فرخ منظور
لائبریرین
ہے عجب رنگ کی وحشت ترے دیوانے میں
جی نہ آبادی میں لگتا ہے نہ ویرانے میں
ہوں وہ میکش کہ نہ مستی میں کہوں راز کبھی
لاکھ قُل قُل کہے شیشہ مجھے میخانے میں
آفتاب اس میں اگر آئے، توا بن جائے
نور کا دخل نہیں میرے سیہ خانے میں
حشر تک جی میں ہے بے ہوش رہوں میں ساقی
کاش مے بھر دے مری عمر کے پیمانے میں
نازکی سے ہوا قاتل مری حالت کا شریک
یاں لگا زخم تو واں درد اٹھا شانے میں
کس طرح طائرِ دل ہو ترے چہرے پہ نثار
شمع رُو طاقتِ پروانہ ہے پروانے میں
عشق میں دل نے پھنسایا تو ہوا غیر کو رنج
نہیں اپنے میں مروّت جو ہے بیگانے میں
یاں تو بجلی بھی سنبھل جاتی ہے گرتے گرتے
شمع کے ٹھہریں قدم کیا مرے کاشانے میں
نوش کر شوق سے جی کھول کے صرفہ کیا ہے
خوف بد ہضمی کا ناسخ نہیں غم کھانے میں
(شیخ امام بخش ناسخ)
جی نہ آبادی میں لگتا ہے نہ ویرانے میں
ہوں وہ میکش کہ نہ مستی میں کہوں راز کبھی
لاکھ قُل قُل کہے شیشہ مجھے میخانے میں
آفتاب اس میں اگر آئے، توا بن جائے
نور کا دخل نہیں میرے سیہ خانے میں
حشر تک جی میں ہے بے ہوش رہوں میں ساقی
کاش مے بھر دے مری عمر کے پیمانے میں
نازکی سے ہوا قاتل مری حالت کا شریک
یاں لگا زخم تو واں درد اٹھا شانے میں
کس طرح طائرِ دل ہو ترے چہرے پہ نثار
شمع رُو طاقتِ پروانہ ہے پروانے میں
عشق میں دل نے پھنسایا تو ہوا غیر کو رنج
نہیں اپنے میں مروّت جو ہے بیگانے میں
یاں تو بجلی بھی سنبھل جاتی ہے گرتے گرتے
شمع کے ٹھہریں قدم کیا مرے کاشانے میں
نوش کر شوق سے جی کھول کے صرفہ کیا ہے
خوف بد ہضمی کا ناسخ نہیں غم کھانے میں
(شیخ امام بخش ناسخ)