کاشفی
محفلین
یادِ سلف
(محروم - 1910ء)
شگفتہ لالہ و گل اب بھی ہوتی ہیں بہاروں میں
وہی ہے لمبی لمبی دوب اب بھی سبزہ زاروں میں
وہی اب ہے جو پہلے تھا ترنّم آبشاروں میں
دکھاتی ہے کرشمے اب بھی قدرت کوہساروں میں
نظارے ہیں وطن کے دلنشیں، جیسے کہ پہلے تھے
مگر افسوس ہم ویسے نہیں جیسے کہ پہلے تھے
نہ وہ دل ہے، نہ ہے وہ دیدہء معنی مگر باقی
بزرگوں کی خصائل کا نہیں ہم میں اثر باقی
کمالات اُن کے باقی ہیں نہ وہ علم و ہنر باقی
جو یاد اُن کی ہے وہ سونے کی چڑیا کے ہیں پر باقی
امینِ معرفت کہتے ہیں اب تک جنکے سینوں کو
ستم ہے اے زمیں تو کھا گئی ایسے دفینوں کو