مہدی نقوی حجاز
محفلین
نظم "یادوں کے گھونٹ"
شہر دل پر حجازؔ آج برسات ہو، آسماں سرخ ہو
وقت مدہوش ہو
کیوں نہ بے تاب ہوں نہر کی مچھلیاں
کیوں نہ رنگین ہو جھٹ پٹے کا سماں
آج صحرا بھی دریا نما بن پڑے
آج لہروں کو جوش خروشاں ملے
آج پیتا ہوں گلفام کی پیالیاں
ہاں تری یاد میں!
آج بیٹھا ہوا ہوں تری یاد میں
کیا کروں؟
کس کے سر کے تلے آج زانو رکھوں؟
کس کو چوموں میں کس کے گلے سے لگوں؟
کس کی آہٹ سنوں تو نکھر جاؤں میں؟
کس نشیلی مہک سے میں مدہوش ہوں؟
آج تک یاد ہے!
تیرا ہنسنا مجھے آج تک یاد ہے
کیسے بھولوں بھلا؟
تیری آغوش کو نرم باہوں کو، میں
ہاں مجھے یاد ہے اب تلک وہ سماں
جب ملے ہم وہاں
ہم نے دیکھا تمہیں تم نے دیکھا ہمیں
اور پھر تم نے آنکھیں جھکا کر مجھے،
شرمگیں کر دیا۔
اور تم میری سادہ دلی پر کھڑے مسکرانے لگے
ہاں مجھے یاد ہے
ایک دن جبکہ میں خوب مدہوش تھا
تم مرا ہاتھ تھامے چلے آئے تھے
تم نے اس وقت مجھ کو سہارا دیا، جب برا وقت تھا
اور مجھے یاد آتا ہے اک اور دن
جب میں غمگین تھا
تم نے آکر مرا سر لیا گود میں
اور بنا کچھ کہے
چت سے رخسار کا ایک بوسہ لیا
اپنی آنکھیں مری ڈبڈبائی ہوئی آنکھ میں ڈال کر
خوب کھنگال کر
غم کا عنصر نکالا مری آنکھ سے
اور میری وہ اک آنکھ جو بند تھی
تیری زلفوں کی لٹ اس میں پیوست تھی
مجھ کو اس بات کا کوئی شکوہ نہ تھا۔
میری اک آنکھ میں غم کا بھونچال تھا
اور چشم دگر میں ترا بال تھا
میں نہ جانا تمہیں!
میں یہ سمجھا کہ کوئی فرشتہ ہو تم
جو مرے درد کی روح، لینے کو ہے
آگیا ارش سے
ایک قصہ مجھے یاد آیا ہے جب
چاندنی رات میں
بند چھاتا لئے
اک سڑک کے کنارے کھڑا ہو گیا
تیز برسات میں
سر سے پاؤں تلک سخت بھیگا ہوا
تلملاتا ہوا، گنگناتا ہوا
آج سے کچھ دنوں قبل کی بات ہے
ایسی اک رات میں
میں کھڑا تھا گلی کے کسی موڑ پر
اپنی قسمت کی قسمت پہ روتے ہوئے
سر جھکائے ہوئے۔
پھر اچانک سنی ایک آواز سی،
ہاں! وہی تیرے چلنے کی آواز تھی
جو مری زندگی کی صدا بن گئی
میں نے دیکھا کہ تم آرہے ہو وہاں
ہر قدم ایک سا ہر صدا ایک سی
تم مرے پاس آکر کھڑے ہوگئے
مجھکو تکنے لگے
زانوؤں پر رکھے اپنے رخسار کو
دیر تک میری صورت کو دیکھا کیے
اور بنا کچھ کہے
پھر سحر تک مرے سات بیٹھے رہے۔
میں کہ برباد ہوں!
اب کہ تیرے بنا کس طرح شاد ہوں؟
جبکہ اب مدتیں ہوگئی ہیں مجھے
تجھ کو بھولے ہوئے
لیکن اب بھی کبھی جبکہ برسات ہو
تیری یادیں ہمیشہ مرے ساتھ ہوں
جب میں دیکھوں کبھی مہ جبینِ بلا
تیرا مکھڑا مری تنگ نظروں میں ہو
اس کی صورت میں تم کی سی صورت دکھے
چونک جاتا ہوں میں!
تلملاتا ہوں میں اور تڑپتا ہوں میں
جبکہ تم میری یادوں میں آجاتے ہو
خوب ترساتے ہو
پر میں ہوں کہ جفا پر تلا کا تلا
اب تلک زندہ ہوں
تجھ کو کھونے کا افسوس بھی کچھ نہیں
کاٹتے ہیں مجھے روز دیر و زمیں
پر میں خوشحال ہوں
جتنا کھونا تھا ہم کھو چکے ہیں تمہیں۔
اور حجازؔ اب یہ محفل بھی برخواست ہو
آسماں سرخ ہو، وقت مدہوش ہو