گلزیب انجم
محفلین
سیری (یاداں)
چیرمین عزیز الدین بٹ
تحریر:- گل زیب انجم
حقیقت تو یہی ہے کہ زمینی خدوخال ہی موسموں کے تغیر کا پتہ دیتے ہیں.
وہ گهر جو لیل بهر دیہنی کے موٹهوں دیوں لالٹینوں سے اور دن بهر لوگوں کی چہل پہل سے منور رہتا تھا اب بیتے دنوں کا قصہ لگتا ہے.
سچ ہے کہ کچھ لوگوں کے دم سے ہی بہاریں مہکتی ہیں.
خودرو جھاڑیاں اکهڑا پلستر جگہ جگہ اگی گهاس بےترتیب مٹی سب یہی سندیس دیتے ہیں "مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گهر کی فضا.
یہ جہاں آج کل سوزوکیوں کا آڈہ ہے نا یہاں پہلے پہل ایک باغ ہوتا تها باغ کیا تها بس دو ہی پهل دار درخت ہوتے تھے جنہوں نے اس احاطہ نما جگہ کو باغ کا رتبہ دے رکها تها ایک تو انجیر کا تها جسے مقامی زبان میں پهواڑہ کہا جاتا اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پهواڑے لگتے تھے شاید اسی لیے اس کو کوئی انجیر نہیں کہتا تها . انجیر کے درخت میں قدرتی طور پر یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ اس پر دوسرے درختوں کی بانسبت چڑهنے میں آسانی ہوتی ہے اسی لیے محلے کے لڑکے باآسانی اس پر چڑھ کر بیٹھ جاتے تھے. بلکہ اس کے دو تین ڈال تو ایسے تهے جن پر پولی (ناظم) پلی(خضر) فلاتو (اسد) اور زیبا (گلزیب) بیٹھ کر سگریٹ نوشی بھی کر لیا کرتے تھے پهواڑے کے چوڑے پتے آتے جاتے لوگوں سے خوب آڑ مہیا کرتے تھے اس لیے یہ درخت نئے نویلے نشئویوں کا پسندیدہ تها . دوسرا درخت کٹهی خوبانیوں کا تها جنهیں چر یا آڑی کہا جاتا تھا یہ سیدهے سے تنے والا اور باریک پتوں والا درخت تها اس لیے اس پر کوئی اسی وقت ہی چڑهتا تها جب اسے گهر سے یا ماسی سید بیگماں کی طرف سے فرمائش ہوتی کے تهوڑی سی چریں لے آنا کہ دوپہر کو چٹنی بنائیں گے . اس باغ کے اس کونے پر جو آج کل نشنل کالج کی طرف ہے، ایک کنواں ہوتا تھا جس کے دائیں جانب بغیر چهت اور دروازوں کے غسل خانے بنے ہوتے تھے غسل خانوں کے دروازے بهلے نہ تهے لیکن وہ اس مہارت سے بنائے گئے تھے کے ایک دو گلی نما دیواریں گهوم کر ہی غسل خانے میں پہنچا جاتا تها اس لیے کسی کے دیکھ لینے کا اندیشہ نہیں ہوتا تها. پرانے لوگ ہر جگہ کا کسی نہ کسی طرح سے احترام کرتے تھے جیسا کہ گهراٹیا بهی جوتوں کے ساتھ گهراٹ کے اندر نہیں جاتا نہانے والی جگہوں پر بول بزاز نہیں کیا جاتا تھا چشموں سے پانی بھرتے وقت جوتے کوسوں دور اتارے جاتے تھے لیکن نئی پوچ میں پردہ کیا آیا کہ پردہ خانوں کو ہی گندہ کرنا شروع کر دیا نہانے کے لئے بنائے گے غسلخانوں میں پاخانہ شروع کر دیا تو محلے کے بڑوں نے غسلخانوں کی کهپ ہی ختم کر دی. کنویں کا ٹهنڈا ٹهار پانی زمینداروں کی دن بهر کی گرمی سکینڈوں میں فوں کر دیتا تها . محلے کی تمام عورتیں اسی کنویں سے پانی لاتی تو پارلی سڑک سے ملتے جلتے تمام راستوں پر بہار سی آ جاتی. رنگ برنگے ملبوسات سے یہی گمان ہوتا کہ دهنک رنگ زمین پر اتر آئے ہیں. کنواں عصر کے بعد یوں لگتا جیسے آج کل سرکس والوں کا کنواں ہوتا ہے مختلف ڈول ڈبوں سے یوں ترنم سا گونجتا کہ ڈهول باجوں کی ضرورت ہی نہ رہتی. کچھ الڑ سی لڑکیاں تو شرط لگاتی کہ پہلے ڈول کون نکالے گی پهر کیا ہوتا کہ ڈهپ سے ڈول پانی پر پڑتے ہی لاء "ڈول سے باندهی رسی" کو پهرتی سی ہلاتیں اور پلک جھپکتے ہی کھینچ کر باہر لے آتی انہی پھرتیوں میں کبهی لاء ہاتھ سے چھوٹ جاتی اور ڈول کے ساتھ ہی چهپک سے کنویں میں گر جاتی کبھی انوں بھی گر جاتے جو بڑی خوبصورتی سے بنائے گے ہوتے. لڑکیاں اگر کنویں پر لگی چرخی پر سے رسہ کهینچتی تو پاس بیٹهی بوڑھی عورتیں کہتی بلیں چهکو اے نہی تے ماو نی کهسمنی تروٹی جاسے.
اسی کنویں سے گرلز کالج کی طرف جایا جائے تو جہاں سے تهوڑی سی چڑهائی شروع ہوتی ہے اس جگہ کو ٹانگریاں کہتے ہیں ٹانگریاں کی وجہ تسمیہ معلوم نہ ہو سکی البتہ یہاں سے سرخ رنگ کی کهردری سی مٹی نکلتی تھی جسے کیرن کہا جاتا تھا ساتھ ہی کرومل کی خودرو جھاڑیاں بهی تهی شاید ان دونوں میں سے کسی ایک کی نسبت سے ٹانگریاں کہتے ہوں . چڑهائی کا یہ سلسلہ جہاں ختم ہوتا ہے وہاں ایک گهر ہے جسے چیرمین عزیز ہوراں ناں کہر(گهر) کہا جاتا ہے.
پرانے وقتوں میں یہ گهر گهر کم اور سہرائے زیادہ لگتا تها سہرائے لگنا اس کا کچا پن نہ تها بلکہ مسافروں محلے داروں اور برادری والوں کے آنے جانے سے لگتا تها کوئی لمحہ ایسا نہیں گذرتا تها جب لوگوں کا تانا بانا نہ لگا ہو. یہ ان زمانوں کی بات ہے جب گهروں کے اردگرد چاردیواری شادو نادر ہی ہوا کرتی تھی اس لیے دور دور تک راستوں کے راہی آتے جاتے دکھائی دیتے تھے چیرمین جی کا گھر نہ صرف سیری کے محلے سے بلکہ چوطرفی محلوں سے اونچائی پر تها یہی وجہ تھی کہ آمدورفت کا پتہ چلتا رہتا تھا. رات کے سمے میں بھی دہینی کے موٹهوں (مشعلوں) سے اندازہ ہوتا رہتا تھا کہ ابهی آنے جانے والوں کا تناتا ٹوٹا نہیں. کچھ تو اتنی دقیق نگاہ رکهتے تهے کے موٹهوں کے انداز گرفت سے بھی پہچان لیتے تھے کے کون جا رہا ہے. کچا سا مکان بنیروں سے لٹکتی درهگ ( وہ جھاڑیاں جو مٹی روکنے کے لیے بالوں اور شہتیروں کے اوپر ڈالی جاتیں تهیں) بےترتیب سی کی ہوئی لپائی دروازوں پہ لگے بڑے بڑے لکڑی کے پٹ جو کهلتے اوربند ہوتے وقت بڑی پرسوز سی آواز پیدا کرتے دیوار میں لگی لکڑی کے تختوں کی کھڑکیاں جن سے دیمک اور لکڑی کیڑے کی کافی شناسائی تهی ڈهیلے قبضوں کی وجہ سے ہوا کے جھونکوں سے خود ہی کهلتی اور بند ہوتی رہتی تھیں انہی کھڑکیوں کی حرکات و سکنات سے اندر بیٹھی بڑی بے جی بتا دیتیں تھیں کہ بار سوہنی ہوا چولنی پئی اے، "کہ باہر اچهی ہوا چل رہی ہے" . دو بڑے کمروں کے آگے وسیع آنگن، کمروں کے بالمقابل کچی سی رسوئی رسوئی کے نیچے بھینسوں کی بانڈ(باڑہ). رسوئی کو یہ شرف حاصل تها کے گرمیوں سردیوں میں کوئی پہر ایسا نہیں ہوتا تها جس میں یہ مہانوں کی تواضع میں مصروف نہ ہو. آپا زمورت (زمرد) کو جب بھی دیکھا گیلی سوکھی لکڑیوں کو پهونکتے ہی دیکھا. رسوئی کے دروازے اور چمنی سے نکلتا دهواں آپا کی قوت مدافعت کا ترجمان ہوتا بڑا سا آنگن ہمہ وقت لوگوں سا بهرا بهرا رہتا کون کس وقت آیا کب گیا پتہ ہی نہیں چلتا تھا بس یہی آواز ہی گونجتی رہتی تھی چاہ دو پالیاں ہور دیسو اتهے پیڑی رکهو اتهے کهٹ ہور ڈهائو. یہ وہ الفاظ تھے جو آئے گے لوگوں کی خاطر داری میں گهر والے ایک دوسرے کو کہتے رہتے تھے. دیکھا جائے تو کوئی یونہی ہی تو منہ اٹهائے نہیں چلا آتا تھا آخر کچھ تو تها جس وجہ سے ریل پہل لگی رہتی تھی.......!
چیرمین عزیز خاندان سخی محمد کے پہلے سپوت ہی نہیں بلکہ اپنے دادا سیف کی آل اولاد میں سب سے بڑے بهی تهے بچپن سے ہی سیاسی سوج بوجھ رکهتے تهے استاد رامو داس سے چار پانچ جماعت تک تعلیم بھی حاصل کر رکهی تهی بڑے ہوئے تو لوگوں کے مختلف القابات سے دل میں ایک حسرت پیدا ہوئی کہ مجھے بھی لوگ چیرمین ممبر یا مدارمحام کہیں، ایک دن اپنی انہی حسرتوں کو والدہ محترمہ کے سامنے ڈهیر کر دیا والدہ نے بیٹے کی حسرتوں کو دیکھ کر کہا اللہ کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں میری دعا ہے کہ اللہ تیری مراد بهر لائے، انہی دنوں میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے تھے ماں کے ادا کیے ہوئے الفاظ ساتوں آسمانوں کے فاصلے سمٹتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں پہنچے اور آپ بلامقابلہ چیرمین منتخب ہو گئے. بس ایک حرف کا ہی اضافہ ہوا عزت احترام تو پہلے ہی تها تبهی تو لوگوں کا مسکن آپ کا گهر ہی بنا رہتا تها. آپ کا رویہ آپ کا اخلاق آپ کی مہمان نوازی کا سلسلہ ویسا ہی رہا جو چیرمین بننے سے پہلے کا تها. آپ کو جہاں خدا نے بہت ساری ان گنت خوبیوں سے نوازا وہاں ایک خوبی غیر جانبدارانہ فیصلے کی بهی عطا کر رکهی تهی آپ انتہائی زیرک انسان تهے آواز میں قدرتی ٹهہراو تھا جو آپ کی شخصیت کو چار چاند لگاتا تھا. بهاری جسامت کے ساتھ مدبرانہ رعب بھی تها کبهی کوئی بات ناگوار گزرتی تو آنکهوں کے ڈورے مذید سرخ ہو جاتے. آپ میں جو پہلو نمایاں تهے ان کا تذکرہ پہلو بہ پہلو کیا جائے تو تحریر میں تشنگی بھی باقی نہ رہے گی اور قاری کے لیے بھی آسانی ہو جائے گی. آپ کی زندگی یوں تو سر تا پا بشمار اوصاف کا مجموعہ تهی لیکن مصنف جن کا احاطہ کر سکا وہ درج ذیل ہیں
تزکیہ نفس:-
تخلیق آدم سے ابلیس نے رب العزت کی عزت کی قسم کھا کر جو دعویٰ کیا تها وہ یہ تها کہ میں قیامت تک تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا.اس کا اپنا دعویٰ بجا سہی لیکن اللہ کے اصل بندے وہی ہیں جو اس کی گمراہی سے بچ جائیں اور اگر کچھ سہو ہو جائے تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کریں. چیرمین عزیز ان لوگوں میں سے تهے جو بہکاوے میں آنے کے بجائے اللہ کی پناہ چاہتے تھے. کہا جاتا ہے کہ آیام جوانی کے ان دنوں میں جب ہر قدم صرف لڑکھڑانا ہی جانتا ہے آپ کی زیر کفالت چند لڑکیاں آئی جو مقبوضہ کشمیر سے بهاگ کر ادهر آ گئی تھیں لڑکیاں جن کو شیخنیاں کہا جاتا تھا نہایت ہی خوبصورت نقش و نگار کی مالکائیں تهیں. اس وقت جب کہیں سرکاری طور پر پناہ گزین کو رکهنے کا کچھ بندوبست نہیں تها تو آپ کا سرائے نما مکان ہی کام آیا اور حکومتی اہلکاروں نے وہ شیخنیاں کچھ سرکاری راشن کے ساتھ آپ کے سپرد کر دیں اب آپ ان کی دیکھ بھال پر معمور ہو گے . نئے مہاجرین کی ہر حرکات و سکنات پر نظر رکهی جاتی تھی اور پھر وقتاً فوقتاً متعلقہ افراد کو آگاہی بھی کی جاتی تھی. آپ نے ابھی ابھی بانکپن کی سرحد عبور کی تهی اور صبح و شام جوبن کی دہلیز کو پهلانگتی الڑ شوخ سی شیخنیوں کی رفاقت بیشک کچی مٹی کو سہراب کرنے کے لیے کافی تهی. شیطان بھی ہمہ وقت موقع کی تاڑ میں لگ کر وہ وہ محاسن دکهاتا جہاں نظر پڑی نہیں کہ ایمان کو رخت لگے نہیں ، ایمان کے بحر اور شیطانی وسوسوں کے منجدھار میں غوطے کهاتے چیرمین عزیز اپنی بهاری بهاری پیوٹوں والی آنسوؤں سے بهری آنکھیں رب عرش العظیم کی طرف اٹهاتے اور روندی ہوئی آواز میں عرض کرتے اے ارض و سما کے مالک میں تیری پناہ چاہتا ہوں اے اللہ مجهے شیطان مردود کے وسوسوں سے بچا اے اللہ میری ایسی ہی حفاظت فرما جس طرح تو نے عزیز مصر کے گهر یوسف علیہ السلام کی حفاظت فرمائی اے اللہ یہ جو تو میرے ناتواں کندھوں پہ اتنی بڑی آزمائش ڈالی ہے تو توں ہی مجھے سرخرو کرنا یا اللہ یہ جو امانتیں مجھے توں نے سونپی ہیں ان کے معاملے میں میری مدد فرما. لمبی سی گریہ زاری کے بعد انگوٹهوں کی پشت سے آنکھیں خشک کرتے کهنکار کر گلا صاف کرتے لکڑی کی بڑی سی جائےنماز سے دنبے کی کهال سے بنا مصلہ اٹها کر پتھروں کی بنی دیوار سے لٹکاتے اور دهیرے دهیرے گهر کی سب سی عمدہ کهاٹ کی طرف بڑهتے جہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی انگریزی ہندسے دو کی طرح لیٹی ہوئی دیکهتی آپ پہلے قدم بوسی کرتے پهر سرہانے کی طرف بیٹھتے ہوئے ہلکی سی آواز کے ساتھ کہتے بےجی جاغنے او (ماں جی جاگ رہی ہیں) رات کے نہ جانے کون سے پہر کی جاگتی ماں لوئی(بھیڑوں کی اون سے بنا ہوا کمبل) سے ہاتھ نکال کر آپ کے چہرے پر پهیرتے ہوئے کہتی کدوں نئ (کب کی) آپ ہاتھ کو پیار سے دباتے ہوئے دوبارہ لوئی کے اندر کر دیتے مبادا کہ کہیں ٹهنڈ نہ لگ جائے. بڑا معصومانہ سا انداز اپنا کر بےجی سے بھی اپنے صبر و استقامت کی دعا کے لیے کہتے .
ملک سے غدر کا زمانہ ختم ہوا شانتی ہوئی تو آپ نے اپنے بڑوں کے مشورے سے یہ شیخنیاں بیاہ کر دے دی اپنی اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبهانے کے بعد پهر بارگاہ ایزدی میں سربسجود ہوئے اور صلوۃ شکرانا ادا کی . بشک آپ پر یہ زمانہ بڑا صبر آزما تها لیکن آپ نے اپنے دامن کو یوں پاک رکها کہ ساری زندگی اپنے آپ پر فخر کرتے رہے. ایک بار مصنف نے باتوں باتوں میں آپ سے اس زمانے کا ذکر چهیڑا تو کوئی شوخی مارے بغیر کہنے لگے ایں آں اس میں میری بس یہی بہادری ہے کہ خدا کی ذات کو ہمیشہ یوں ہی دیکها جیسے وہ میرے سامنے ہے باقی کسی افعال قبیحہ سے بچانے کی قدرت اسی کے پاس ہے ،میں کیا اور میری مجال کیا.
فہم و فراست :-
آپ اپنی دور اندیشی اور سیاسی بصرت کی بنا پر برادری کے تمام سرکردہ لوگوں پر فائق تو تهے ہی لیکن چیرمین بن جانے سے اہل محلہ اور دیگر سرپنچ لوگوں پر بھی اپنی دانشوری کا سکہ جما چکے تهے یہی بات تهی کی تمام برادریاں آپ کے فیصلے کو مقدم سمجهتی تهیں. دوسری خوبی آپ کا غیر جانبدارانہ شخصیت تهی.
یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب زمیندار لوگ گهاس سوکھ جانے کے بعد ایک جگہ اکٹھا کر کے محفوظ کر دیتے ہیں مقامی زبان میں گهاس کو اس طرح سےرکهنے کو گهاڑا کہتے ہیں سیری اور گیائیں کے رستے میں رچے ایک گهاڑے کو کسی راہگیر نے آگ لگا دی ان دنوں میں رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جایا جاتا تھا اتفاق سے محلے کا ایک لڑکا گهاڑے سے کچھ ہی فاصلے پر رفع حاجت کے لیے بیٹھا تھا نشیبی سطح کی وجہ سے وہ گهاڑے کو تو نہ دیکھ سکا لیکن اپنی طرف بهاگتے ہوئے لوگوں کو آتے دیکھ کر جلد ہی اٹھ کھڑا ہوا عقب میں دیکھا تو گهاڑا جل رہا تھا لوگ آگ بجھانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی بولا وہ دیکھو ادھر سے یہ لڑکا آ رہا ہے ہو سکتا ہے اسی نے آگ لگائی ہو ایک اور آدمی بولا اس کی تلاشی لو آگر اس کے پاس سے ماچس ملی تو پھر یقیناً اسی نے آگ لگائی ہو گئی اتنی میں تیسرا آدمی بولا اگر اس نے لگائی نہیں تو پهر بهی اسے پتہ ہو گا کہ کس نے لگائی ہے گهاڑے والوں نے جب دیکھا کہ ماچس وغیرہ تو نہیں ملی تو اس بات پر ڈهٹ گے کہ تم اس کا نام بتاو جس نے آگ لگائی ہے لڑگے کے نہ کے جواب پر ایک آدمی نے اپنا دکھ مٹانے کے لیے یہ بھی کہا کہ تم فلاں کا نام لے لو. لیکن لڑکے نے پکا جواب دیا کہ میں نے آگ لگائی نہیں اور دوسرے کسی کا نام میں لیتا نہیں. قصہ مختصر یہ معاملہ چیرمین جی کے پاس گهاڑے کی مالکن نے اس وقت پیش کیا جب وہ بازار میں سے گزر رہے تھے مالکن نے یہ کہا کہ مانتی ہوں کہ اس نے آگ نہیں لگائی ہو گئی لیکن یہ گیائیں کے اس لڑکے کو ضرور جانتا ہو گا جس نے گزرتے ہوئے آگ لگا دی ہے چیرمین جی اس خاتون کی بات سن رہے تهے جس لڑکے سے بات اگلوانے کی تگ و دو کی جارہی تھی وہ بھی ساتھ ہی تها کہ اسی اثنا میں ایک لڑکے نے سڑک پر گهومتے مرغ کو پتهر مار دیا مرغا پهڑپهڑانے لگا تو لڑکا بهاگ گیا دفعتاً چیرمین جی نے پوچھا او نکیا دس اے کسنا منڈا سی (اوئے چهوٹے بتا یہ کس کا لڑکا تها). لڑکے نے منفی انداز میں گردن ہلاتے ہوئے..... کہا پتہ نہیں؛ لڑکے کا جواب پاتے ہی فوراً خاتون سے مخاطب ہو کر بولے تکیا ای اے اپنے محلے نہے مونڈے کی نہی پیشانا تو گیائیں نے مونڈیاں نا ناں پوچهنی ایں .(دیکها یہ اپنے محلے کے لڑکے کو نہیں جانتا اور تم گیائیں کے رہنے والے کا نام پوچهتی ہو) . آپ کے فیصلے کی صلاحیت کو دیکھ کر آس پاس کهڑے لوگ بھی انگشت بدنداں رہ گئے.
کٹیا جسے آج کل مہاجر کالونی کہتے ہیں وہاں جٹ اور مغل برادری کے درمیاں کسی وجہ سے جھگڑا ہو گیا جٹ اکثریت میں تهے انہوں نے مغلوں کو گهروں میں محصور کر کے رکھ دیا اب مغل نہ کہیں جا سکتے اور نہ ہی کوئی باہر سے آ سکتا . کسی دانا نے اپنی یہ روئیداد اسیری کاغذ پر لکھی اور ایک راہگیر کے ہاتھ چیرمین جی تک پہنچا دی . آپ نے صورتحال کا جائزہ لیا اور جاٹوں کے سرکردہ آدمی کے پاس جا کر اگلا لائحہ عمل جانا تو پتا چلا کے ان کے ارادے یہ ہیں کہ اگر ان (مغلوں) میں سے کوئی بھی باہر نکلا تو اسے گولی مار دیں گے. آپ نے بات سن کر کہا آپ بڑے ہیں ذرا سنجیدگی سے سوچیں کہ آپ کی محلہ داری ہے آپ کی راہیں آپ کی زمینیں سانجهی ہیں روز آپ کا مال بچها ان کی باڑی میں اور روز ان کے بچوں کا گیند بلا اپ کی باڑی میں آئے گا کیا آپ ہر روز ہی گولی ماریں گے پهر گولی کا انجام بھی دیکھیں باڑی کے ساتھ ساتھ حوالاتی کی دیکھ بھال بھی آپ کے روز مرہ معاملات میں شامل ہو جائے گی، آپ نے یہ باتیں اس انداز میں کی کے سننے والوں کے دل و دماغ پر اثر کر گئی انہی باتوں سے نہ صرف مغلوں پر سے محاصرہ ختم ہوا بلکہ رنجشیں بھی ختم ہو گئی اور آئندہ کے لیے بهائی چارے کی فضا قائم ہو گئی.
بذلہ سنجی :-
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بازار میں ایک نئی مسجد کی سنگ بنیاد رکهی جا رہی تهی اس لیے اپر سیری کے کچھ لوگوں نے جامع مسجد کے لیے ماہانہ چندا نہ دیا آپ نے ان لوگوں کو بلا کر وجہ پوچھی تو کہنے لگے ہم اپنی الگ مسجد بنا رہے ہیں اس لئے آپ کو چندا نہیں دیں گے ان کا جواب سن کر دهیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے فیر ساڑهی مسیتی نی ساکن بنان لغے او (یعنی ہماری مسجد کی سوتن بنانے لگے ہو).
زمانہ جب روپے پیسے کو پتهر کرنے لگا تو آپ نے بھی کچھ دیکهو دیکهی اور کچھ مجبوری کی بنا پر مکان نئے سرے سے تعمیر کرنے کی سوچی کچے مکان کو بشمار پرانی یادوں کے ساتھ مسمار کیا گیا نئے مکان کی بڑی مضبوط بنیادیں بهری گئی . اس وقت بجلی نہیں ہوتی تھی اور زیادہ روشنائی کے لیے پیٹرو مکس " جسے گیس کہا جاتا تھا" جلایا جاتا تھا مکان کی اندر سے بهرائی شروع تهی اتفاق سے پیٹرو مکس کا شیشہ نہیں تها روشنی دیکھ کر بیشمار پتنگے یلغار کر کے آتے اور اپنی جان نچھاور کر جاتے ان پتنگوں میں ایک پتنگا وہ بھی تها جسے ہماری بولی میں کالا بهونڈ کہا جاتا ہے یہ دوسرے پتنگوں کی بانسبت طاقتور تها جب بھی آتا خود تو جلتا لیکن ساتھ ہی جلتے ہوئے منٹیل کو بھی توڑ دیتا ، ایک گھنٹے میں جب دو تین منٹیل باندھنے پڑے تو چیرمین جی کی نظریں آنے جانے والے پتنگوں کو دیکهنے لگی اتنے میں کالا بهونڈ آیا ٹکر ماری اور منٹیل توڑ دیا اور خود بھی جل گیا آپ نے اسے جلتے دیکھا تو کہنے لگے تکو اس ویلے وی ہشنا سی کے گوں کهانے والیاں وی پروانہ بناں سی (دیکهو اس وقت نے بهی آنا تها کہ گندگی کهانے والوں نے بھی پروانہ بننا تها).
آپ کے ہم عصر ایک بزرگ صوفی بیرولی جی تهے ان پر اللہ نے کرم کیا کے وہ ایک فورڈ ویگن کے مالک بنے ان کی رشتہ داری گوجرانوالہ میں بھی تهی ان کو ملنے جانے لگے تو از راہ دوستی چیرمین جی سے بهی ساتھ چلنے کا اصرار کیا دونوں ایک دوسرے کی بات کب ٹالتے تهے خیر آج بهی نہ ٹالی اور ساتھ چلے گے. واپسی پر ابھی گوجرانوالہ چهاونی سے ہی نکلے تهے کہ ایکسیڈنٹ ہو گیا دونوں دوستوں کو خوب چوٹیں آئی لیکن آپ کے ناک کا زخم صوفی جی سے کچھ اضافی ہی تها محلے دار اور برادری دار آپ کی عیادت کو آتے تو ساتھ ہی گوجرانوالہ جانے کی وجہ پوچهتے ، آپ ناک پر کی ہوئی پٹی کو اوپر سرکاتے ہوئے کہتے یرا اساں کی دوستی پٹیا(یار ہمیں دوستی نے مارا).
کہتے ہیں سیری میں ایک لڑکی بیاہ کر آئی ہوئی تھی لیکن گھریلو ناچاقی کی وجہ سے میکے جا بیٹهی اب لڑکی والوں کا اصرار تھا کہ طلاق دے دیں لیکن لڑکا کہتا تھا کہ پہلے یہ وعدہ کریں کے لڑکی کہیں اور شادی نہیں کرے گی. لڑکی والوں کو یہ شرط معیوب سی لگتی اور وہ اس پر کوئی بات نہ کرتے . ادھر لڑکا اپنی ضد پر ڈٹا ہوا تھا. آخر لڑکی والوں کی گزارش پر آپ لڑکے والوں سے ملے اور کہنے لگے فرختی (طلاق کے لیے آپ یہ لفظ استعمال کرتے ہوتے تھے) دے دو. لڑکے نے پهر اپنا مطالبہ دہرایا تو آپ نے کہا یرا تو تے چهوڑہس ، اس نے پهر کہا نہیں یہ کہیں شادی کر لے گی . آپ نے بات سن کر کہا یرا تو چهوڑہس جے اس کدرے نکاح کیتا ناں تے فیر فرختی ہوئی جاسی. اب یہ بات لڑکی والوں کو ناگوار گزری تو بول اٹهے جی آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں. آپ نے ہاتھ کے اشارے سے مخاطب سے بیٹهنے کا کہا اور کہنے لگے میں نے اس لیے کہا کہ جیڑی کڑی سیری نہی ناں بسی او کدرے نہی بسی سکنی.
صلہ رحمی:-
بظاہر بہت ہی موٹے تگڑے نظر آنے والے اندر کس قدر نرم سا دل رکهتے تهے اس کا اندازہ عید قربان کے دنوں میں ہوتا . آپ ہر عید پر قربانی کرتے لیکن زبح کے وقت پاس کهڑے نہ ہوتے اور قصائی سے بھی یہی تلقین کرتے او ظالماں چهری تے چهپائی تے آن(بےدرد انسان چهری چهپا کر لاو).
آپ در پہ آئے گداگروں کو کبھی خالی ہاتھ نہ لٹاتے تهے کہیں بار ایسا ہوتا کہ اپنی جیب میں کچھ نہ ہوتا تو بیٹے جاوید سے کہتے یرا جے کج ہے تے انہاں کی دیاں . کہیں بار ایسا بهی ہوا کہ آپ کهانا کها رہے ہوتے تو محلے کا کوئی مرد یا عورت لسی مانگنے آپ کے گهر آ جاتا خاتونِ خانہ کہتیں وہ تو ختم ہو گئی ہے یہ آواز سنتے ہی اپنے آگے سے لسی کا گلاس "یہ گلاس سلور کا بنا ہوتا تها جسے کٹورا کہا جاتا تھا اور اس میں کم از کم سیر دو سیر لسی پڑتی تھی" اٹهاتے اور آنے والے کو دے دیتے پاس کهڑی آپا زمورت پوچهتی پہاپا ہن تساں کہس نال کهاسو بیٹی کے اس سوال پر اس کی دلجوئی کرتے ہوئے دانتوں کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے کہتے میں انہاں نال کهائی کینساں. آپ گوشت کے زیادہ حصے بنوا کر تقسیم کرنے کو کہتے کسی نے وجہ پوچھی تو آپ کہنے لگے تکو جتنیاں مونہووں وچ لغا جاسی اتنا ہی چنگا اے.
آپ کے بہنوئی اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ فاتحہ خوانی کے لیے مسلسل پندرہ بیس دن تک صف ماتم بچهائے رہے . آپ کے بیٹے نے ازراہ مزاح کہا کیا آپ پکے ہی ڈیرے لگا لیں گے . پرسوز آواز سے کہنے لگے یرا ہمشیرہ نے سریہے اپروں چادر اڈری گئی اے سوچیا کج تے اسنے درد ہولے کراں(یار ہمشیرہ کے سر سے چادر اڑ گئی ہے سوچا ہے کچھ تو اس کے دکھوں کو ہلکا کروں).
آپ انتہائی بندہ پرور شخصیت کے مالک تھے لیکن یہ راز آپ کے جانے کے بعد کهلا . آپ نے زندگی بهر کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا اور نہ ہی آپ کی زندگی میں ایسی کوئی نوبت آئی کہ آپ کو حصہ لینا پڑتا . آپ صلح جو قسم کے انسان تهے آپ ہی کی وجہ سے کٹیا والوں کی روزمرہ کی لڑائی یوں ختم ہوئی کہ باہم شیریں و شکر ہو گئے. اسی لیے آپ ہاتھ کی چار انگلیاں کهڑی کر کے کہتے ہوتے تھے میرے ہوتے ہوئے" یہ جو چار پاو کی سیری ہے ناں اس میں سے" کوئی ایک چھٹانک بهی نہیں نکال سکتا.
قد و قامت
آپ بہت نفیس شخصیت کے مالک تھے لیکن ظاہری ایسے کم ہی لگتے تھے اس کی وجہ آپ کا مردانہ رعب و دبدبہ تها اکثر لوگ آپ کے اسی دبدبے کے باعث کچھ کہنے سے گریزاں رہتے تھے. آپ تقریباً چھ فٹ سے کچھ زیادہ قد رکهتے تهے گندمی رنگ بهرا بهرا سا جسم وجاہت سے بهری آنکھیں آنکهوں میں لال ڈورے ابهرے ہوئے پیوٹے کہیں شادی یا پنچایت میں جاتے تو سفید قمیض شلوار کے ساتھ قدرے لمبی واسکٹ پہنتے سر پر جناح کیپ پاوں میں براؤن غرگابی اور ہاتھ میں عصا رکهتے گهر میں ہوتے تو قمیض کے ساتھ لنگی باندهتے اور سر پر پرنہ رکهتے . چلتے ہوئے آپ رانوں سے گھٹنوں تک کا حصہ اندر کی طرف گهومائے رکهتے اور پنڈلیوں سے پاوں تک کے حصے کو بلترتیب کهلا کرتے رہتے یوں چلتے ہوئے آپ کے پاؤں نسبتاً باہر کی طرف رہتے قدرے بڑے کان اور اتنی ہی بڑی ناک چہرے پر بزرگی کی جھریاں ہاتھوں کی انگلیوں میں قدرتی طور پر ایک دوسری سے خلاء جو جوڑنے پر بھی ایک دوسرے سے نہ جوڑتی ہاتھ مضبوط لیکن خم زدہ، ہاتھوں کی پشت پر کالے تلوں کے نشان، نہ ہونے کے برابر مونچھیں مٹهی بهر سفید ریش چوڑے شانے ابهرا ہوا سینہ بهاری پنڈلیاں پیروں کے چهترے ابهرے ہوئے، دانت کچھ تو گر چکے تھے جو باقی رہتے خوبصورت اور مضبوط (دانتوں کی مضبوطی کا ایک قصہ یوں ہے کہ ایک بار آپ گوشت کهائے جا رہے تھے اور ساتھ کہہ رہے تھے او مزا نہی، پوچھا کون سا. کہنے لگے کڑیاں زیادہ گالی شوڑیا تهوڑا جا سخت ہوناں ناں بہوں مزا اچهے آ. حالانکہ وہ گوشت قربانی کا تها اور صرف گهی میں بهنا گیا تها پهر بھی آپ کو زیادہ گلا ہوا لگتا تھا) سگریٹ نسوار اور حقہ کے دلدادہ . سگریٹ ہمیشہ آخری دو انگلیوں میں رکهتے اور کش لیتے وقت دائیں آنکھ بند کر لیتے، کبهی باتوں کا جواب صرف آں ہوں میں دیتے تو پتہ چل جاتا کہ نسوار کے مزے لیے جا رہے ہیں، حقے کے تمباکو میں گڑ کا استعمال بھی کرتے اور کہتے آگ بوری کی ہو تو مزا ہی کچھ اور ہے .
صبر و استقامت :-
آپ پر زندگی میں جہاں سکھ کی چهاں رہی ہے وہی غموں کے سائے بهی منڈلاتے رہے لیکن کبهی پائے اثبات میں لرزش نہیں آئی جہاں نعمتوں پر شاکر رہے وہی غموں پر صابر بهی رہے . آپ کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ تها کہ ایک ہی دن آپ کی دو پوتیاں اور ایک پوتا انڈین فائرنگ سے شہید ہو گئے یہ ایسا واقعہ تها جس پر چشم فلک بھی روے بنا نہ رہ سکی ایسا صدمہ تها جس سے پہاڑوں میں بھی شگاف پڑ گیا تھا لیکن آپ نے اپنے ایک شانے کے ساتھ بہو کا اور دوسرے کے ساتھ بیٹے کا سر لگا رکھا تھا آنکھیں بحر اشک بہا رہی تهی لیکن لبوں سے دونوں کو تسلیاں اور ہاتھوں سے تھپکیاں دے رہے تھے بیٹے کو سمجھانے کے لیے کہتے یرا صبر کر اللہ نی امانتاں سن اللہ واپس چائی کیندیاں ہن توں کیاں کرلائی کرلائی بے صوراں وچ شامل ہوناں آیں( یار صبر کر وہ اللہ کی امانتیں تهیں اللہ نے واپس لے لی ہیں تم رو رو کر کیوں بےصبروں میں نام لکھوا رہے ہو). آپ پر کیا بیتی اس کا کبھی اظہار نہیں کیا.
حب الوطنی :-
وطن سے محبت جزو ایمان ہے اور آپ میں یہ وصف با آتم درجہ موجود تھا. یہی وجہ تھی کہ آپ نے پینسٹھ اور اکہتر جیسے نامساعد حالات میں بھی سیری کو نہیں چھوڑا حالانکہ آپ کا مکان دفاعی لحاظ سے بالکل ہی غیر محفوظ تها پهر بھی آپ اسے چھوڑ کر کہیں نہیں گے جب کہ آپ کی آدھی سے زیادہ برادری میرپور مقیم ہو چکی تھی لیکن آپ کی ہجرت کے سامنے ہمیشہ حب الوطنی آتی رہی. آپ کبهی کبھی راہ چلتے رک کر کہتے ہوتے تهے اس جغے بڈی واری اٹی ٹلہ تے بلور کهیڈے ہن . "اس جگہ بہت بار گهلی ڈنڈا اور باہنٹے کهیلے ہیں " یا کسی جگہ کی طرف اشارہ کر کے کہتے سکولوں ہشنیاں ہتهے چهپی تے سرغٹ چهکنے ہونے ساں. کبھی کبھی یہ بھی بتا دیتے تهے کہ مقدے(ایک ہندو کا نام) کی بانڈ یہاں ہوتی تھی. یہ ساری باتیں یہ ظاہر کرتی تھیں کہ انہیں آج بھی سیری کا چپہ چپہ یاد ہے. پھر گھر کے پچھواڑے میں آبائی قبرستان تھا جہاں بہت سارے ایسے رشتے مدفن تهے جن کی قبور پر روزانہ حاضری یقینی بناتے تهے. آپ کو اگر بازار بھی جانا ہوتا تو پہلے بےجی کی قبر پر جاتے پنجوں کے بل بیٹھ کر یوں گڑگڑاتے جیسے کوئی چھوٹا بچہ میلے میں جانے کے لیے اصرار کر رہا ہو قبر پر ہاتھ پھیر کر آنکهوں کے ساتھ لگاتے اور پھر چل دیتے . آپ جہاں دنیا داری میں مصروف رہتے وہی اپنی سیری کی محبت میں بھی مگن رہتے. آپ نے ساری زندگی سیری کو پیار و محبت سے دیکھا ہر آنے جانے والے کے لیے اپنے گهر کے دروازے کهلے رکهے اتنے وسیع گهر کے سامنے چار دیواری تک نہ بنائی کہ کہیں آنے والے کے وقت کا ضیاع یا دقت کا سامنا نہ ہو. یہی وجہ تھی کہ آپ کے پاس آنے کے لیے کسی کو استیذان کی ضرورت نہیں پڑتی تھی.
وقت پر لگائے گزرتا رہا آج کل میں اور کل ہفتوں میں ڈهلتا گیا آخر وہ وقت آن پہنچا کہ نوشتہ تقدیر سامنے آ ہی گیا آپ کی حب الوطنی پر بیٹے کی محبت غالب آ گئی اور آپ کو رخت ہجرت باندهنے پڑے بہت ہی پیاری سیری ،لہلہاتے کهیت کهیلیاں اونچے نیچے ٹیبے بنے بل کهاتی ندیاں بڑی لمبی چوڑی بان بغیر فصیل کے گهر گهر سے ملحقہ قبرستان قبرستان سے وابستہ یادیں پرانی رسوئی رسوئی کے نیچے مال چوکهر کی بانڈ، گهر کے چار چوفیرے تاحد نظر پهیلی بستیاں بستیوں کے مکین مکینوں کی سنگتیں طیفے کا ٹهکدوارہ سوزوکیوں کا اڈہ رستے کا کنواں سب کچھ ہی پلک جھپکتے ہی چهوٹ گیا اور آپ میرپور چلے گے. آپ اہل خانہ کے ساتھ تهے تقریباً آدھی برادری پہلے ہی وہاں ماجود تهی سب کچھ ہونے کے باوجود بھی سیری کی کسک ہمیشہ آپ کے دل میں رہتی آپ پر یہ ہجر کے شب و روز کیا کیا قیامتیں ڈهاتے انہیں صرف کوئی محب الوطن ہی جان پاتا آپ آزاد فضاؤں کے عقاب تهے کب چاردیواری کی دنیا آپ کو بهاتی یوں ہی جب پرواز چهوٹی تو فالج کے ارضے نے دبوچ لیا بڑهاپا غالب آنے لگا تو بہادر شاہ ظفر کے ایام اسیری اور وطن پر لکهی نظمیں یاد آنے لگی آپ کے یہ درد وہی محسوس کرتا جو وطن کی محبت میں گرفتار ہوتا آزاد خیال لوگ کب ان الجھنوں میں پڑهتے. انہی ایام میں اگر کوئی سیری کی طرف سے آپ کے ملنے کو جاتا تو آپ اس بچے کا بهی پوچهتے جو آپ کے جانے سے ایک دن پہلے پیدا ہوا تها آپ کو سیری کے بوڑھوں کے تکیا کلام اور دوران گفتگو حرکات و سکنات بهی یاد تهی تبهی تو آپ پوچهتے حسین نسواری والا کسی کی بات سنتے ہوئے کہتا ہے ایں شاوہ ، کیا بٹ عزیز چلتے ہوئے اب بهی ہاتھوں کے اشارے کرتارہتا ہے، کیا چودھری نیامت اب بهی مہاڑا خیال اے کہتا ہے. کیا مشتاق کینٹهی والا یوں کہتا ہے او وچارا، کیا بالا شیخ اب بهی کہتا ہے او جی مہاڑا مطول اے. آپ اپنے ملاقاتی سے بالخصوص اپنے بھانجے قادری سے سیری کے حال احوال یوں پوچهتے جیسے کہیں کتاب لکهنے کا ارادہ رکهتے ہوں . آپ کو سیری پل پل یاد آتی لیکن ناجانے کون سی مجبوری کے تحت آپ کسی سے اظہار نہ کرتے.
موسم مکمل طور پر سرد ہو چکا تھا اس لیے آپ کے دن اور راتیں بس کمرے تک محدود ہو گے تهے کب سورج نکلا کب چهپ گیا گهر والوں کی کسی حرکت سے معلوم ہو پاتا تها جب کوئی کہہ دیتا پہاپا جی ناشتہ کر لو یا جب کوئی کہتا یہ گولی ڈاکٹر نے شام کو کهانے کا کہا تھا آپ جان لیتے کہ سورج کو رات کے اندھیروں نے نگل لیا ہے . بیس جنوری کی صبح کو دس بجے بہت ہی پیارے اور اکلوتے بیٹے کو پاس بٹهایا پیٹھ پر دست شفقت پهیرتے ہوئے ملتجانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے گویا ہوئے، یار..... کبھی بھی میں نے تجهے کسی آزمائش میں نہیں ڈالا کبھی تجھ سے کچھ کہا نہیں ہے ہمیشہ تیری ہی ضد کو مانتا رہا ہوں کبھی اپنی بات منوائی نہیں لیکن آج کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے ....... دوبارہ بیٹے کو دیکهتے ہوئے.....گلا کهنکارا ... پهر بکهرتے لفظوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی ...بیٹے کی ران پر ہاتھ رکها، سلسلہ کلام دوبارہ شروع کیا. یار بہت دنوں سے سیری یاد آ رہی ہے بہت سالوں سے بےجی کی قبر کی زیارت نہ کر سکا، آج موسم قدرے بہتر ہے مجهے نہلا لو کل سیری جانے کو جی چاہتا ہے. تو کل آپ کو نہلا لیں گے نا، بیٹا جو کافی دیر سے باپ کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تها دهیرے سے بولا. ..... ہاں ہاں کل پهر نہلا لینا، لیکن یار مجھے سیری ضرور لے جانا . بس یہی تجھ سے کہنا تها، بس آخری بار .....بس... آخری بار پھر کبهی بھی تجھے سیری چلنے کا نہ کہوں گا. ضرور پہاپا جی کل سیری چلیں گے. بیٹا بس عام سی خواہش سمجھ کر کل کی تیاری کا سوچ کر آج کے مشاغل میں مصروف ہو گیا کیا پتہ تھا کہ آپ اپنی بات کو عملی جامہ پہنانا جانتے ہیں.
آج کا سورج آپ کے علاوہ باقی سب کے لئے بہت جلد غروب ہوا آپ کو سیری سے ملنا تها سارے نظارے آپ کی آنکھوں کے سامنے ماضی کی فلم کی طرح چل رہے تھے راستے اپنے نشیب و فراز کے ساتھ اپنے منتظر لگتے تھے بان سے لے کر بےجی کی قبر تک کا سارا رستہ ساری راہیں راہوں کے ساتھ ساتھ گهر پهر اپنی بہن کا گهر پهر بہن اور بهانجیوں کا آپ کو دیکھ کر از راہ حیا شرمانا پهر بہن کا جهک کر آگے سر رکهنا سر دیکھ کر آپ کا ہاتھ یوں آگے بڑها جیسے کسی کے سر پر ہاتھ پهیرنے لگے ہیں ، بیٹا جو اتفاقاً دروازے کے آگے سے گزر رہا تھا آپ کا اٹها ہاتھ دیکھ کر پاس گیا پوچها پہاپا جی آپ نے مجھے بلایا کہنے لگے نہیں. ...تو پهر ہاتھ کس لیا اٹهایا تها ؟ او یرا فاطمہ نے سرا اپر ہتھ پهیرن لغا ساں . پہاپا جی وہاں کل چلیں گے ..ایں ... بیٹے کی بات پر کہتے ہوئے شرما سے گے. پتہ چل گیا کہ ابهی دہلی دور است.
اکیس جنوری صبح سے ہی آسمان رو رہا تھا یا بادل برس رہے تھے بیٹا حسب معمول بستر سے اٹها باہر دیکها برستے بادلوں کو دیکھ کر سوچا اچها کیا تها جو کل پہاپا جی کو نہلا لیا تها ورنہ آج تو سردی بہت ہے. اپنی بیداری کی خبر دینے پہاپا جی کے کمرے میں داخل ہوا تو آپ کو اپنا ہی منتظر پایا . صحت کا پوچها تو جواب پایا .... سیری، پیار سے مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا واہ کیا ہی بات ہے آج تو صحت کے جواب میں سیری کہہ رہے ہیں ! چلو مجهے تیار ہو لینے دیں پهر چلتے ہیں. آپ نے جاتے بیٹے کی پیٹھ دیکهتے ہوئے جلدی آنے کا کہنے لگے لیکن زبان بیوفائی کر گئی.
بیٹے نے شاید تیاری میں کچھ زیادہ ہی وقت لگا دیا کہ جب واپس لوٹا تو پیٹھ پر پهیرنے والے دست شفقت چارپائی پر بےجان پڑے تهے وہ لب جو کچھ کہنے کے لیے جنبش کرنے لگے تهے اب خزاں زدہ پتوں کی طرح سوکھ چکے تهے بس آنکھیں تهی جو سیری دیکهنے کی حسرت میں اب بھی نیم واہ تهیں. آپ کی یہ حالت دیکھ کر بیٹا گزشتہ کل کے سارے رموز و اوقاف سمجھ گیا اپنے وعدے کے مطابق آج پھر نہلایا اور سب کو اطلاع کر دی کے پہاپا جی سیری جانے کے لیے تیار ہو گئے ہیں.
سیری کے شیدائی سیری پہنچے وہی استقبال ہوا جو کسی راجا کا گاوں کی آمد پر کیا جاتا ہے لیکن صد افسوس کہ راجا ہاتھ ہلا کر جواب نہ دے رہا تھا بس خاموش دیدوں سے ہی سیری کی رونقیں دیکھ رہے تها.
ماں کے چرنوں سے لیپٹنے کی حسرت پوری ہوئی اور وہ قبرستان جہاں دن میں تین چار مرتبہ جاتے تهے صدیوں کے لیے مسکن بنا لیا. خزاں زدہ پتے لوگوں کے قدموں سے کچھ ہی دیر کڑ کڑائے اور پهر بهوسے کی طرح بیٹھ گے . آپ نے نہ جانے کتنے ارمان دل میں بسا رکهے ہوں گے اس قبرستان کے متعلق لیکن اب قبرستان میں بڑهی خود رو جھاڑیاں گرے پتے جگہ جگہ پر اگی گهاس درختوں کی لٹکتی ٹہنیاں اکهڑا پلستر بترتیب پڑی ہوئی مٹی آنے جانے والوں کو بس اتنا ہی سندیس دیتی ہیں ...... برسوں سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گهر کی فضا. .......!
چیرمین عزیز الدین بٹ
تحریر:- گل زیب انجم
حقیقت تو یہی ہے کہ زمینی خدوخال ہی موسموں کے تغیر کا پتہ دیتے ہیں.
وہ گهر جو لیل بهر دیہنی کے موٹهوں دیوں لالٹینوں سے اور دن بهر لوگوں کی چہل پہل سے منور رہتا تھا اب بیتے دنوں کا قصہ لگتا ہے.
سچ ہے کہ کچھ لوگوں کے دم سے ہی بہاریں مہکتی ہیں.
خودرو جھاڑیاں اکهڑا پلستر جگہ جگہ اگی گهاس بےترتیب مٹی سب یہی سندیس دیتے ہیں "مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گهر کی فضا.
یہ جہاں آج کل سوزوکیوں کا آڈہ ہے نا یہاں پہلے پہل ایک باغ ہوتا تها باغ کیا تها بس دو ہی پهل دار درخت ہوتے تھے جنہوں نے اس احاطہ نما جگہ کو باغ کا رتبہ دے رکها تها ایک تو انجیر کا تها جسے مقامی زبان میں پهواڑہ کہا جاتا اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پهواڑے لگتے تھے شاید اسی لیے اس کو کوئی انجیر نہیں کہتا تها . انجیر کے درخت میں قدرتی طور پر یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ اس پر دوسرے درختوں کی بانسبت چڑهنے میں آسانی ہوتی ہے اسی لیے محلے کے لڑکے باآسانی اس پر چڑھ کر بیٹھ جاتے تھے. بلکہ اس کے دو تین ڈال تو ایسے تهے جن پر پولی (ناظم) پلی(خضر) فلاتو (اسد) اور زیبا (گلزیب) بیٹھ کر سگریٹ نوشی بھی کر لیا کرتے تھے پهواڑے کے چوڑے پتے آتے جاتے لوگوں سے خوب آڑ مہیا کرتے تھے اس لیے یہ درخت نئے نویلے نشئویوں کا پسندیدہ تها . دوسرا درخت کٹهی خوبانیوں کا تها جنهیں چر یا آڑی کہا جاتا تھا یہ سیدهے سے تنے والا اور باریک پتوں والا درخت تها اس لیے اس پر کوئی اسی وقت ہی چڑهتا تها جب اسے گهر سے یا ماسی سید بیگماں کی طرف سے فرمائش ہوتی کے تهوڑی سی چریں لے آنا کہ دوپہر کو چٹنی بنائیں گے . اس باغ کے اس کونے پر جو آج کل نشنل کالج کی طرف ہے، ایک کنواں ہوتا تھا جس کے دائیں جانب بغیر چهت اور دروازوں کے غسل خانے بنے ہوتے تھے غسل خانوں کے دروازے بهلے نہ تهے لیکن وہ اس مہارت سے بنائے گئے تھے کے ایک دو گلی نما دیواریں گهوم کر ہی غسل خانے میں پہنچا جاتا تها اس لیے کسی کے دیکھ لینے کا اندیشہ نہیں ہوتا تها. پرانے لوگ ہر جگہ کا کسی نہ کسی طرح سے احترام کرتے تھے جیسا کہ گهراٹیا بهی جوتوں کے ساتھ گهراٹ کے اندر نہیں جاتا نہانے والی جگہوں پر بول بزاز نہیں کیا جاتا تھا چشموں سے پانی بھرتے وقت جوتے کوسوں دور اتارے جاتے تھے لیکن نئی پوچ میں پردہ کیا آیا کہ پردہ خانوں کو ہی گندہ کرنا شروع کر دیا نہانے کے لئے بنائے گے غسلخانوں میں پاخانہ شروع کر دیا تو محلے کے بڑوں نے غسلخانوں کی کهپ ہی ختم کر دی. کنویں کا ٹهنڈا ٹهار پانی زمینداروں کی دن بهر کی گرمی سکینڈوں میں فوں کر دیتا تها . محلے کی تمام عورتیں اسی کنویں سے پانی لاتی تو پارلی سڑک سے ملتے جلتے تمام راستوں پر بہار سی آ جاتی. رنگ برنگے ملبوسات سے یہی گمان ہوتا کہ دهنک رنگ زمین پر اتر آئے ہیں. کنواں عصر کے بعد یوں لگتا جیسے آج کل سرکس والوں کا کنواں ہوتا ہے مختلف ڈول ڈبوں سے یوں ترنم سا گونجتا کہ ڈهول باجوں کی ضرورت ہی نہ رہتی. کچھ الڑ سی لڑکیاں تو شرط لگاتی کہ پہلے ڈول کون نکالے گی پهر کیا ہوتا کہ ڈهپ سے ڈول پانی پر پڑتے ہی لاء "ڈول سے باندهی رسی" کو پهرتی سی ہلاتیں اور پلک جھپکتے ہی کھینچ کر باہر لے آتی انہی پھرتیوں میں کبهی لاء ہاتھ سے چھوٹ جاتی اور ڈول کے ساتھ ہی چهپک سے کنویں میں گر جاتی کبھی انوں بھی گر جاتے جو بڑی خوبصورتی سے بنائے گے ہوتے. لڑکیاں اگر کنویں پر لگی چرخی پر سے رسہ کهینچتی تو پاس بیٹهی بوڑھی عورتیں کہتی بلیں چهکو اے نہی تے ماو نی کهسمنی تروٹی جاسے.
اسی کنویں سے گرلز کالج کی طرف جایا جائے تو جہاں سے تهوڑی سی چڑهائی شروع ہوتی ہے اس جگہ کو ٹانگریاں کہتے ہیں ٹانگریاں کی وجہ تسمیہ معلوم نہ ہو سکی البتہ یہاں سے سرخ رنگ کی کهردری سی مٹی نکلتی تھی جسے کیرن کہا جاتا تھا ساتھ ہی کرومل کی خودرو جھاڑیاں بهی تهی شاید ان دونوں میں سے کسی ایک کی نسبت سے ٹانگریاں کہتے ہوں . چڑهائی کا یہ سلسلہ جہاں ختم ہوتا ہے وہاں ایک گهر ہے جسے چیرمین عزیز ہوراں ناں کہر(گهر) کہا جاتا ہے.
پرانے وقتوں میں یہ گهر گهر کم اور سہرائے زیادہ لگتا تها سہرائے لگنا اس کا کچا پن نہ تها بلکہ مسافروں محلے داروں اور برادری والوں کے آنے جانے سے لگتا تها کوئی لمحہ ایسا نہیں گذرتا تها جب لوگوں کا تانا بانا نہ لگا ہو. یہ ان زمانوں کی بات ہے جب گهروں کے اردگرد چاردیواری شادو نادر ہی ہوا کرتی تھی اس لیے دور دور تک راستوں کے راہی آتے جاتے دکھائی دیتے تھے چیرمین جی کا گھر نہ صرف سیری کے محلے سے بلکہ چوطرفی محلوں سے اونچائی پر تها یہی وجہ تھی کہ آمدورفت کا پتہ چلتا رہتا تھا. رات کے سمے میں بھی دہینی کے موٹهوں (مشعلوں) سے اندازہ ہوتا رہتا تھا کہ ابهی آنے جانے والوں کا تناتا ٹوٹا نہیں. کچھ تو اتنی دقیق نگاہ رکهتے تهے کے موٹهوں کے انداز گرفت سے بھی پہچان لیتے تھے کے کون جا رہا ہے. کچا سا مکان بنیروں سے لٹکتی درهگ ( وہ جھاڑیاں جو مٹی روکنے کے لیے بالوں اور شہتیروں کے اوپر ڈالی جاتیں تهیں) بےترتیب سی کی ہوئی لپائی دروازوں پہ لگے بڑے بڑے لکڑی کے پٹ جو کهلتے اوربند ہوتے وقت بڑی پرسوز سی آواز پیدا کرتے دیوار میں لگی لکڑی کے تختوں کی کھڑکیاں جن سے دیمک اور لکڑی کیڑے کی کافی شناسائی تهی ڈهیلے قبضوں کی وجہ سے ہوا کے جھونکوں سے خود ہی کهلتی اور بند ہوتی رہتی تھیں انہی کھڑکیوں کی حرکات و سکنات سے اندر بیٹھی بڑی بے جی بتا دیتیں تھیں کہ بار سوہنی ہوا چولنی پئی اے، "کہ باہر اچهی ہوا چل رہی ہے" . دو بڑے کمروں کے آگے وسیع آنگن، کمروں کے بالمقابل کچی سی رسوئی رسوئی کے نیچے بھینسوں کی بانڈ(باڑہ). رسوئی کو یہ شرف حاصل تها کے گرمیوں سردیوں میں کوئی پہر ایسا نہیں ہوتا تها جس میں یہ مہانوں کی تواضع میں مصروف نہ ہو. آپا زمورت (زمرد) کو جب بھی دیکھا گیلی سوکھی لکڑیوں کو پهونکتے ہی دیکھا. رسوئی کے دروازے اور چمنی سے نکلتا دهواں آپا کی قوت مدافعت کا ترجمان ہوتا بڑا سا آنگن ہمہ وقت لوگوں سا بهرا بهرا رہتا کون کس وقت آیا کب گیا پتہ ہی نہیں چلتا تھا بس یہی آواز ہی گونجتی رہتی تھی چاہ دو پالیاں ہور دیسو اتهے پیڑی رکهو اتهے کهٹ ہور ڈهائو. یہ وہ الفاظ تھے جو آئے گے لوگوں کی خاطر داری میں گهر والے ایک دوسرے کو کہتے رہتے تھے. دیکھا جائے تو کوئی یونہی ہی تو منہ اٹهائے نہیں چلا آتا تھا آخر کچھ تو تها جس وجہ سے ریل پہل لگی رہتی تھی.......!
چیرمین عزیز خاندان سخی محمد کے پہلے سپوت ہی نہیں بلکہ اپنے دادا سیف کی آل اولاد میں سب سے بڑے بهی تهے بچپن سے ہی سیاسی سوج بوجھ رکهتے تهے استاد رامو داس سے چار پانچ جماعت تک تعلیم بھی حاصل کر رکهی تهی بڑے ہوئے تو لوگوں کے مختلف القابات سے دل میں ایک حسرت پیدا ہوئی کہ مجھے بھی لوگ چیرمین ممبر یا مدارمحام کہیں، ایک دن اپنی انہی حسرتوں کو والدہ محترمہ کے سامنے ڈهیر کر دیا والدہ نے بیٹے کی حسرتوں کو دیکھ کر کہا اللہ کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں میری دعا ہے کہ اللہ تیری مراد بهر لائے، انہی دنوں میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے تھے ماں کے ادا کیے ہوئے الفاظ ساتوں آسمانوں کے فاصلے سمٹتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں پہنچے اور آپ بلامقابلہ چیرمین منتخب ہو گئے. بس ایک حرف کا ہی اضافہ ہوا عزت احترام تو پہلے ہی تها تبهی تو لوگوں کا مسکن آپ کا گهر ہی بنا رہتا تها. آپ کا رویہ آپ کا اخلاق آپ کی مہمان نوازی کا سلسلہ ویسا ہی رہا جو چیرمین بننے سے پہلے کا تها. آپ کو جہاں خدا نے بہت ساری ان گنت خوبیوں سے نوازا وہاں ایک خوبی غیر جانبدارانہ فیصلے کی بهی عطا کر رکهی تهی آپ انتہائی زیرک انسان تهے آواز میں قدرتی ٹهہراو تھا جو آپ کی شخصیت کو چار چاند لگاتا تھا. بهاری جسامت کے ساتھ مدبرانہ رعب بھی تها کبهی کوئی بات ناگوار گزرتی تو آنکهوں کے ڈورے مذید سرخ ہو جاتے. آپ میں جو پہلو نمایاں تهے ان کا تذکرہ پہلو بہ پہلو کیا جائے تو تحریر میں تشنگی بھی باقی نہ رہے گی اور قاری کے لیے بھی آسانی ہو جائے گی. آپ کی زندگی یوں تو سر تا پا بشمار اوصاف کا مجموعہ تهی لیکن مصنف جن کا احاطہ کر سکا وہ درج ذیل ہیں
تزکیہ نفس:-
تخلیق آدم سے ابلیس نے رب العزت کی عزت کی قسم کھا کر جو دعویٰ کیا تها وہ یہ تها کہ میں قیامت تک تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا.اس کا اپنا دعویٰ بجا سہی لیکن اللہ کے اصل بندے وہی ہیں جو اس کی گمراہی سے بچ جائیں اور اگر کچھ سہو ہو جائے تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کریں. چیرمین عزیز ان لوگوں میں سے تهے جو بہکاوے میں آنے کے بجائے اللہ کی پناہ چاہتے تھے. کہا جاتا ہے کہ آیام جوانی کے ان دنوں میں جب ہر قدم صرف لڑکھڑانا ہی جانتا ہے آپ کی زیر کفالت چند لڑکیاں آئی جو مقبوضہ کشمیر سے بهاگ کر ادهر آ گئی تھیں لڑکیاں جن کو شیخنیاں کہا جاتا تھا نہایت ہی خوبصورت نقش و نگار کی مالکائیں تهیں. اس وقت جب کہیں سرکاری طور پر پناہ گزین کو رکهنے کا کچھ بندوبست نہیں تها تو آپ کا سرائے نما مکان ہی کام آیا اور حکومتی اہلکاروں نے وہ شیخنیاں کچھ سرکاری راشن کے ساتھ آپ کے سپرد کر دیں اب آپ ان کی دیکھ بھال پر معمور ہو گے . نئے مہاجرین کی ہر حرکات و سکنات پر نظر رکهی جاتی تھی اور پھر وقتاً فوقتاً متعلقہ افراد کو آگاہی بھی کی جاتی تھی. آپ نے ابھی ابھی بانکپن کی سرحد عبور کی تهی اور صبح و شام جوبن کی دہلیز کو پهلانگتی الڑ شوخ سی شیخنیوں کی رفاقت بیشک کچی مٹی کو سہراب کرنے کے لیے کافی تهی. شیطان بھی ہمہ وقت موقع کی تاڑ میں لگ کر وہ وہ محاسن دکهاتا جہاں نظر پڑی نہیں کہ ایمان کو رخت لگے نہیں ، ایمان کے بحر اور شیطانی وسوسوں کے منجدھار میں غوطے کهاتے چیرمین عزیز اپنی بهاری بهاری پیوٹوں والی آنسوؤں سے بهری آنکھیں رب عرش العظیم کی طرف اٹهاتے اور روندی ہوئی آواز میں عرض کرتے اے ارض و سما کے مالک میں تیری پناہ چاہتا ہوں اے اللہ مجهے شیطان مردود کے وسوسوں سے بچا اے اللہ میری ایسی ہی حفاظت فرما جس طرح تو نے عزیز مصر کے گهر یوسف علیہ السلام کی حفاظت فرمائی اے اللہ یہ جو تو میرے ناتواں کندھوں پہ اتنی بڑی آزمائش ڈالی ہے تو توں ہی مجھے سرخرو کرنا یا اللہ یہ جو امانتیں مجھے توں نے سونپی ہیں ان کے معاملے میں میری مدد فرما. لمبی سی گریہ زاری کے بعد انگوٹهوں کی پشت سے آنکھیں خشک کرتے کهنکار کر گلا صاف کرتے لکڑی کی بڑی سی جائےنماز سے دنبے کی کهال سے بنا مصلہ اٹها کر پتھروں کی بنی دیوار سے لٹکاتے اور دهیرے دهیرے گهر کی سب سی عمدہ کهاٹ کی طرف بڑهتے جہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی انگریزی ہندسے دو کی طرح لیٹی ہوئی دیکهتی آپ پہلے قدم بوسی کرتے پهر سرہانے کی طرف بیٹھتے ہوئے ہلکی سی آواز کے ساتھ کہتے بےجی جاغنے او (ماں جی جاگ رہی ہیں) رات کے نہ جانے کون سے پہر کی جاگتی ماں لوئی(بھیڑوں کی اون سے بنا ہوا کمبل) سے ہاتھ نکال کر آپ کے چہرے پر پهیرتے ہوئے کہتی کدوں نئ (کب کی) آپ ہاتھ کو پیار سے دباتے ہوئے دوبارہ لوئی کے اندر کر دیتے مبادا کہ کہیں ٹهنڈ نہ لگ جائے. بڑا معصومانہ سا انداز اپنا کر بےجی سے بھی اپنے صبر و استقامت کی دعا کے لیے کہتے .
ملک سے غدر کا زمانہ ختم ہوا شانتی ہوئی تو آپ نے اپنے بڑوں کے مشورے سے یہ شیخنیاں بیاہ کر دے دی اپنی اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبهانے کے بعد پهر بارگاہ ایزدی میں سربسجود ہوئے اور صلوۃ شکرانا ادا کی . بشک آپ پر یہ زمانہ بڑا صبر آزما تها لیکن آپ نے اپنے دامن کو یوں پاک رکها کہ ساری زندگی اپنے آپ پر فخر کرتے رہے. ایک بار مصنف نے باتوں باتوں میں آپ سے اس زمانے کا ذکر چهیڑا تو کوئی شوخی مارے بغیر کہنے لگے ایں آں اس میں میری بس یہی بہادری ہے کہ خدا کی ذات کو ہمیشہ یوں ہی دیکها جیسے وہ میرے سامنے ہے باقی کسی افعال قبیحہ سے بچانے کی قدرت اسی کے پاس ہے ،میں کیا اور میری مجال کیا.
فہم و فراست :-
آپ اپنی دور اندیشی اور سیاسی بصرت کی بنا پر برادری کے تمام سرکردہ لوگوں پر فائق تو تهے ہی لیکن چیرمین بن جانے سے اہل محلہ اور دیگر سرپنچ لوگوں پر بھی اپنی دانشوری کا سکہ جما چکے تهے یہی بات تهی کی تمام برادریاں آپ کے فیصلے کو مقدم سمجهتی تهیں. دوسری خوبی آپ کا غیر جانبدارانہ شخصیت تهی.
یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب زمیندار لوگ گهاس سوکھ جانے کے بعد ایک جگہ اکٹھا کر کے محفوظ کر دیتے ہیں مقامی زبان میں گهاس کو اس طرح سےرکهنے کو گهاڑا کہتے ہیں سیری اور گیائیں کے رستے میں رچے ایک گهاڑے کو کسی راہگیر نے آگ لگا دی ان دنوں میں رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جایا جاتا تھا اتفاق سے محلے کا ایک لڑکا گهاڑے سے کچھ ہی فاصلے پر رفع حاجت کے لیے بیٹھا تھا نشیبی سطح کی وجہ سے وہ گهاڑے کو تو نہ دیکھ سکا لیکن اپنی طرف بهاگتے ہوئے لوگوں کو آتے دیکھ کر جلد ہی اٹھ کھڑا ہوا عقب میں دیکھا تو گهاڑا جل رہا تھا لوگ آگ بجھانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی بولا وہ دیکھو ادھر سے یہ لڑکا آ رہا ہے ہو سکتا ہے اسی نے آگ لگائی ہو ایک اور آدمی بولا اس کی تلاشی لو آگر اس کے پاس سے ماچس ملی تو پھر یقیناً اسی نے آگ لگائی ہو گئی اتنی میں تیسرا آدمی بولا اگر اس نے لگائی نہیں تو پهر بهی اسے پتہ ہو گا کہ کس نے لگائی ہے گهاڑے والوں نے جب دیکھا کہ ماچس وغیرہ تو نہیں ملی تو اس بات پر ڈهٹ گے کہ تم اس کا نام بتاو جس نے آگ لگائی ہے لڑگے کے نہ کے جواب پر ایک آدمی نے اپنا دکھ مٹانے کے لیے یہ بھی کہا کہ تم فلاں کا نام لے لو. لیکن لڑکے نے پکا جواب دیا کہ میں نے آگ لگائی نہیں اور دوسرے کسی کا نام میں لیتا نہیں. قصہ مختصر یہ معاملہ چیرمین جی کے پاس گهاڑے کی مالکن نے اس وقت پیش کیا جب وہ بازار میں سے گزر رہے تھے مالکن نے یہ کہا کہ مانتی ہوں کہ اس نے آگ نہیں لگائی ہو گئی لیکن یہ گیائیں کے اس لڑکے کو ضرور جانتا ہو گا جس نے گزرتے ہوئے آگ لگا دی ہے چیرمین جی اس خاتون کی بات سن رہے تهے جس لڑکے سے بات اگلوانے کی تگ و دو کی جارہی تھی وہ بھی ساتھ ہی تها کہ اسی اثنا میں ایک لڑکے نے سڑک پر گهومتے مرغ کو پتهر مار دیا مرغا پهڑپهڑانے لگا تو لڑکا بهاگ گیا دفعتاً چیرمین جی نے پوچھا او نکیا دس اے کسنا منڈا سی (اوئے چهوٹے بتا یہ کس کا لڑکا تها). لڑکے نے منفی انداز میں گردن ہلاتے ہوئے..... کہا پتہ نہیں؛ لڑکے کا جواب پاتے ہی فوراً خاتون سے مخاطب ہو کر بولے تکیا ای اے اپنے محلے نہے مونڈے کی نہی پیشانا تو گیائیں نے مونڈیاں نا ناں پوچهنی ایں .(دیکها یہ اپنے محلے کے لڑکے کو نہیں جانتا اور تم گیائیں کے رہنے والے کا نام پوچهتی ہو) . آپ کے فیصلے کی صلاحیت کو دیکھ کر آس پاس کهڑے لوگ بھی انگشت بدنداں رہ گئے.
کٹیا جسے آج کل مہاجر کالونی کہتے ہیں وہاں جٹ اور مغل برادری کے درمیاں کسی وجہ سے جھگڑا ہو گیا جٹ اکثریت میں تهے انہوں نے مغلوں کو گهروں میں محصور کر کے رکھ دیا اب مغل نہ کہیں جا سکتے اور نہ ہی کوئی باہر سے آ سکتا . کسی دانا نے اپنی یہ روئیداد اسیری کاغذ پر لکھی اور ایک راہگیر کے ہاتھ چیرمین جی تک پہنچا دی . آپ نے صورتحال کا جائزہ لیا اور جاٹوں کے سرکردہ آدمی کے پاس جا کر اگلا لائحہ عمل جانا تو پتا چلا کے ان کے ارادے یہ ہیں کہ اگر ان (مغلوں) میں سے کوئی بھی باہر نکلا تو اسے گولی مار دیں گے. آپ نے بات سن کر کہا آپ بڑے ہیں ذرا سنجیدگی سے سوچیں کہ آپ کی محلہ داری ہے آپ کی راہیں آپ کی زمینیں سانجهی ہیں روز آپ کا مال بچها ان کی باڑی میں اور روز ان کے بچوں کا گیند بلا اپ کی باڑی میں آئے گا کیا آپ ہر روز ہی گولی ماریں گے پهر گولی کا انجام بھی دیکھیں باڑی کے ساتھ ساتھ حوالاتی کی دیکھ بھال بھی آپ کے روز مرہ معاملات میں شامل ہو جائے گی، آپ نے یہ باتیں اس انداز میں کی کے سننے والوں کے دل و دماغ پر اثر کر گئی انہی باتوں سے نہ صرف مغلوں پر سے محاصرہ ختم ہوا بلکہ رنجشیں بھی ختم ہو گئی اور آئندہ کے لیے بهائی چارے کی فضا قائم ہو گئی.
بذلہ سنجی :-
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بازار میں ایک نئی مسجد کی سنگ بنیاد رکهی جا رہی تهی اس لیے اپر سیری کے کچھ لوگوں نے جامع مسجد کے لیے ماہانہ چندا نہ دیا آپ نے ان لوگوں کو بلا کر وجہ پوچھی تو کہنے لگے ہم اپنی الگ مسجد بنا رہے ہیں اس لئے آپ کو چندا نہیں دیں گے ان کا جواب سن کر دهیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے فیر ساڑهی مسیتی نی ساکن بنان لغے او (یعنی ہماری مسجد کی سوتن بنانے لگے ہو).
زمانہ جب روپے پیسے کو پتهر کرنے لگا تو آپ نے بھی کچھ دیکهو دیکهی اور کچھ مجبوری کی بنا پر مکان نئے سرے سے تعمیر کرنے کی سوچی کچے مکان کو بشمار پرانی یادوں کے ساتھ مسمار کیا گیا نئے مکان کی بڑی مضبوط بنیادیں بهری گئی . اس وقت بجلی نہیں ہوتی تھی اور زیادہ روشنائی کے لیے پیٹرو مکس " جسے گیس کہا جاتا تھا" جلایا جاتا تھا مکان کی اندر سے بهرائی شروع تهی اتفاق سے پیٹرو مکس کا شیشہ نہیں تها روشنی دیکھ کر بیشمار پتنگے یلغار کر کے آتے اور اپنی جان نچھاور کر جاتے ان پتنگوں میں ایک پتنگا وہ بھی تها جسے ہماری بولی میں کالا بهونڈ کہا جاتا ہے یہ دوسرے پتنگوں کی بانسبت طاقتور تها جب بھی آتا خود تو جلتا لیکن ساتھ ہی جلتے ہوئے منٹیل کو بھی توڑ دیتا ، ایک گھنٹے میں جب دو تین منٹیل باندھنے پڑے تو چیرمین جی کی نظریں آنے جانے والے پتنگوں کو دیکهنے لگی اتنے میں کالا بهونڈ آیا ٹکر ماری اور منٹیل توڑ دیا اور خود بھی جل گیا آپ نے اسے جلتے دیکھا تو کہنے لگے تکو اس ویلے وی ہشنا سی کے گوں کهانے والیاں وی پروانہ بناں سی (دیکهو اس وقت نے بهی آنا تها کہ گندگی کهانے والوں نے بھی پروانہ بننا تها).
آپ کے ہم عصر ایک بزرگ صوفی بیرولی جی تهے ان پر اللہ نے کرم کیا کے وہ ایک فورڈ ویگن کے مالک بنے ان کی رشتہ داری گوجرانوالہ میں بھی تهی ان کو ملنے جانے لگے تو از راہ دوستی چیرمین جی سے بهی ساتھ چلنے کا اصرار کیا دونوں ایک دوسرے کی بات کب ٹالتے تهے خیر آج بهی نہ ٹالی اور ساتھ چلے گے. واپسی پر ابھی گوجرانوالہ چهاونی سے ہی نکلے تهے کہ ایکسیڈنٹ ہو گیا دونوں دوستوں کو خوب چوٹیں آئی لیکن آپ کے ناک کا زخم صوفی جی سے کچھ اضافی ہی تها محلے دار اور برادری دار آپ کی عیادت کو آتے تو ساتھ ہی گوجرانوالہ جانے کی وجہ پوچهتے ، آپ ناک پر کی ہوئی پٹی کو اوپر سرکاتے ہوئے کہتے یرا اساں کی دوستی پٹیا(یار ہمیں دوستی نے مارا).
کہتے ہیں سیری میں ایک لڑکی بیاہ کر آئی ہوئی تھی لیکن گھریلو ناچاقی کی وجہ سے میکے جا بیٹهی اب لڑکی والوں کا اصرار تھا کہ طلاق دے دیں لیکن لڑکا کہتا تھا کہ پہلے یہ وعدہ کریں کے لڑکی کہیں اور شادی نہیں کرے گی. لڑکی والوں کو یہ شرط معیوب سی لگتی اور وہ اس پر کوئی بات نہ کرتے . ادھر لڑکا اپنی ضد پر ڈٹا ہوا تھا. آخر لڑکی والوں کی گزارش پر آپ لڑکے والوں سے ملے اور کہنے لگے فرختی (طلاق کے لیے آپ یہ لفظ استعمال کرتے ہوتے تھے) دے دو. لڑکے نے پهر اپنا مطالبہ دہرایا تو آپ نے کہا یرا تو تے چهوڑہس ، اس نے پهر کہا نہیں یہ کہیں شادی کر لے گی . آپ نے بات سن کر کہا یرا تو چهوڑہس جے اس کدرے نکاح کیتا ناں تے فیر فرختی ہوئی جاسی. اب یہ بات لڑکی والوں کو ناگوار گزری تو بول اٹهے جی آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں. آپ نے ہاتھ کے اشارے سے مخاطب سے بیٹهنے کا کہا اور کہنے لگے میں نے اس لیے کہا کہ جیڑی کڑی سیری نہی ناں بسی او کدرے نہی بسی سکنی.
صلہ رحمی:-
بظاہر بہت ہی موٹے تگڑے نظر آنے والے اندر کس قدر نرم سا دل رکهتے تهے اس کا اندازہ عید قربان کے دنوں میں ہوتا . آپ ہر عید پر قربانی کرتے لیکن زبح کے وقت پاس کهڑے نہ ہوتے اور قصائی سے بھی یہی تلقین کرتے او ظالماں چهری تے چهپائی تے آن(بےدرد انسان چهری چهپا کر لاو).
آپ در پہ آئے گداگروں کو کبھی خالی ہاتھ نہ لٹاتے تهے کہیں بار ایسا ہوتا کہ اپنی جیب میں کچھ نہ ہوتا تو بیٹے جاوید سے کہتے یرا جے کج ہے تے انہاں کی دیاں . کہیں بار ایسا بهی ہوا کہ آپ کهانا کها رہے ہوتے تو محلے کا کوئی مرد یا عورت لسی مانگنے آپ کے گهر آ جاتا خاتونِ خانہ کہتیں وہ تو ختم ہو گئی ہے یہ آواز سنتے ہی اپنے آگے سے لسی کا گلاس "یہ گلاس سلور کا بنا ہوتا تها جسے کٹورا کہا جاتا تھا اور اس میں کم از کم سیر دو سیر لسی پڑتی تھی" اٹهاتے اور آنے والے کو دے دیتے پاس کهڑی آپا زمورت پوچهتی پہاپا ہن تساں کہس نال کهاسو بیٹی کے اس سوال پر اس کی دلجوئی کرتے ہوئے دانتوں کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے کہتے میں انہاں نال کهائی کینساں. آپ گوشت کے زیادہ حصے بنوا کر تقسیم کرنے کو کہتے کسی نے وجہ پوچھی تو آپ کہنے لگے تکو جتنیاں مونہووں وچ لغا جاسی اتنا ہی چنگا اے.
آپ کے بہنوئی اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ فاتحہ خوانی کے لیے مسلسل پندرہ بیس دن تک صف ماتم بچهائے رہے . آپ کے بیٹے نے ازراہ مزاح کہا کیا آپ پکے ہی ڈیرے لگا لیں گے . پرسوز آواز سے کہنے لگے یرا ہمشیرہ نے سریہے اپروں چادر اڈری گئی اے سوچیا کج تے اسنے درد ہولے کراں(یار ہمشیرہ کے سر سے چادر اڑ گئی ہے سوچا ہے کچھ تو اس کے دکھوں کو ہلکا کروں).
آپ انتہائی بندہ پرور شخصیت کے مالک تھے لیکن یہ راز آپ کے جانے کے بعد کهلا . آپ نے زندگی بهر کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا اور نہ ہی آپ کی زندگی میں ایسی کوئی نوبت آئی کہ آپ کو حصہ لینا پڑتا . آپ صلح جو قسم کے انسان تهے آپ ہی کی وجہ سے کٹیا والوں کی روزمرہ کی لڑائی یوں ختم ہوئی کہ باہم شیریں و شکر ہو گئے. اسی لیے آپ ہاتھ کی چار انگلیاں کهڑی کر کے کہتے ہوتے تھے میرے ہوتے ہوئے" یہ جو چار پاو کی سیری ہے ناں اس میں سے" کوئی ایک چھٹانک بهی نہیں نکال سکتا.
قد و قامت
آپ بہت نفیس شخصیت کے مالک تھے لیکن ظاہری ایسے کم ہی لگتے تھے اس کی وجہ آپ کا مردانہ رعب و دبدبہ تها اکثر لوگ آپ کے اسی دبدبے کے باعث کچھ کہنے سے گریزاں رہتے تھے. آپ تقریباً چھ فٹ سے کچھ زیادہ قد رکهتے تهے گندمی رنگ بهرا بهرا سا جسم وجاہت سے بهری آنکھیں آنکهوں میں لال ڈورے ابهرے ہوئے پیوٹے کہیں شادی یا پنچایت میں جاتے تو سفید قمیض شلوار کے ساتھ قدرے لمبی واسکٹ پہنتے سر پر جناح کیپ پاوں میں براؤن غرگابی اور ہاتھ میں عصا رکهتے گهر میں ہوتے تو قمیض کے ساتھ لنگی باندهتے اور سر پر پرنہ رکهتے . چلتے ہوئے آپ رانوں سے گھٹنوں تک کا حصہ اندر کی طرف گهومائے رکهتے اور پنڈلیوں سے پاوں تک کے حصے کو بلترتیب کهلا کرتے رہتے یوں چلتے ہوئے آپ کے پاؤں نسبتاً باہر کی طرف رہتے قدرے بڑے کان اور اتنی ہی بڑی ناک چہرے پر بزرگی کی جھریاں ہاتھوں کی انگلیوں میں قدرتی طور پر ایک دوسری سے خلاء جو جوڑنے پر بھی ایک دوسرے سے نہ جوڑتی ہاتھ مضبوط لیکن خم زدہ، ہاتھوں کی پشت پر کالے تلوں کے نشان، نہ ہونے کے برابر مونچھیں مٹهی بهر سفید ریش چوڑے شانے ابهرا ہوا سینہ بهاری پنڈلیاں پیروں کے چهترے ابهرے ہوئے، دانت کچھ تو گر چکے تھے جو باقی رہتے خوبصورت اور مضبوط (دانتوں کی مضبوطی کا ایک قصہ یوں ہے کہ ایک بار آپ گوشت کهائے جا رہے تھے اور ساتھ کہہ رہے تھے او مزا نہی، پوچھا کون سا. کہنے لگے کڑیاں زیادہ گالی شوڑیا تهوڑا جا سخت ہوناں ناں بہوں مزا اچهے آ. حالانکہ وہ گوشت قربانی کا تها اور صرف گهی میں بهنا گیا تها پهر بھی آپ کو زیادہ گلا ہوا لگتا تھا) سگریٹ نسوار اور حقہ کے دلدادہ . سگریٹ ہمیشہ آخری دو انگلیوں میں رکهتے اور کش لیتے وقت دائیں آنکھ بند کر لیتے، کبهی باتوں کا جواب صرف آں ہوں میں دیتے تو پتہ چل جاتا کہ نسوار کے مزے لیے جا رہے ہیں، حقے کے تمباکو میں گڑ کا استعمال بھی کرتے اور کہتے آگ بوری کی ہو تو مزا ہی کچھ اور ہے .
صبر و استقامت :-
آپ پر زندگی میں جہاں سکھ کی چهاں رہی ہے وہی غموں کے سائے بهی منڈلاتے رہے لیکن کبهی پائے اثبات میں لرزش نہیں آئی جہاں نعمتوں پر شاکر رہے وہی غموں پر صابر بهی رہے . آپ کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ تها کہ ایک ہی دن آپ کی دو پوتیاں اور ایک پوتا انڈین فائرنگ سے شہید ہو گئے یہ ایسا واقعہ تها جس پر چشم فلک بھی روے بنا نہ رہ سکی ایسا صدمہ تها جس سے پہاڑوں میں بھی شگاف پڑ گیا تھا لیکن آپ نے اپنے ایک شانے کے ساتھ بہو کا اور دوسرے کے ساتھ بیٹے کا سر لگا رکھا تھا آنکھیں بحر اشک بہا رہی تهی لیکن لبوں سے دونوں کو تسلیاں اور ہاتھوں سے تھپکیاں دے رہے تھے بیٹے کو سمجھانے کے لیے کہتے یرا صبر کر اللہ نی امانتاں سن اللہ واپس چائی کیندیاں ہن توں کیاں کرلائی کرلائی بے صوراں وچ شامل ہوناں آیں( یار صبر کر وہ اللہ کی امانتیں تهیں اللہ نے واپس لے لی ہیں تم رو رو کر کیوں بےصبروں میں نام لکھوا رہے ہو). آپ پر کیا بیتی اس کا کبھی اظہار نہیں کیا.
حب الوطنی :-
وطن سے محبت جزو ایمان ہے اور آپ میں یہ وصف با آتم درجہ موجود تھا. یہی وجہ تھی کہ آپ نے پینسٹھ اور اکہتر جیسے نامساعد حالات میں بھی سیری کو نہیں چھوڑا حالانکہ آپ کا مکان دفاعی لحاظ سے بالکل ہی غیر محفوظ تها پهر بھی آپ اسے چھوڑ کر کہیں نہیں گے جب کہ آپ کی آدھی سے زیادہ برادری میرپور مقیم ہو چکی تھی لیکن آپ کی ہجرت کے سامنے ہمیشہ حب الوطنی آتی رہی. آپ کبهی کبھی راہ چلتے رک کر کہتے ہوتے تهے اس جغے بڈی واری اٹی ٹلہ تے بلور کهیڈے ہن . "اس جگہ بہت بار گهلی ڈنڈا اور باہنٹے کهیلے ہیں " یا کسی جگہ کی طرف اشارہ کر کے کہتے سکولوں ہشنیاں ہتهے چهپی تے سرغٹ چهکنے ہونے ساں. کبھی کبھی یہ بھی بتا دیتے تهے کہ مقدے(ایک ہندو کا نام) کی بانڈ یہاں ہوتی تھی. یہ ساری باتیں یہ ظاہر کرتی تھیں کہ انہیں آج بھی سیری کا چپہ چپہ یاد ہے. پھر گھر کے پچھواڑے میں آبائی قبرستان تھا جہاں بہت سارے ایسے رشتے مدفن تهے جن کی قبور پر روزانہ حاضری یقینی بناتے تهے. آپ کو اگر بازار بھی جانا ہوتا تو پہلے بےجی کی قبر پر جاتے پنجوں کے بل بیٹھ کر یوں گڑگڑاتے جیسے کوئی چھوٹا بچہ میلے میں جانے کے لیے اصرار کر رہا ہو قبر پر ہاتھ پھیر کر آنکهوں کے ساتھ لگاتے اور پھر چل دیتے . آپ جہاں دنیا داری میں مصروف رہتے وہی اپنی سیری کی محبت میں بھی مگن رہتے. آپ نے ساری زندگی سیری کو پیار و محبت سے دیکھا ہر آنے جانے والے کے لیے اپنے گهر کے دروازے کهلے رکهے اتنے وسیع گهر کے سامنے چار دیواری تک نہ بنائی کہ کہیں آنے والے کے وقت کا ضیاع یا دقت کا سامنا نہ ہو. یہی وجہ تھی کہ آپ کے پاس آنے کے لیے کسی کو استیذان کی ضرورت نہیں پڑتی تھی.
وقت پر لگائے گزرتا رہا آج کل میں اور کل ہفتوں میں ڈهلتا گیا آخر وہ وقت آن پہنچا کہ نوشتہ تقدیر سامنے آ ہی گیا آپ کی حب الوطنی پر بیٹے کی محبت غالب آ گئی اور آپ کو رخت ہجرت باندهنے پڑے بہت ہی پیاری سیری ،لہلہاتے کهیت کهیلیاں اونچے نیچے ٹیبے بنے بل کهاتی ندیاں بڑی لمبی چوڑی بان بغیر فصیل کے گهر گهر سے ملحقہ قبرستان قبرستان سے وابستہ یادیں پرانی رسوئی رسوئی کے نیچے مال چوکهر کی بانڈ، گهر کے چار چوفیرے تاحد نظر پهیلی بستیاں بستیوں کے مکین مکینوں کی سنگتیں طیفے کا ٹهکدوارہ سوزوکیوں کا اڈہ رستے کا کنواں سب کچھ ہی پلک جھپکتے ہی چهوٹ گیا اور آپ میرپور چلے گے. آپ اہل خانہ کے ساتھ تهے تقریباً آدھی برادری پہلے ہی وہاں ماجود تهی سب کچھ ہونے کے باوجود بھی سیری کی کسک ہمیشہ آپ کے دل میں رہتی آپ پر یہ ہجر کے شب و روز کیا کیا قیامتیں ڈهاتے انہیں صرف کوئی محب الوطن ہی جان پاتا آپ آزاد فضاؤں کے عقاب تهے کب چاردیواری کی دنیا آپ کو بهاتی یوں ہی جب پرواز چهوٹی تو فالج کے ارضے نے دبوچ لیا بڑهاپا غالب آنے لگا تو بہادر شاہ ظفر کے ایام اسیری اور وطن پر لکهی نظمیں یاد آنے لگی آپ کے یہ درد وہی محسوس کرتا جو وطن کی محبت میں گرفتار ہوتا آزاد خیال لوگ کب ان الجھنوں میں پڑهتے. انہی ایام میں اگر کوئی سیری کی طرف سے آپ کے ملنے کو جاتا تو آپ اس بچے کا بهی پوچهتے جو آپ کے جانے سے ایک دن پہلے پیدا ہوا تها آپ کو سیری کے بوڑھوں کے تکیا کلام اور دوران گفتگو حرکات و سکنات بهی یاد تهی تبهی تو آپ پوچهتے حسین نسواری والا کسی کی بات سنتے ہوئے کہتا ہے ایں شاوہ ، کیا بٹ عزیز چلتے ہوئے اب بهی ہاتھوں کے اشارے کرتارہتا ہے، کیا چودھری نیامت اب بهی مہاڑا خیال اے کہتا ہے. کیا مشتاق کینٹهی والا یوں کہتا ہے او وچارا، کیا بالا شیخ اب بهی کہتا ہے او جی مہاڑا مطول اے. آپ اپنے ملاقاتی سے بالخصوص اپنے بھانجے قادری سے سیری کے حال احوال یوں پوچهتے جیسے کہیں کتاب لکهنے کا ارادہ رکهتے ہوں . آپ کو سیری پل پل یاد آتی لیکن ناجانے کون سی مجبوری کے تحت آپ کسی سے اظہار نہ کرتے.
موسم مکمل طور پر سرد ہو چکا تھا اس لیے آپ کے دن اور راتیں بس کمرے تک محدود ہو گے تهے کب سورج نکلا کب چهپ گیا گهر والوں کی کسی حرکت سے معلوم ہو پاتا تها جب کوئی کہہ دیتا پہاپا جی ناشتہ کر لو یا جب کوئی کہتا یہ گولی ڈاکٹر نے شام کو کهانے کا کہا تھا آپ جان لیتے کہ سورج کو رات کے اندھیروں نے نگل لیا ہے . بیس جنوری کی صبح کو دس بجے بہت ہی پیارے اور اکلوتے بیٹے کو پاس بٹهایا پیٹھ پر دست شفقت پهیرتے ہوئے ملتجانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے گویا ہوئے، یار..... کبھی بھی میں نے تجهے کسی آزمائش میں نہیں ڈالا کبھی تجھ سے کچھ کہا نہیں ہے ہمیشہ تیری ہی ضد کو مانتا رہا ہوں کبھی اپنی بات منوائی نہیں لیکن آج کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے ....... دوبارہ بیٹے کو دیکهتے ہوئے.....گلا کهنکارا ... پهر بکهرتے لفظوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی ...بیٹے کی ران پر ہاتھ رکها، سلسلہ کلام دوبارہ شروع کیا. یار بہت دنوں سے سیری یاد آ رہی ہے بہت سالوں سے بےجی کی قبر کی زیارت نہ کر سکا، آج موسم قدرے بہتر ہے مجهے نہلا لو کل سیری جانے کو جی چاہتا ہے. تو کل آپ کو نہلا لیں گے نا، بیٹا جو کافی دیر سے باپ کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تها دهیرے سے بولا. ..... ہاں ہاں کل پهر نہلا لینا، لیکن یار مجھے سیری ضرور لے جانا . بس یہی تجھ سے کہنا تها، بس آخری بار .....بس... آخری بار پھر کبهی بھی تجھے سیری چلنے کا نہ کہوں گا. ضرور پہاپا جی کل سیری چلیں گے. بیٹا بس عام سی خواہش سمجھ کر کل کی تیاری کا سوچ کر آج کے مشاغل میں مصروف ہو گیا کیا پتہ تھا کہ آپ اپنی بات کو عملی جامہ پہنانا جانتے ہیں.
آج کا سورج آپ کے علاوہ باقی سب کے لئے بہت جلد غروب ہوا آپ کو سیری سے ملنا تها سارے نظارے آپ کی آنکھوں کے سامنے ماضی کی فلم کی طرح چل رہے تھے راستے اپنے نشیب و فراز کے ساتھ اپنے منتظر لگتے تھے بان سے لے کر بےجی کی قبر تک کا سارا رستہ ساری راہیں راہوں کے ساتھ ساتھ گهر پهر اپنی بہن کا گهر پهر بہن اور بهانجیوں کا آپ کو دیکھ کر از راہ حیا شرمانا پهر بہن کا جهک کر آگے سر رکهنا سر دیکھ کر آپ کا ہاتھ یوں آگے بڑها جیسے کسی کے سر پر ہاتھ پهیرنے لگے ہیں ، بیٹا جو اتفاقاً دروازے کے آگے سے گزر رہا تھا آپ کا اٹها ہاتھ دیکھ کر پاس گیا پوچها پہاپا جی آپ نے مجھے بلایا کہنے لگے نہیں. ...تو پهر ہاتھ کس لیا اٹهایا تها ؟ او یرا فاطمہ نے سرا اپر ہتھ پهیرن لغا ساں . پہاپا جی وہاں کل چلیں گے ..ایں ... بیٹے کی بات پر کہتے ہوئے شرما سے گے. پتہ چل گیا کہ ابهی دہلی دور است.
اکیس جنوری صبح سے ہی آسمان رو رہا تھا یا بادل برس رہے تھے بیٹا حسب معمول بستر سے اٹها باہر دیکها برستے بادلوں کو دیکھ کر سوچا اچها کیا تها جو کل پہاپا جی کو نہلا لیا تها ورنہ آج تو سردی بہت ہے. اپنی بیداری کی خبر دینے پہاپا جی کے کمرے میں داخل ہوا تو آپ کو اپنا ہی منتظر پایا . صحت کا پوچها تو جواب پایا .... سیری، پیار سے مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا واہ کیا ہی بات ہے آج تو صحت کے جواب میں سیری کہہ رہے ہیں ! چلو مجهے تیار ہو لینے دیں پهر چلتے ہیں. آپ نے جاتے بیٹے کی پیٹھ دیکهتے ہوئے جلدی آنے کا کہنے لگے لیکن زبان بیوفائی کر گئی.
بیٹے نے شاید تیاری میں کچھ زیادہ ہی وقت لگا دیا کہ جب واپس لوٹا تو پیٹھ پر پهیرنے والے دست شفقت چارپائی پر بےجان پڑے تهے وہ لب جو کچھ کہنے کے لیے جنبش کرنے لگے تهے اب خزاں زدہ پتوں کی طرح سوکھ چکے تهے بس آنکھیں تهی جو سیری دیکهنے کی حسرت میں اب بھی نیم واہ تهیں. آپ کی یہ حالت دیکھ کر بیٹا گزشتہ کل کے سارے رموز و اوقاف سمجھ گیا اپنے وعدے کے مطابق آج پھر نہلایا اور سب کو اطلاع کر دی کے پہاپا جی سیری جانے کے لیے تیار ہو گئے ہیں.
سیری کے شیدائی سیری پہنچے وہی استقبال ہوا جو کسی راجا کا گاوں کی آمد پر کیا جاتا ہے لیکن صد افسوس کہ راجا ہاتھ ہلا کر جواب نہ دے رہا تھا بس خاموش دیدوں سے ہی سیری کی رونقیں دیکھ رہے تها.
ماں کے چرنوں سے لیپٹنے کی حسرت پوری ہوئی اور وہ قبرستان جہاں دن میں تین چار مرتبہ جاتے تهے صدیوں کے لیے مسکن بنا لیا. خزاں زدہ پتے لوگوں کے قدموں سے کچھ ہی دیر کڑ کڑائے اور پهر بهوسے کی طرح بیٹھ گے . آپ نے نہ جانے کتنے ارمان دل میں بسا رکهے ہوں گے اس قبرستان کے متعلق لیکن اب قبرستان میں بڑهی خود رو جھاڑیاں گرے پتے جگہ جگہ پر اگی گهاس درختوں کی لٹکتی ٹہنیاں اکهڑا پلستر بترتیب پڑی ہوئی مٹی آنے جانے والوں کو بس اتنا ہی سندیس دیتی ہیں ...... برسوں سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گهر کی فضا. .......!