یاد میں آنکھیں اشکبار ہوئیں غزل نمبر 67 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب

یاد میں آنکھیں اشکبار ہوئیں
تو گیا جب سے بار بار ہوئیں

دل میرا ہی فقط بے چین نہیں
ان کی آنکھیں بھی بےقرار ہوئیں

دھڑکنیں تھیں بہت آزاد میری
ان کی آنکھوں میں گرفتار ہوئیں

آخرِ شب تیری پھر یاد آئی
حسرتیں سوئی تھیں بیدار ہوئیں

صبحیں روشن ہیں دید سے ان کی
میری شامیں بھی خوشگوار ہوئیں

اب ہیں ہم تین میں نہ تیرہ میں
جب سے آنکھیں صنم سے چار ہوئیں

گل و بلبل کا عشق جانتی ہیں
تتلیاں ُگل کی رازدار ہوئیں

اک میرا ذکر ہی چھیڑا نہ گیا
یوں تو باتیں یہاں ہزار ہوئیں

وقت آخر بھلا ہی دیتا ہے
تیری یادیں بھی اب غبار ہوئیں

دل ہوا جب اداس بن ٹہرا
آنکھیں جب روئیں آبشار ہوئیں

گہری ہے بحر سی سچی الفت
جب بلند ہوگئیں کوہسار ہوئیں

ڈوب جانے کا جن کو خوف نہ تھا
کشتیاں صرف وہ ہی پار ہوئیں


حسنِ جاناں سے کھا کے مکر و فریب
زندگیاں عاشقوں کی خوار ہوئیں

ان کو کہتے ہیں مقدر کا دھنی
جیت جن کے گلے کا ہار ہوئیں


ناز جن دوستوں پہ تھا ان کی
دوستی مخلصِ اغیار ہوئیں

گلشنِ دل نہیں کھلتا، غم کی
یہ خزائیں سدا بہار ہوئیں

شاعری کی وہ قدر داں آنکھیں
میری غزلوں کی پرستار ہوئیں

ساری دنیا کو چھوڑ کر شارؔق
الفتیں بس ان ہی سے یار ہوئیں
 
آخری تدوین:
Top