یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں ۔ چھایا گنگولی

فرخ منظور

لائبریرین

یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں

ایک ایک فرطِ دور میں، یونہی مجھے بھی دو
جامِ شراب پر نہ کرو، میں نشے میں ہوں

مستی سے وہمی ہے میری، گفتگو کے بیچ
جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو، میں نشے میں ہوں

یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے، مانند جامِ مَے
یا تھوڑی دور ساتھ چلو، میں نشے میں ہوں

معذور ہوں جو پائوں میرا بے طرح پڑے
تم سرِ گراں تو مجھ سے نہ ہو‘ میں نشے میں ہوں

نازک مزاج آپ قیامت ہیں میر جی
جوں شیشہ، میرے منہ نہ لگو، میں نشے میں ہوں

 
بھئی اس پر ایک پیروڈی پڑھی تھی کبھی۔ دو ایک مصرعے یاد ہیں۔ کبھی مکمل ہاتھ لگ گئی تو شئیر کروں گا۔

باہر نہ آؤ گھر میں رہو تم نشے میں ہو
سو جاؤ دن میں رات کرو تم نشے میں ہو

بے حد شریف لوگوں سے کچھ فاصلہ رکھو
پی لو مگر کبھی نہ کہو تم نشے میں ہو
 
جس غزل کا ذکر ابن سعد بھائی کر رہے ہے وہ بشیر بدر صاحب کی ایک خوبصورت غزل ہے... اُس کا یہ شعر مجھے بہت پسند ہے..

کاغذ کا یہ لباس چراغوں کے شہر میں
جاناں!! سنبھل سنبھل کے چلو، تم نشے میں ہو.
 
Top