انشا اللہ خان انشا ہے ظلم، اُس کو یار کیا ، ہم نے کیا کیا ۔ انشاءاللہ خان انشاؔ

فرخ منظور

لائبریرین

ہے ظلم، اُس کو یار کیا ، ہم نے کیا کیا
کیا جبر اختیار کیا، ہم نے کیا کیا

داغوں سے اپنے سینہ سوز، ان کو اے نسیم
یاں رشکِ نوبہار کیا، ہم نے کیا کیا

اُس رشک گل کی خواہشِ بوس و کنار کو
اپنے گلے کا ہار کیا، ہم نے کیا کیا؟

دستِ جنوں سے اپنے گریبانِ صبر کو
اے عشق تار تار کیا، ہم نے کیا کیا

اُس سنگ دل کے ہجر میں چشموں کو اپنی آہ!
مانندِ آبشار کیا، ہم نے کیا کیا

وحشت یہ دیکھ، ناصحِ مشفق نے جو کہا
ہرگز نہ زینہار کیا، ہم نے کیا کیا

جاگے تمام رات عبث مفت، آپ کے
کہنے کو اعتبار کیا، ہم نے کیا کیا

پھیلائے اُن نے پاؤں تو شب ہاتھ جوڑ کر
پھر عجز و انکسار کیا، ہم نے کیا کیا

آزادگی کو سلطنتِ ملکِ عشق کا
مختارِ کاروبار کیا، ہم نے کیا کیا

رہ رہ کے دل میں ، آوے ہے انشاؔ یہی کہ کیوں
اِس دل کو بیقرار کیا، ہم نے کیا کیا؟


(انشاءاللہ خان انشاؔ)
 
آخری تدوین:
Top