے لیے
رشک ایسا ہے مرے پہلو میں دل کو دیکھ کر
کیا بگڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جانے کے لیے
لاش اٹھا چاہتی ہے واں شہیدِ ناز کی
آپ کیا بیٹھے ہیں یاں مہندی لگانے کے لیے
حسرت و ارماں سے مل کر دل کیا آباد خوب
مجھ کو بھیجا تھا نئی بستی بسانے کے لیے
دیکھنا اے دل اٹھا ہے کس طرح کا ابرِ یاس
خرمنِ امید پر بجلی گرانے کے لیے
ایک قطرہ بھی نہ قاتل نے دیا ہنگامِ ذبح
اشک دوڑے تشنگی میری بجھانے کے لیے
کیا کریں شرم و حیا مانع ہے جانے کے لیے
لو نکیرین آئے تربت میں ستانے کے لیے
کیا بلایا تھا ہمیں باتیں سنانے کے لیے
موسمِ گل ہو گیا آمادہ جانے کے لیے
اور جگہ ڈھونڈا کیے ہم آشیانے کے لیے
خاک اڑا رکھی ہے کیوں [اے] چرخ اٹھانے کے لیے
نقشِ پا ہیں ہم تو خود بیٹھے تھے جانے کے لیے
کس قدر جلدی مجھے محبوب کے آنے کی ہے
خود سواری بھیج دی اُس کے بلانے کے لیے
ہم صفیرو کیجیو اتنی توجہ بعدِ ذبح
پر میرے لے جائیو تم آشیانے کے لیے
قدردانی آپ کی ہم ناتواں کیا روئیں گے
دل میں طاقت چاہیے آنسو بہانے کے لیے
یوں نہ آئے ایک دن لاشے پہ آج آئے حضور
کچھ بہانہ ڈھونڈتے تھے آپ آنے کے لیے
حشر کو کہتے اٹھے خوابیدگانِ کوئے دوست
کس مزے کی نیند میں آئے جگانے کے لیے
دیکھ لوں میں آخری دیدار آنکھیں کھول کر
آپ اتریں قبر میں شانہ ہلانے کے لیے
روتے روتے مر گیا تھا میں جو یادِ زلف میں
شبنم آئی قبر پر چادر چڑھانے کے لیے
سانپ پانی کا مری آنکھوں میں ہے ہر موجِ آب
آج اُس نے بال کھولے ہیں نہانے کے لیے
باغباں کیا کیا مرے دم کے ہیں جلوے باغ میں
برق جگنو بن گئی ہے آشیانے کے لیے
زخم اے جراح ہیں اُس شرمگیں کی تیغ کے
آئیو منہ پھیر کر ٹانکے لگانے کے لیے
دل جگر میں ہو گئے ناسور کیا جی خوش ہوا
اور دو آنکھیں ملیں آنسو بہانے کے لیے
ایڑیاں ہم یاں رگڑتے ہیں خمارِ مرگ ہے
واں ملی جاتی ہے مہندی نیند آنے کے لیے
تھا وہ پروانہ کہ روئی شمع مجھ کو رات بھر
صبح کو آئی صبا لاشہ اٹھانے کے لیے
عاشقِ یک رنگ ہوں اس کی رعایت ہے ضرور
مل کے مہندی آؤ تلواریں لگانے کے لیے
ہیں وہ غم دیدہ اگر کچھ بھی ہمیں دیتا فلک
خاکِ حسرت مول لیتے گھر بنانے کے لیے
خانۂ دل کیا بگاڑا ہے کہ فرماتے ہیں وہ
اب تو معمارِ ازل آئے بنانے کے لیے
دستِ رنگیں سے گرا ہے دل مرا جب مثلِ گل
فصلِ گل دوڑی ہے آنکھوں سے اٹھانے کے لیے
ہم یہاں اے ضعف ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئے
واں اٹھے پردے ہوائے سرد آنے کے لیے
آنکھ بھی کھولیں نہ پامال آپ کی رفتار کے
فتنۂ محشر اگر آئے جگانے کے لیے
ہم بہل جاتے ذرا ہوتا جو زندہ ابنِ قیس
دو گھڑی مل بیٹھتے رونے رلانے کے لیے
رشک ایسا ہے مرے پہلو میں دل کو دیکھ کر
کیا بگڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جانے کے لیے
لاش اٹھا چاہتی ہے واں شہیدِ ناز کی
آپ کیا بیٹھے ہیں یاں مہندی لگانے کے لیے
حسرت و ارماں سے مل کر دل کیا آباد خوب
مجھ کو بھیجا تھا نئی بستی بسانے کے لیے
دیکھنا اے دل اٹھا ہے کس طرح کا ابرِ یاس
خرمنِ امید پر بجلی گرانے کے لیے
ایک قطرہ بھی نہ قاتل نے دیا ہنگامِ ذبح
اشک دوڑے تشنگی میری بجھانے کے لیے
(تعشق لکھنوی)