گلزیب انجم
محفلین
ناز برادرز
تحریر:- گل زیب انجم زیب
سیری کے متعلق آج تک میں جان نہ سکا کہ اس کی خوبصورتی کا راز کیا ہے کیا یہ کھیت کھلیان اس کا حسن ہیں یا سیری بان میں ملنے والے بل کھاتے ندیاں نالے اس کے حسن کا راز ہیں، مشرق مغرب ، شمالاً جنوباً آتی جاتی سڑکیں کھیتوں کے بیچوں بیچ گزرتی پگڈنڈیاں اس کے دامن پر کڑھی پھول کاریوں کا سماں پیدا کرتی ہیں یا پھر اس سیری میں بسنے والے لوگ اس کی خوبصورتی کا سبب بنتے ہیں ۔ خیر یہ وہ سوال ہے جس کا جواب شاید کوئی بھی نہ دے سکے۔ البتہ یوں کہنا آسان ہو گا کہ یہ سب مل کر ہی سیری کی خوبصورتی کے موجبات بنتے ہیں اگر ان میں سے کوئی ایک موجب بھی مِنہا کر دیا جائے تو سیری کا حسن ماند پڑ سکتا ہے ۔ اللہ اس حسن کے سارے ہی موجبات سلامت رکھے کبھی وہ وقت نہ آئے کہ اس میں سے کوئی ایک موجب بھی منہا ہو جائے۔
وسط سیری بازار میں جہاں کبھی ملک سلیم کا ہوٹل ہوتا تھا ہوٹل کیا تھا بس چائے کا ایک ڈھابہ تھا جس میں گنتی کے چار بینچ نما ٹیبل ہوتے تھے اور ایک ایسا ہی ٹیبل باہر برآمدے میں ہوا کرتا تھا پانی کے لیے دو مَٹ تھے جن کو ملک سلیم کی بے جی(والدہ) مہینے میں دو بار صاف کرتیں تھیں ان کے اوپر پہلے پہل لکڑی کے بنے ڈھکن ہوتے تھے جب وہ ٹوٹ گئے تو اس وقت دو ٹین کے پترے رکھنے شروع کر دیے ۔ پانی پینے کے لیے تقریباً تین سلور کے بڑے لمبے سے گلاس ہوتے تھے اگر ان میں سے ایک بھی فل بھرا ہوتا تو دو تین آدمی کی پیاس بجھانے کے لیے کافی ہوتا تھا ۔ ان گلاسوں کی خستہ حالی کا بھی یہ عالم تھا کہ جب تک بے جی سجی سے نہ مانجھتی تو ہاتھ لگانے کو دل نہیں کرتا تھا۔ گلاسوں کی قلت کی بنا پر کہیں بار پانی پینے والوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہو جاتی یہی وجہ تھی کہ ملک سلیم چائے کی چینک اور کپ تو دوسری دکانوں پر چھوڑ آتا تھا لیکن گلاس نہیں چھوڑتا تھا ۔ سلیم چائے کے برتن بھی دوسرے چائے والوں سے ڈیفرنٹ رکھتا تھا کہ کہیں مکس ہی نہ ہو جائیں اس کی چینکوں کے ساتھ اکثر ایک تار لپیٹی ہوتی تھی جو چینک کے ڈھکنے کا بندھن چینک سے جوڑے رکھتی تھی ۔ سلیم چائے کے علاوہ انڈہ مٹھائی بھی بنایا کرتا تھا جس میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔ دراصل یہ زیادہ تر گھریلو اشیاء استعمال کرتا تھا جیسا کہ چائے کے لیے دودھ گھر سے لاتا تھا انڈہ مٹھائی یہ ہفتے میں ایک بار ہفتے بھر کے لیے بنا لیتا تھا کیوں کے دیسی دو مرغیوں کے ہفتے میں ہی درجن انڈے بنتے تھے جو یہ لا کر مٹھائی میں ڈال دیتا تھا ۔ پانی کی ملاوٹ کے بغیر کا دودھ اچھی چائے اور دیسی انڈے ذائقہ دار مٹھائی بناتے تھے ۔ اس کے علاوہ سلیم سگریٹ اور ماچس بھی رکھتا تھا لیکن صرف تین برانڈ کے کیوں کہ وہ وہی سگریٹ رکھتا تھا جو ماسٹر اقبال ماسٹر اعظم اور وہ جو خود پیتا تھا اس لیے اس کے مٹھائی والے شو کیس میں ہی مارون کےٹو فلٹر اور ایمبیسی فلٹر سگریٹ اور ماچس پڑے ہوتے تھے۔
سلیم کا ہوٹل سلیم نے خود کم اور بے جی نے زیادہ چلایا یہ وہ ہوٹل تھا جس میں نہ بلب نہ پنکھا تھا دن کے اجالے میں بھی اندر اندھیرا ہی رہتا تھا کبھی کبھی دیواروں کی کچی مٹی کے گرنے کی آواز آتی یا پھر ساون میں سوندھی مٹی کی باس آتی تھی ۔ مصنف یہ کہنے سے قاصر ہے کہ ماسٹر صاحبان جو شمع جلانے کی تعلیم دیتے تھے وہ خود اس اندھیرے کو کیوں پسند کرتے تھے۔ سلیم کی بے جی نے دنیا سے کیا پردہ کیا کہ ہوٹل ہی بند ہو گیا ۔ آج کل اس جگہ پکی سی دکان ہے لیکن ہوٹل کے بجائے منیاری ہے۔
ملک سلیم جی کے ہوٹل کے سامنے ایک دکان کی جگہ ابھی تک خالی پڑی ہے جہاں سے خاندان مغلیہ کے آنے جانے کا راستہ یے اس راستے کے ساتھ ہی ایک دکان چودھری ناظم کی تھی اس دکان کو آپ کوئی ایک نام نہیں دے سکتے کیوں کہ یہ دکان موسموں کی طرح بدلتی رہتی تھی ۔ یہاں پکوائی والی دیگیں اور پلیٹیں بھی دیکھی ییں تو شامیانے اور کناتیں بھی دیکھے ہیں کبھی یہاں ناز کراکری اور ناز فرنیچر اسٹور تو کبھی ایک پھٹے پر سبزی فروٹس بھی لگے دیکھے ہیں۔ اس دکان میں ایک ٹریکٹر بھی کھڑا پایا تو کبھی یاماہا موٹر سائیکل کا منی شو روم بھی دیکھنے کو ملا ہے ۔ یہ سب کچھ کیوں ہوتا تھا اس کی وجہ ناظم کی وہ سوچ تھی جس کا نیتجہ سم تھینگ ڈیفرنٹ تھا ۔ ناظم نے بزنس میں بہت چھوٹی عمر میں قدم رکھا بلکہ اس سے بھی پہلے اس نے ٹیلرنگ میں طبع آزمائی کی جو کچھ خاص راس نہ آئی تو چھوڑ کر بزنس لائن میں آ گیا ۔ اس اثناء میں وہ سعودی عرب بھی آتا جاتا رہا لیکن چونکہ طبعیت میں کچھ کر گزرنے کی جستجو رہتی تھی اس لیے وہ کہیں ایک ہی جگہ ٹک نہیں سکا ۔ ایک بار اس کی دکان کے سامنے سے گزر ہوا تو دیکھا کہ دونوں بھائی( محمود اور ناظم) آئس کریم والی مشین ایڈجسٹ کر رہے تھے ۔ سرسری سی علیک سلیک کے بعد میں ایک راہی کے طور پر گزر گیا لیکن مشین کی ایڈجسٹنگ کرتے آج بھی دونوں کل کی طرح نگاہوں میں گھوم رہے ہیں ۔
ناظم وغیرہ چار بھائی تھے بڑے بھائی محمود کے علاوہ تینوں ناز برادرز سے پہچانے جاتے تھے ۔ یوں تو چاروں ہی بزنس مائینڈڈ تھے لیکن محمود سیری میں کوئی کاروبار کرنے کے بجائے کوٹلی ورکشاپ کرتا رہا تاہم ناظم ، مسعود اور بابر سیری میں ہی دکانیں کرتے رہے ۔ ناز فرنیچر، ناز مووی میکر اور ناز ساونڈ سسٹم انہی تینوں بھائیوں سے مشہور تھے۔ حالات میں تغیر آیا تو آہستہ آہستہ تینوں بھائی پردیس سدھار گئے ۔ لیکن اپنی یادیں سیری میں چھوڑ گے ۔ ان کی یادیں کسی نہ کسی نکر کونے سے ہوا کے جھونکے کی طرح نکل ہی آتی۔ کتنی دیواریں ہیں جو ان کے ناموں سے متعارف کرا رہی تھی۔
ناظم اپنے بھائیوں میں سے کچھ مختلف تھا اس کے اندر اگر کاروباری دماغ تھا تو ایک ہمدرد قسم کا دل بھی تھا ۔ بھلے ہمدردی پر بزنس سبقت لے جاتا تھا لیکن ہمدردی پھر بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی تھی ۔ وہ بظاہر مطلوب پنکی کے ساتھ ڈرافٹ بورڈ کھیل رہا ہوتا لیکن اس کا دماغ ان گھروں کی گردش کر رہا ہوتا جہاں فاقے ہمہ وقت تاڑ میں ہوتے تھے ۔ وہ انہی گھروں کے متعلق سوچتے ہوئے شیر کی ڈبل گاٹ رکھنے میں دیر کر دیتا تو مطلوب ہاتھ کو ہلاتے ہوئے تھوڑا جھکتے ہوئے کہتا جناب اے شیر اے کدر پھیرنے او گاٹ رکھو جے اغلی چال چلاں ۔ تب ناظم گول گول آنکھیں فوکس کرتے ہوئے کہتا نہ جی اسطرح نہ کرسو ۔ پھر مطلوب قسم کر لیتا تو اسے گاٹ ڈبل کرنی پڑ جاتی۔ اس کی ایسی سوچوں کا ایک وقت میں صرف کسی ایک دوست کو پتہ ہوتا تھا۔ یہ اس کی خوبی تھی کہ سینکڑوں دوست رکھنے کے باوجود گہرائی کی باتیں کسی ایک تک ہی محدود رکھتا تھا ۔ اس وقت اس کا ہمراز دوست قادری بٹ تھا جس سے ناظم اپنی نجی معاملات شئیر کیا کرتا تھا ۔ ایک دن کہنے لگا قادری صاحب ایک گھر ایسا ہے جہاں کھانے والے زیادہ ہیں لیکن کھانا کم ہے میں اگر ایسے ہی کچھ ان کو دوں گا تو یہ بھی عزتِ نفس مجروح کرنے کے مترادف ہے کیوں نہ ان کے ساتھ کچھ ایسی ڈیلینگ کی جائے کے ان کی سفید پوشی کا بھرم بھی رہ جائے اور میرا کچھ کام بھی ہو جائے انہوں نے پوچھا وہ ایسا کیا کام ہو سکتا ہے ۔ کہنے لگا میں ان کو ریپیرنگ کے لیے ایک دو شامیانے دونگا اور اس بہانے سے ان کو اجرت زیادہ دوں گا ۔ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اور گھر میں کچھ دال دلیا بھی آ جائے گا ۔ بعد میں ان دونوں نے مل کر وہاں بات بھی کی لیکن سفید پوشوں نے اپنا ہی بھرم رکھتے ہوئے شکریے کے ساتھ معذرت کر لی اور سخاوت کی حد کرتے ہوئے ان دونوں کے اس جذبہ ایثار کو سراہتے ہوئے بے شمار دعاوں سے نواز دیا۔
ناظم کے متعلق شاید یہ لکھنا بہتر رہے گا کہ وہ اپنے اس ناظم سے بہت مخلتف تھا جو اس کا ظاہری تھا ۔ سگریٹ پیتے رہنا بازار میں دکانداری زبان کا استعمال کرنا لیں دین کے سلسلے میں کرختی برت لینا سارا فارغ وقت لڈو اور ڈرافٹ بورڈ کی کھیل میں گزار دینے والے ناظم کے بارے میں شاید یہ کوئی کم ہی جانتا ہو گا کہ دورود شریف اس کی تنہائی کا واحد وظیفہ تھا وہ حدیث مبارکہ باقاعدگی سے سننے کے لیے اپنے دوست کے پاس اس وقت جاتا جب دنیا دن بھر کی تھکن دور کرنے کے لیے بستروں میں دبک چکی ہوتی ۔ یہ ایک ایسا اس کی زندگی کا پہلو تھا جس سے شاید اس کی ماں بھی واقف نہ ہو ۔ وہ دینی مسئلے مسائل اتنی دلچسپی سے سنتا جیسا کہ کہیں فاضل کا امتحان پاس کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ دکان کی طرح اس کے دوست بھی بدلتے رہے جب البشیر میڈیکل کمپلیکس کی محفلیں چھوٹیں تو اس نے ماسٹر خالد کے ساتھ بیٹھنا شروع کر دیا لیکن حسبِ عادت وہ رات کا ہی چناو کرتا تھا ۔
ناظم کی محفلیں ہمیشہ اہل علم اور سنجیدہ لوگوں سے رہی ہیں جن میں کہیں خطیب نما لوگ بھی تھے لیکن وہ سب اسے زوجیت کے مسائل نہ سمجھا سکے۔ ناظم نے ازواج میں ہیٹرک کر رکھی تھی لیکن یہ بندھن نبھانے میں وہ بارہویں کھلاڑی کی طرح ناکام ہی رہا ۔ اس سلسلے میں وہ حق زوجیت فرائض زوجیت بھول بھلا کر صرف ایک اصول فرمانبرداری کی طرف ہی مائل رہا جو اس کے باقی اوصاف حمیدہ کو اجاگر کرنے کی راہ میں حائل رہا ۔ جب کہ وہ شخص تھا تو کمال کا ۔
اچھی سوچیں نیک خیالات ہمدردانہ جذبات اس کی فطرت ثانیہ کی حثیت رکھتے تھے جن میں اکثر وہ مصروف رہتا تھا تھا ۔ وہ حسب عادت سیری کی دکان کو سپرد قفل کر کے سعودیہ چلا گیا لیکن سیری کے وہ لوگ جو مصنف غلام عباس کے اردو مضمون "اوور کوٹ " کی طرح کی زندگی گزار رہے تھے اکثر آنکھوں کے سامنے گھومتے رہتے تھے ۔ ایک دن کچھ سوچتے ہوئے اپنے ہی محلے کے ایک کمسن نوجوان نوید کشمیری سے بات کرنے لگا کہ ایک مولانا صاحب ہیں جن کی موٹر بائیک بہت پرانی ہو چکی ہے اور پرانی ہونے کی وجہ سے اکثر راہ میں کھڑی ہو کر خستہ حال کر دیتی ہے اگر ہم دو تین دوست مل کر ایک بائیک ان کو خرید دیں تو وہ آسانی سے کہیں آ جا سکیں گے ۔ اس بات پر نوید سمیت ایک دو دوستوں نے اس کے جذبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کچھ ریال وہاں سے جمع کر کے بھیجے جن سے مولانا نے بائیک خرید لی ۔ ناظم کی اس ہمدردی نے آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والے محاورے کو غلط کر دکھایا اس کے اس فعل سے معلوم ہوا کہ سیری سے دور رہ کر بھی سیری کو دل و دماغ میں سموئے ہوئے تھا لیکن رہتا ان لوگوں کی طرح تھا جو محبت کا اظہار کرنا بھی عیب سمجھتے ییں ۔
وہ جری شخصیت کا مالک تھا لیکن اولاد کی محبت اس پر بھی غالب آ جاتی تھی وہ اکثر تنہایوں میں ناراض شریک حیات سے سمجھوتے کی سوچتا لیکن کچھ ایسی باتیں آڑے آ جاتی جو مردانگی کے نام پر پلنے والے سانپ کو بیدار کر دیتیں ۔ وہ دن رات ان بچوں سے ملنے کی راہیں ہموار کرتا جو ننھیال میں پل رہے تھے وہ جوں ہی رسم و رواج کے لبادے کو سلجھانے کی کوشش کرتا رات کے آخر پہر پھر الجھ کر رہ جاتا، سکون کی تلاش میں خالق کائنات کی بارگاہ میں حاضری دیتا لیکن جب سجدے میں جاتا تو وہی تمام سوچیں شکلیں بن کر مصلے پر آ جاتیں ۔ یہی کشمکش اب دن رات اس کی زندگی کا حصہ بن کر رہ گئی ۔ ابھی چھ سات ماہ ہی ہوئے تھے چھٹی کاٹ کر گے ہوئے کہ پھر سے گھر آنے کا پروگرام بنا لیا پروگرام کیا بنایا بلکہ اسی ہفتے میں آ بھی گیا ۔ سیری جب پہنچا تو ابھی تک سکول لگے ہوئے تھے اس سکول میں گیا جہاں بچی پڑھتی تھی ٹیچر سے چھٹی لے کر بچی کو ساتھ لے لیا ۔ سکول سے لے کر گھر تک بچی سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتا جب وہ کوئی بات کرتی تو ہنستے ہوئے کہتا ایں ایں تے فیر۔ بیٹی کی ملاقات سے جیسے چہرے پر بہار سی آ گئی ہو۔ ناظم بچی کی ہیر پونی سے کھیلتا کبھی کہتا ایں آں میں نے بھی لائی ہیں نا۔ پتہ نہیں کیا بات تھی کہ ناظم نصف سال کے فراق کو لمحوں میں بھلانا چاہتا تھا بیٹی کو جی بھر کر دیکھتا پھر سوہنی تراشی ہوئی مونچھوں پر انگلی پھیرتا۔ آدھ موہی سی آنکھوں سے مسعود کو دیکھتا پھر مسکراتے ہوئے بیٹی کا سر پکڑ کر سینے سے لگا لیتا۔
یوں تو ناظم کی ساری زندگی ہی پردیس آتے جاتے گزری تھی لیکن اس بار اس میں کچھ ڈیفرنٹ تھا ۔ وہ بازار سے گزرتے ہوئے گاڑی روک روک کر سب سے ملتا ۔ سر پر وہی جالی دار ٹوپی سفید کپڑے کالے بوٹ پہنے ہوئے مسکراتے مسکراتے سب سے ہی مصافحہ اور معانقہ کرتا رہا ۔ مطلوب پنکی نے ملتے ہوئے کہا کہروں(گھروں) ہوئی تے بہلے مڑسو بازی وی لانی اے۔ ناظم ہنستے ہوئے کہتا حالاں پہچن تے دیو۔ گھر پہنچا تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا ریفریشمنٹ کے بعد کھانا کھایا دوران کھانا معمول کی باتیں ہی ہوتی رہی ۔ کھانے کے بعد چائے سگریٹ کا دور چلا پھر چند دوستوں سے ملنے چلا گیا ۔ شام گئے واپس آیا تو عشاء کی نماز کے لیے مسجد چلا گیا ۔ گھر والے اپنی اپنی باتوں میں مصروف رہے۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد سو گے ۔ کیوں کہ ناظم کی اس عادت سے وہ بخوبی واقف تھے کہ رات دیر سے آتا ہے۔ ناظم عشاء کی ادائیگی کے لیے گیا تھا رات واپس لوٹا کہ نہیں گھر والے اس بات سے لاعلم رہے ۔ سب رشتے ہی اللہ تعالی کی نعمت ہوتے ہیں لیکن کسی رشتے کے ساتھ ماسوائے بیوی کے شریک حیات نہیں لکھا اور پڑھا جاتا ۔ اگر شریک حیات گھر ہوتی تو لازماً ناظم کی غیر موجودگی کا نوٹس لیا جاتا کبھی وہ ساس کے کمرے میں جا کر دیکھتی یا دیور کے کمرے میں اس کو دیکھنے جاتی لیکن ایسا کوئی نہ تھا جو رات کو اٹھ کر شوق سے نہ سہی شک اور غصے کی بنا پر ہی دیکھتا ۔ بس گھر والوں نے تو اس کے کمرے میں چارپائی بچھا دی تھی کہ جب آئے گا سو جائے گا کس کو خبر تھی کہ آج کی بچھائی ہوئی چارپائی رات بھر خالی رہے گی ۔
صبح ہو گئی نمازی باجماعت نماز ادا کر کے گھروں کو جا چکے تو ماں کو یاد آیا کہ ناظم کمرے میں نہیں ہے شاید مسجد میں ہو ۔ کافی دیر بعد اسی کے بیٹے سے کہا جاو دیکھو تمہارا ابا کیوں نہیں آیا جب کے اب تو دن بھی چڑھ آیا ہے بیٹا مسجد میں دیکھنے گیا تو نہ پا کر واپس دادا ابو کی قبر کے پاس سے ہو کر آنے لگا تو کیا دیکھتا ہے قبر کے پاس ہی ابا بھی لیٹا ہوا ہے ایک دو آوازیں دی جب جواب نہ ملا تو بھاگتا ہوا گھر آیا اور کہنے لگا ابا دادا ابو کی قبر کے پاس سوئے ہوئے ہیں ۔ گھر والے سنتے ہی بھاگ کر وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ کچھ کر گزرنے والا واقعی کچھ ڈیفرنٹ کر گیا یے ۔ عشاء کی نماز کو جانے والا پوری رات ہی باپ کے پہلو میں لیٹ کر گزار گیا وہی جالی دار ٹوپی وہی سفید کپڑے سبھی کچھ وہی تو تھا لیکن ناظم نہ تھا۔
تحریر:- گل زیب انجم زیب
سیری کے متعلق آج تک میں جان نہ سکا کہ اس کی خوبصورتی کا راز کیا ہے کیا یہ کھیت کھلیان اس کا حسن ہیں یا سیری بان میں ملنے والے بل کھاتے ندیاں نالے اس کے حسن کا راز ہیں، مشرق مغرب ، شمالاً جنوباً آتی جاتی سڑکیں کھیتوں کے بیچوں بیچ گزرتی پگڈنڈیاں اس کے دامن پر کڑھی پھول کاریوں کا سماں پیدا کرتی ہیں یا پھر اس سیری میں بسنے والے لوگ اس کی خوبصورتی کا سبب بنتے ہیں ۔ خیر یہ وہ سوال ہے جس کا جواب شاید کوئی بھی نہ دے سکے۔ البتہ یوں کہنا آسان ہو گا کہ یہ سب مل کر ہی سیری کی خوبصورتی کے موجبات بنتے ہیں اگر ان میں سے کوئی ایک موجب بھی مِنہا کر دیا جائے تو سیری کا حسن ماند پڑ سکتا ہے ۔ اللہ اس حسن کے سارے ہی موجبات سلامت رکھے کبھی وہ وقت نہ آئے کہ اس میں سے کوئی ایک موجب بھی منہا ہو جائے۔
وسط سیری بازار میں جہاں کبھی ملک سلیم کا ہوٹل ہوتا تھا ہوٹل کیا تھا بس چائے کا ایک ڈھابہ تھا جس میں گنتی کے چار بینچ نما ٹیبل ہوتے تھے اور ایک ایسا ہی ٹیبل باہر برآمدے میں ہوا کرتا تھا پانی کے لیے دو مَٹ تھے جن کو ملک سلیم کی بے جی(والدہ) مہینے میں دو بار صاف کرتیں تھیں ان کے اوپر پہلے پہل لکڑی کے بنے ڈھکن ہوتے تھے جب وہ ٹوٹ گئے تو اس وقت دو ٹین کے پترے رکھنے شروع کر دیے ۔ پانی پینے کے لیے تقریباً تین سلور کے بڑے لمبے سے گلاس ہوتے تھے اگر ان میں سے ایک بھی فل بھرا ہوتا تو دو تین آدمی کی پیاس بجھانے کے لیے کافی ہوتا تھا ۔ ان گلاسوں کی خستہ حالی کا بھی یہ عالم تھا کہ جب تک بے جی سجی سے نہ مانجھتی تو ہاتھ لگانے کو دل نہیں کرتا تھا۔ گلاسوں کی قلت کی بنا پر کہیں بار پانی پینے والوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہو جاتی یہی وجہ تھی کہ ملک سلیم چائے کی چینک اور کپ تو دوسری دکانوں پر چھوڑ آتا تھا لیکن گلاس نہیں چھوڑتا تھا ۔ سلیم چائے کے برتن بھی دوسرے چائے والوں سے ڈیفرنٹ رکھتا تھا کہ کہیں مکس ہی نہ ہو جائیں اس کی چینکوں کے ساتھ اکثر ایک تار لپیٹی ہوتی تھی جو چینک کے ڈھکنے کا بندھن چینک سے جوڑے رکھتی تھی ۔ سلیم چائے کے علاوہ انڈہ مٹھائی بھی بنایا کرتا تھا جس میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔ دراصل یہ زیادہ تر گھریلو اشیاء استعمال کرتا تھا جیسا کہ چائے کے لیے دودھ گھر سے لاتا تھا انڈہ مٹھائی یہ ہفتے میں ایک بار ہفتے بھر کے لیے بنا لیتا تھا کیوں کے دیسی دو مرغیوں کے ہفتے میں ہی درجن انڈے بنتے تھے جو یہ لا کر مٹھائی میں ڈال دیتا تھا ۔ پانی کی ملاوٹ کے بغیر کا دودھ اچھی چائے اور دیسی انڈے ذائقہ دار مٹھائی بناتے تھے ۔ اس کے علاوہ سلیم سگریٹ اور ماچس بھی رکھتا تھا لیکن صرف تین برانڈ کے کیوں کہ وہ وہی سگریٹ رکھتا تھا جو ماسٹر اقبال ماسٹر اعظم اور وہ جو خود پیتا تھا اس لیے اس کے مٹھائی والے شو کیس میں ہی مارون کےٹو فلٹر اور ایمبیسی فلٹر سگریٹ اور ماچس پڑے ہوتے تھے۔
سلیم کا ہوٹل سلیم نے خود کم اور بے جی نے زیادہ چلایا یہ وہ ہوٹل تھا جس میں نہ بلب نہ پنکھا تھا دن کے اجالے میں بھی اندر اندھیرا ہی رہتا تھا کبھی کبھی دیواروں کی کچی مٹی کے گرنے کی آواز آتی یا پھر ساون میں سوندھی مٹی کی باس آتی تھی ۔ مصنف یہ کہنے سے قاصر ہے کہ ماسٹر صاحبان جو شمع جلانے کی تعلیم دیتے تھے وہ خود اس اندھیرے کو کیوں پسند کرتے تھے۔ سلیم کی بے جی نے دنیا سے کیا پردہ کیا کہ ہوٹل ہی بند ہو گیا ۔ آج کل اس جگہ پکی سی دکان ہے لیکن ہوٹل کے بجائے منیاری ہے۔
ملک سلیم جی کے ہوٹل کے سامنے ایک دکان کی جگہ ابھی تک خالی پڑی ہے جہاں سے خاندان مغلیہ کے آنے جانے کا راستہ یے اس راستے کے ساتھ ہی ایک دکان چودھری ناظم کی تھی اس دکان کو آپ کوئی ایک نام نہیں دے سکتے کیوں کہ یہ دکان موسموں کی طرح بدلتی رہتی تھی ۔ یہاں پکوائی والی دیگیں اور پلیٹیں بھی دیکھی ییں تو شامیانے اور کناتیں بھی دیکھے ہیں کبھی یہاں ناز کراکری اور ناز فرنیچر اسٹور تو کبھی ایک پھٹے پر سبزی فروٹس بھی لگے دیکھے ہیں۔ اس دکان میں ایک ٹریکٹر بھی کھڑا پایا تو کبھی یاماہا موٹر سائیکل کا منی شو روم بھی دیکھنے کو ملا ہے ۔ یہ سب کچھ کیوں ہوتا تھا اس کی وجہ ناظم کی وہ سوچ تھی جس کا نیتجہ سم تھینگ ڈیفرنٹ تھا ۔ ناظم نے بزنس میں بہت چھوٹی عمر میں قدم رکھا بلکہ اس سے بھی پہلے اس نے ٹیلرنگ میں طبع آزمائی کی جو کچھ خاص راس نہ آئی تو چھوڑ کر بزنس لائن میں آ گیا ۔ اس اثناء میں وہ سعودی عرب بھی آتا جاتا رہا لیکن چونکہ طبعیت میں کچھ کر گزرنے کی جستجو رہتی تھی اس لیے وہ کہیں ایک ہی جگہ ٹک نہیں سکا ۔ ایک بار اس کی دکان کے سامنے سے گزر ہوا تو دیکھا کہ دونوں بھائی( محمود اور ناظم) آئس کریم والی مشین ایڈجسٹ کر رہے تھے ۔ سرسری سی علیک سلیک کے بعد میں ایک راہی کے طور پر گزر گیا لیکن مشین کی ایڈجسٹنگ کرتے آج بھی دونوں کل کی طرح نگاہوں میں گھوم رہے ہیں ۔
ناظم وغیرہ چار بھائی تھے بڑے بھائی محمود کے علاوہ تینوں ناز برادرز سے پہچانے جاتے تھے ۔ یوں تو چاروں ہی بزنس مائینڈڈ تھے لیکن محمود سیری میں کوئی کاروبار کرنے کے بجائے کوٹلی ورکشاپ کرتا رہا تاہم ناظم ، مسعود اور بابر سیری میں ہی دکانیں کرتے رہے ۔ ناز فرنیچر، ناز مووی میکر اور ناز ساونڈ سسٹم انہی تینوں بھائیوں سے مشہور تھے۔ حالات میں تغیر آیا تو آہستہ آہستہ تینوں بھائی پردیس سدھار گئے ۔ لیکن اپنی یادیں سیری میں چھوڑ گے ۔ ان کی یادیں کسی نہ کسی نکر کونے سے ہوا کے جھونکے کی طرح نکل ہی آتی۔ کتنی دیواریں ہیں جو ان کے ناموں سے متعارف کرا رہی تھی۔
ناظم اپنے بھائیوں میں سے کچھ مختلف تھا اس کے اندر اگر کاروباری دماغ تھا تو ایک ہمدرد قسم کا دل بھی تھا ۔ بھلے ہمدردی پر بزنس سبقت لے جاتا تھا لیکن ہمدردی پھر بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی تھی ۔ وہ بظاہر مطلوب پنکی کے ساتھ ڈرافٹ بورڈ کھیل رہا ہوتا لیکن اس کا دماغ ان گھروں کی گردش کر رہا ہوتا جہاں فاقے ہمہ وقت تاڑ میں ہوتے تھے ۔ وہ انہی گھروں کے متعلق سوچتے ہوئے شیر کی ڈبل گاٹ رکھنے میں دیر کر دیتا تو مطلوب ہاتھ کو ہلاتے ہوئے تھوڑا جھکتے ہوئے کہتا جناب اے شیر اے کدر پھیرنے او گاٹ رکھو جے اغلی چال چلاں ۔ تب ناظم گول گول آنکھیں فوکس کرتے ہوئے کہتا نہ جی اسطرح نہ کرسو ۔ پھر مطلوب قسم کر لیتا تو اسے گاٹ ڈبل کرنی پڑ جاتی۔ اس کی ایسی سوچوں کا ایک وقت میں صرف کسی ایک دوست کو پتہ ہوتا تھا۔ یہ اس کی خوبی تھی کہ سینکڑوں دوست رکھنے کے باوجود گہرائی کی باتیں کسی ایک تک ہی محدود رکھتا تھا ۔ اس وقت اس کا ہمراز دوست قادری بٹ تھا جس سے ناظم اپنی نجی معاملات شئیر کیا کرتا تھا ۔ ایک دن کہنے لگا قادری صاحب ایک گھر ایسا ہے جہاں کھانے والے زیادہ ہیں لیکن کھانا کم ہے میں اگر ایسے ہی کچھ ان کو دوں گا تو یہ بھی عزتِ نفس مجروح کرنے کے مترادف ہے کیوں نہ ان کے ساتھ کچھ ایسی ڈیلینگ کی جائے کے ان کی سفید پوشی کا بھرم بھی رہ جائے اور میرا کچھ کام بھی ہو جائے انہوں نے پوچھا وہ ایسا کیا کام ہو سکتا ہے ۔ کہنے لگا میں ان کو ریپیرنگ کے لیے ایک دو شامیانے دونگا اور اس بہانے سے ان کو اجرت زیادہ دوں گا ۔ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اور گھر میں کچھ دال دلیا بھی آ جائے گا ۔ بعد میں ان دونوں نے مل کر وہاں بات بھی کی لیکن سفید پوشوں نے اپنا ہی بھرم رکھتے ہوئے شکریے کے ساتھ معذرت کر لی اور سخاوت کی حد کرتے ہوئے ان دونوں کے اس جذبہ ایثار کو سراہتے ہوئے بے شمار دعاوں سے نواز دیا۔
ناظم کے متعلق شاید یہ لکھنا بہتر رہے گا کہ وہ اپنے اس ناظم سے بہت مخلتف تھا جو اس کا ظاہری تھا ۔ سگریٹ پیتے رہنا بازار میں دکانداری زبان کا استعمال کرنا لیں دین کے سلسلے میں کرختی برت لینا سارا فارغ وقت لڈو اور ڈرافٹ بورڈ کی کھیل میں گزار دینے والے ناظم کے بارے میں شاید یہ کوئی کم ہی جانتا ہو گا کہ دورود شریف اس کی تنہائی کا واحد وظیفہ تھا وہ حدیث مبارکہ باقاعدگی سے سننے کے لیے اپنے دوست کے پاس اس وقت جاتا جب دنیا دن بھر کی تھکن دور کرنے کے لیے بستروں میں دبک چکی ہوتی ۔ یہ ایک ایسا اس کی زندگی کا پہلو تھا جس سے شاید اس کی ماں بھی واقف نہ ہو ۔ وہ دینی مسئلے مسائل اتنی دلچسپی سے سنتا جیسا کہ کہیں فاضل کا امتحان پاس کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ دکان کی طرح اس کے دوست بھی بدلتے رہے جب البشیر میڈیکل کمپلیکس کی محفلیں چھوٹیں تو اس نے ماسٹر خالد کے ساتھ بیٹھنا شروع کر دیا لیکن حسبِ عادت وہ رات کا ہی چناو کرتا تھا ۔
ناظم کی محفلیں ہمیشہ اہل علم اور سنجیدہ لوگوں سے رہی ہیں جن میں کہیں خطیب نما لوگ بھی تھے لیکن وہ سب اسے زوجیت کے مسائل نہ سمجھا سکے۔ ناظم نے ازواج میں ہیٹرک کر رکھی تھی لیکن یہ بندھن نبھانے میں وہ بارہویں کھلاڑی کی طرح ناکام ہی رہا ۔ اس سلسلے میں وہ حق زوجیت فرائض زوجیت بھول بھلا کر صرف ایک اصول فرمانبرداری کی طرف ہی مائل رہا جو اس کے باقی اوصاف حمیدہ کو اجاگر کرنے کی راہ میں حائل رہا ۔ جب کہ وہ شخص تھا تو کمال کا ۔
اچھی سوچیں نیک خیالات ہمدردانہ جذبات اس کی فطرت ثانیہ کی حثیت رکھتے تھے جن میں اکثر وہ مصروف رہتا تھا تھا ۔ وہ حسب عادت سیری کی دکان کو سپرد قفل کر کے سعودیہ چلا گیا لیکن سیری کے وہ لوگ جو مصنف غلام عباس کے اردو مضمون "اوور کوٹ " کی طرح کی زندگی گزار رہے تھے اکثر آنکھوں کے سامنے گھومتے رہتے تھے ۔ ایک دن کچھ سوچتے ہوئے اپنے ہی محلے کے ایک کمسن نوجوان نوید کشمیری سے بات کرنے لگا کہ ایک مولانا صاحب ہیں جن کی موٹر بائیک بہت پرانی ہو چکی ہے اور پرانی ہونے کی وجہ سے اکثر راہ میں کھڑی ہو کر خستہ حال کر دیتی ہے اگر ہم دو تین دوست مل کر ایک بائیک ان کو خرید دیں تو وہ آسانی سے کہیں آ جا سکیں گے ۔ اس بات پر نوید سمیت ایک دو دوستوں نے اس کے جذبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کچھ ریال وہاں سے جمع کر کے بھیجے جن سے مولانا نے بائیک خرید لی ۔ ناظم کی اس ہمدردی نے آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والے محاورے کو غلط کر دکھایا اس کے اس فعل سے معلوم ہوا کہ سیری سے دور رہ کر بھی سیری کو دل و دماغ میں سموئے ہوئے تھا لیکن رہتا ان لوگوں کی طرح تھا جو محبت کا اظہار کرنا بھی عیب سمجھتے ییں ۔
وہ جری شخصیت کا مالک تھا لیکن اولاد کی محبت اس پر بھی غالب آ جاتی تھی وہ اکثر تنہایوں میں ناراض شریک حیات سے سمجھوتے کی سوچتا لیکن کچھ ایسی باتیں آڑے آ جاتی جو مردانگی کے نام پر پلنے والے سانپ کو بیدار کر دیتیں ۔ وہ دن رات ان بچوں سے ملنے کی راہیں ہموار کرتا جو ننھیال میں پل رہے تھے وہ جوں ہی رسم و رواج کے لبادے کو سلجھانے کی کوشش کرتا رات کے آخر پہر پھر الجھ کر رہ جاتا، سکون کی تلاش میں خالق کائنات کی بارگاہ میں حاضری دیتا لیکن جب سجدے میں جاتا تو وہی تمام سوچیں شکلیں بن کر مصلے پر آ جاتیں ۔ یہی کشمکش اب دن رات اس کی زندگی کا حصہ بن کر رہ گئی ۔ ابھی چھ سات ماہ ہی ہوئے تھے چھٹی کاٹ کر گے ہوئے کہ پھر سے گھر آنے کا پروگرام بنا لیا پروگرام کیا بنایا بلکہ اسی ہفتے میں آ بھی گیا ۔ سیری جب پہنچا تو ابھی تک سکول لگے ہوئے تھے اس سکول میں گیا جہاں بچی پڑھتی تھی ٹیچر سے چھٹی لے کر بچی کو ساتھ لے لیا ۔ سکول سے لے کر گھر تک بچی سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتا جب وہ کوئی بات کرتی تو ہنستے ہوئے کہتا ایں ایں تے فیر۔ بیٹی کی ملاقات سے جیسے چہرے پر بہار سی آ گئی ہو۔ ناظم بچی کی ہیر پونی سے کھیلتا کبھی کہتا ایں آں میں نے بھی لائی ہیں نا۔ پتہ نہیں کیا بات تھی کہ ناظم نصف سال کے فراق کو لمحوں میں بھلانا چاہتا تھا بیٹی کو جی بھر کر دیکھتا پھر سوہنی تراشی ہوئی مونچھوں پر انگلی پھیرتا۔ آدھ موہی سی آنکھوں سے مسعود کو دیکھتا پھر مسکراتے ہوئے بیٹی کا سر پکڑ کر سینے سے لگا لیتا۔
یوں تو ناظم کی ساری زندگی ہی پردیس آتے جاتے گزری تھی لیکن اس بار اس میں کچھ ڈیفرنٹ تھا ۔ وہ بازار سے گزرتے ہوئے گاڑی روک روک کر سب سے ملتا ۔ سر پر وہی جالی دار ٹوپی سفید کپڑے کالے بوٹ پہنے ہوئے مسکراتے مسکراتے سب سے ہی مصافحہ اور معانقہ کرتا رہا ۔ مطلوب پنکی نے ملتے ہوئے کہا کہروں(گھروں) ہوئی تے بہلے مڑسو بازی وی لانی اے۔ ناظم ہنستے ہوئے کہتا حالاں پہچن تے دیو۔ گھر پہنچا تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا ریفریشمنٹ کے بعد کھانا کھایا دوران کھانا معمول کی باتیں ہی ہوتی رہی ۔ کھانے کے بعد چائے سگریٹ کا دور چلا پھر چند دوستوں سے ملنے چلا گیا ۔ شام گئے واپس آیا تو عشاء کی نماز کے لیے مسجد چلا گیا ۔ گھر والے اپنی اپنی باتوں میں مصروف رہے۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد سو گے ۔ کیوں کہ ناظم کی اس عادت سے وہ بخوبی واقف تھے کہ رات دیر سے آتا ہے۔ ناظم عشاء کی ادائیگی کے لیے گیا تھا رات واپس لوٹا کہ نہیں گھر والے اس بات سے لاعلم رہے ۔ سب رشتے ہی اللہ تعالی کی نعمت ہوتے ہیں لیکن کسی رشتے کے ساتھ ماسوائے بیوی کے شریک حیات نہیں لکھا اور پڑھا جاتا ۔ اگر شریک حیات گھر ہوتی تو لازماً ناظم کی غیر موجودگی کا نوٹس لیا جاتا کبھی وہ ساس کے کمرے میں جا کر دیکھتی یا دیور کے کمرے میں اس کو دیکھنے جاتی لیکن ایسا کوئی نہ تھا جو رات کو اٹھ کر شوق سے نہ سہی شک اور غصے کی بنا پر ہی دیکھتا ۔ بس گھر والوں نے تو اس کے کمرے میں چارپائی بچھا دی تھی کہ جب آئے گا سو جائے گا کس کو خبر تھی کہ آج کی بچھائی ہوئی چارپائی رات بھر خالی رہے گی ۔
صبح ہو گئی نمازی باجماعت نماز ادا کر کے گھروں کو جا چکے تو ماں کو یاد آیا کہ ناظم کمرے میں نہیں ہے شاید مسجد میں ہو ۔ کافی دیر بعد اسی کے بیٹے سے کہا جاو دیکھو تمہارا ابا کیوں نہیں آیا جب کے اب تو دن بھی چڑھ آیا ہے بیٹا مسجد میں دیکھنے گیا تو نہ پا کر واپس دادا ابو کی قبر کے پاس سے ہو کر آنے لگا تو کیا دیکھتا ہے قبر کے پاس ہی ابا بھی لیٹا ہوا ہے ایک دو آوازیں دی جب جواب نہ ملا تو بھاگتا ہوا گھر آیا اور کہنے لگا ابا دادا ابو کی قبر کے پاس سوئے ہوئے ہیں ۔ گھر والے سنتے ہی بھاگ کر وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ کچھ کر گزرنے والا واقعی کچھ ڈیفرنٹ کر گیا یے ۔ عشاء کی نماز کو جانے والا پوری رات ہی باپ کے پہلو میں لیٹ کر گزار گیا وہی جالی دار ٹوپی وہی سفید کپڑے سبھی کچھ وہی تو تھا لیکن ناظم نہ تھا۔