مصحفی ہے مئے گُل گوں کی تیرے یہ گلابی ہاتھ میں ۔ مصحفی

فرخ منظور

لائبریرین
ہے مئے گُل گوں کی تیرے یہ گلابی ہاتھ میں
یا دلِ پُر خوں ہے میرا، اے شرابی! ہاتھ میں

دیکھنے کو جلوہ تیرے حسن کا شب آسماں
ماہ سے رکھتا ہے روشن ماہتابی ہاتھ میں

جو نکل آیا وہ گُل گھر سے بوقتِ نیمروز
مہرِ تاباں لے کے دوڑا آفتابی ہاتھ میں

آستیں اس نے جو کہنی تک چڑھائی وقتِ صبح
آ رہی سارے بدن کی بے حجابی ہاتھ میں

وائے ناکامی کہ دیوے سستیِ طالع چھڑا
دامن اس کا آئے گر با صد خرابی ہاتھ میں

کس کی دعوت تھی فلک پر رات میں حیران ہوں
ماہ کے اب تک ہے فرنی کی رکابی ہاتھ میں

لگتے ہیں لختِ جگر سے یوں یہ مژگاں چشم پر
جوں کبابوں کی رکھیں سیخیں کبابی ہاتھ میں

آئنے سے کیوں کہ منہ موڑے ابھی وہ مصحفیؔ
حسن کی اس کے ہے فردِ انتخابی ہاتھ میں

(غلام ہمدانی مصحفی)
 
Top