ہے سکوں اتنا کہ آزار کی ضد کرتے ہیں

ہے سکوں اتنا کہ آزار کی ضد کرتے ہیں
ہم وہ مجرم ہیں کہ خود دار کی ضد کرتے ہیں
تھک گیا ہوں در و دیوار سے کہتے کہتے
اب تو یہ غم کسی غمخوار کی ضد کرتے ہیں
ہم اصولوں کے نہیں ہم ہیں اناؤں والے
سر کٹا دیتے ہیں دستار کی ضد کرتے ہیں
ہے تباہی کہ ہمیں راس نہیں آزادی
ہم وہ در ہیں کہ جو دیوار کی ضد کرتے ہیں
کوئی سمجھے تو مری دھرتی کی مشکل کو ذرا
بے وفا سب ہیں وفادار کی ضد کرتے ہیں
بہ خوشی تخت نشیں اب وہ کئے جاتے یہاں
زندہ بستی میں جو مردار کی ضد کرتے ہیں
خود کو بیچ آئے جو اغیار کے ہاتھوں سارے
ہم سے وہ بھی یہاں کردار کی ضد کرتے ہیں
ہاتھ آ جائے کوئی عیب ہمارا ان کے
سر قلم کرنے کو تلوار کی ضد کرتے ہیں
ہے گھٹن اتنی کہ لفظوں کا بھی دم گھٹتا ہے
لوگ سادہ ہیں کہ اشعار کی ضد کرتے ہیں
مانا غفلت میں ہے ڈوبی یہ مری قوم مگر
اب بھی زندہ ہیں جو انکار کی ضد کرتے ہیں
اپنے ہاتھوں ہی بدلنا ہے زمانہ ابرک
کون کہتا ہے کہ بے کار کی ضد کرتے ہیں
اتباف ابرک
 
Top