ہے عشق میں ہر لحظہ ،،،،،،،،،،!

ملک حبیب

محفلین
ہے عشق میں ہر لحظہ ترقی مرے دل کی
ہر داغ بڑھاتا ہے تجلی مرے دل کی

کیا اور سے ممکن ہو تسلی مرے دل کی
جب آُپ ہی نے کچھ نہ خبر لی مرے دِل کی

رونا ہے جو فُرقت میں یہی دیدہء تر کا
طوفان میں آ جائے گی کشتی مرے دل کی

مہمان ہے جس روز سے سینہ میں تری یاد
آباد ہے اُجڑی ہوئی بستی مرے دل کی

آخر کو یہ جلنے بھی لگا شعلہء غَم سے
فکر آپ کو ہوتی نہیں اب بھی مرے دل کی

یا اس کی خبر بھی نہیں لیتے کبھی اب تُم
یا فکر تمہیں رہتی تھی کتنی مرے دل کی

نظروں سے تری گر کے ہوا عشق دوبالا
ہوتی ہے تنزل میں ترقی مرے دل کی

دکھلا کے جھلک اور بھی تڑپا گئے اس کو
کی واہ دوا آپ نے اچھی مرے دل کی

جب قولِ وفا ہار چکے ہیں تو پھر اب کیا
جیتے ہوئے ہیں آپ تو بازی مرے دل کی

رنگینی میں نرمی میں صفائی میں ضیا میں
ہے ایک سی خلقت ترے رُخ کی مرے دل کی

نابود ہوئے جل کے خیالاتِ دو عالم
اللہ رے ترے عشق میں گرمی مرے دل کی

سو جان سے کیونکر نہ ہوں قربانِ تمنا
کرتی ہے بڑی قدر شناسی مرے دل کی

ملتا ہے مزہ ان کو مرے جوشِ جنوں کا
سر خوش انہیں کر دیتی ہے مستی مرے دل کی

یا ہجر تھا یا وصل میں اب ہو گئے بے خود
وہ خوبئ قسمت تھی یہ خوبی مرے دل کی

وہ تِرچھی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے ہیں
اس وقت میں ہو خیر اِلٰہی مرے دل کی

تسکیں کے لئے رہتے تھے سینہ پہ جو ہر دم
اب ہے اُنہی ہاتھوں سے خرابی مرے دل کی

کیوں مکتبِ غم میں سبقِ عشق نہ پڑھتا
تقدیر میں لکھی تھی خرابی مرے دل کی

کیا پوچھتے ہو عشق نے ڈھائی ہے مصیبت
اب روح بھی دیتی ہے دُہائی مرے دل کی

کہنا تو بہت کچھ ہے مگر کیا کہوں اکبر
افسوس کہ سنتا نہیں کوئی مرے دل کی

کلام اکبر الہ آبادی
 
Top