یادِ ایام - تابش صدیقی

کاشفی

محفلین
یادِ ایام
(ایک چاندنی رات کا تصّور)
سکوتِ شام تھا، ہم تم تھے، دریا کا کنارہ تھا
جدا ہونے سے پہلے کس قدر دلکش نظارہ تھا
کسی نے آسماں سے حُسن کے موتی بکھیرے تھے
فضا میں قاف کی پریوں کے جلوؤں کے بسیرے تھے
شباب و حُسن کی رنگینیاں تھیں جلوہ زا گویا
فضا کا ذرّہ ذرّہ اک سراپا شعر تھا گویا
شرابِ حُسن سے مخمور تھا ہر قطرہ دریا کا
ہجومِ کیف سے معمور تھا ہر قطرہ دریا کا
نچھاور ہورہی تھی چاندنی تیری جوانی پر
جوانی چھارہی تھی عشق و الفت کی کہانی پر
سفینہ چاندنی کا تھا رواں دریا کے سینے پر
ہمارے عیش کے دن جارہے تھے اس سفینے پر
یہ راتیں آہ یہ رنگینیاں سب کھو گئیں مجھ سے
تری الفت میں حاصل تھیں مگر اب کھوگئیں مجھ سے
 
Top