نور وجدان
لائبریرین
یار ِ من کون ہوتا ہے...؟
کیا وہ ہوتا تھا.....؟
کیا وہ نہیں ہوگا.....؟
کیا نہیں ہے.....؟
وہ تو کسی کرسی پر فائز ہے .یہ رمز بڑی شناسا ہے....یارِ من کرتا کیا ہے؟
ایسا یارِ من تو نےکیا کیا ؟
آنکھ دے دی کیا دل کو؟
دید کی خاطر، تو دید ہوتی ہوگی ....!
جب جب دل میں جھانکا جائے تو ہوجاتی ہوگی...!
آنکھ والے بینائی جانیں گے
نابینا کیسے دیکھے گا؟
اچھا ...
پہلی دفعہ جب روح یار من کو دیکھے تو وہ کہاں ہوتا ہے؟
دید والا مکان میں اور مجسم ہوتی ہے تصویر جس سے لرزاں تھا رواں رواں
وہ کون ہوتا ہے؟
میں نے سوچا کہ بندہ کیسے پلک جھپکتے نقل مکانی کرسکتا ہے
ہمزاد روح کا ہوتا ہے کیا؟
ہاں ....
روح کا ہمزاد اللہ نے رکھا ہے
کیسے؟ کیسے؟ کیوں؟
یہ تو بس یہی جاننے والے کہتے کہ دل آنکھ ہے
وہی جو جہانوں کی سیر کرتے ہیں مگر جہانوں کو آنکھ کی بند مٹھی میں دیکھتے ہیں .. جہاں دل کی آنکھ سے ..... اس کے لیے آنکھ چاہیے ....ہاں. .وہ آنکھ .... دامن دل میں نقشِ دلاویز لگا دیا جائے، نقش پرمنقش اختیار کی کرسی، اس کرسی پر الحی القیوم لکھا ہے،کسی کو حیات دوامی ملے تو ہم کیا کریں، کسی کو یادِ سبحانی ملے تو ہم کیا کریں، ہم قدم بہ قدم رقص کریں گے،دل بہ دل.......!
دل!
ہاں دل میں ... دل میں اک حاجی کا مکان اور حاجی کہتا ہے: کعبہ کے غلاف نیلا ہے، کالا نہیں ہے
جبکہ صدا لگتی ہے: نہ نیلا ہے نہ کالا ہے
یہ تو بے حجاب شفافی ہے
یہاں تو نور ازل کا بے،
حجاب بھی نور ہے
حاجی سے کہا گیا کہ تجھ کو نیلے سے کیا دل ہے؟
دل والا کہنے لگا: دل کی میان پر کسی کی احساس کی تلوار ہے جیسے کمان و تیر کا ساتھ ہو: رمز اس میں کیا ہے؟ رمز یہ ہے کہ کمان پر تیر رہنا چاہیے، ورنہ معراج نہیں ہوتی
دنیا بنائی ہے کمان و تیر کے لیے،
کمان والا تیر جہاں جانے پھینکے اور ترکش میں یاد کے کتنے تیر ہیں؟
یہ تیر، وہ تیر.....!
بسمل کا رقص....!
تیر بہ تیر... رقصِ آہن....!
سنگ میں رنگ دیکھا....!
کس کا؟
یارِ من کا؟
اچھا ....!! یہ لکا چھپی ہو رہی ہے
ہاں یہ کھیل ازل سے چلا آیا ہے
بس یہ پردہ تھا، جو ہٹ گیا
دل کے من مندر میں کون ہے؟
یہ کمان پر تیر کس کا ہے؟
یار برآمد ....
کہاں سے؟
کشش کے تیر نیناں دے لے گئے سارا جل
مچھ جائے کتھے؟ ہوئی او بے جل
پانی والا، کشش والا، نور والا ..! اے لازوال ازل کی روشنی ... اوج ابد کی جانب لے چل ...دل کی کمان پر نقش ہے ...نقش میں راز ہے. یہ راز کیا ہے نمانے نہ جانیں جو جانیں وہ کہہ ڈالیں "میں نہ جانوں، تو ہی جانے سب کچھ ....
من میں چھپ کے صدا لگائی کس نے؟من میں چھپ کے کس نے کہا "میرے ہوتے تجھے ڈر کیسا "کیوں ایسا ہوتا ہے کہ عشق پر اختیار نہیں رہتا؟ عشق تو نکل جاتا ہے ایسے جسم سے جیسے دھاگا کسی پتنگ کا ٹوٹ جائے
میری آوارہ روح! تو ٹھہر جا
ٹھہر جا!
یار نے بلایا ہے.....!
یار من دل کے سیپ دیکھ لیے، دکھا دیے
اب بتا کریں کیا؟وجدانی لہروں ہیں .ہم وہ بات کریں جس میں آئنہ تمثال گر کی تمثیل ہو ....اوت اپنے دل میں مثال دیکھیں، تو کیا تھی یہ؟یہ تو موجہ دل میں بحر جذبات سے نکلا عشق کا عین! عین ہے! شین کہاں ہے؟ قاف کہاں ہے؟
جب عشق عین و لا ہو جائے تو ہم کریں گے کیا؟
یار من سجدہ! سجدہ ہوا سجدہ یار کو! قبلہ سج گیا دل ک! دل کے قبلے پر یار من لکھا ہے!
یار من نے جلوہ کرلیا ہے! حقیقت! یہ ہے حقیقت! حقیقت کی جانب چلو! دل کو تو طوعا کرھا چلنا ہے! دل کو رسہ کشی ہے کہ عشق تو نری بربادی ہے! عشق کرواہٹ ہے مگر حلاوت ہے. یہ حلاوت ہے مگر کڑواہٹ ہے. یہ " نہ ہونا " ہے مگر "ہونا " ہے. یہ" ہونے" میں "نہ ہونا" ہے. کسی کو کشش کے تیر لے گئے جانے کس جانب....! سچ پوچھیں تو بات یہ ہے کہ عین ہے! عین تو ابتدائے دید ہے! جا بجا وہی ہے مگر کہاں کہاں نہیں ہے وہ
. دل نے کہاں کہاں نہ ڈھونڈا تجھے مگر ملا کہاں؟ ہاں! مل گیا! کیا گمشدہ تھا؟ نہیں بس لکا چھپی کا کھیل تھا.اب وہ بے حجاب ہے
اب وہ شفافیت سے بھرپور ہے!اب نور سے پرنور آنکھ دل میں ہے..! وہ نور جس نے دید دی وہ تو ازل سے ابد تک قدامت کا نور لیے ہے! اے نائب روح ...چل جانب سفر... وہ سفر کیا ہے جس میں یار دم ہماہمی میں نگاہ کیے ہے.
اندر ٹھہریں؟ باہر چلیں؟
یہ چکر پے چکر ہیں
یہ تو رقص پے رقص ہے
سمجھ نہ آئے تو بھی چلو
سمجھ بھی آئے تو چلو
صدائے یارِ من سنو!
وہ تو فاصلے کا قائل نہیں
تو یہ بلاوا کیسا؟
یہ صدا کیسی؟
یہ پکار کیسی؟
یہ کس نے مناجات کیں؟ طوٍاف میں روح اور مرکز آنکھ ہے! دل کا کعبہ اک آنکھ ہے!اس چشم کا کیا کہنا، جس نے دل کو نمی دی. اس چشم مقدس کو سلام جس نے دل کو دل بنایا....!
اے ہادی تجھ کو سلام!اے سلام والی عالی ہستی تری سرداری پر بارہا سلام
قسم شب تار کی
قسم نازنینوں کی
قسم ان حسن والی ہستیوں کی ...
سب فانی حسن پرست ہیں
انہیں حسن نے فنا کردیا ہے
حُسن بھی کسی الوہی جامے میں آتا ہے
مجسم! مجسم! مجسم ...وہ یار کیسا جس کا نام لیا جائے اور وہ آئے نا! وہ عبد کیسا کہ اس نے کن کہا، فی۔۔۔۔کون نہ ہو! ف۔۔۔یکون کی تحریر انسان ہے! انسان جانتا نہیِں ہے وہ تحریر نتیجے پر پڑھتا ہے، مگر پڑھنا امر سے پہلے ہوتا ہے اور کن سے فیکون تک سجدہ کرنا ہوتا ہے پھر کہیں جا کے تسبیح ہو پاتی ہے اللہ کی!
اللہ کی تسبیح کرنا آسان ہے! آسان ہے اس لیے چاند و اشجار تسبیح بیان کرتے ہیں. یہ پوری کائنات مجذوب ہے اس لیے کُن کی مجذوب ہے اور فیکون جاری ہے. شجر نے قیام کی تسبیح پرھی ہے جبکہ زمین نے سجدے کی تسبیح پڑھی ہے جبکہ پہاڑ تشہد پر قائم ہے .. پوری کائنات مل کے نماز قائم کیے ہوئے اور انسان نے نماز کو اتنا آسان جان لیا ہے...! نماز آسان ہوتی ہے تو یار کی تسبیح میں دل جذب ہوجاتے اور فنائیت سے دار بقا کوچ کر جاتے ہیں ... نماز قائم کرنے آیا ہے! کون آیا ہے؟ یار من خود آیا ہے!
نماز سکھارہا ہے، نماز سیکھی نہیں ہے اورعبادت کا ہنر کیسے سیکھیں گے ہم. ہم تو نہ سیکھیں گے وہ سکھائے گا جس نے نفخ سے جدا کیا ہاِں کیوں جدا کیا؟پہلے خود جدا کیا، پھر خود کہا نماز پڑھ! پہلے کہا جا آزاد ہے تو، پھر کہا آ، محبت نبھایہ ان دیکھا محبت کا قفس ہے ...قفس کی تیلیاں سرخ ہیں، سرخی دکھائی دی تو کہا: یہ توحید ہے، وحدت کا رنگ ہے
واحد سنگ ہے، دوئی کہیں نہیں سب وہ ہے، دوئی جھوٹی ہے ....وہ تو روز کن سے ابد تک ساتھ ہے، روز کن اس نے اپنی محبت کی سند ہمیں دے دی تھی اب تو گیت گایا جارہا ہے. گیت ہے!
لوح قلم پر یہی تحریر ہے کہ آزاد روح پر اس کا نام ثبت ہے. وہ ذات سے عین کی بات ہے یا عین سے ذات ہو ... اس نے لکھ رکھا ہے کہ جسم تو قفس ہے جبکہ روح پھرتی رہتی ہے اور جہاں کی سیر میں پالیتی ہے ....دید کو یہ بھی اسکی پکار ہے جس پر دل نے سجدہ کیا ہے سجدہ اچھا ہے ! تسلیم اچھی ہے ! اچھی بات ہے کہ میں نہیں ہوں......،
وہ ہے تو میں ہوں ... ِ، وہ کہاں کہاں نہیں ہے! تم نہیں جانتے کہ جانِ تمنا کو اک جان کافی ہے ہر جگہ وہی ہے ، اور نہیں کوئی!
اذن حاضری کو بلایا ہے
اذن حاضری کو جانے کس کا رنگ لگایا ہے
یہ پی کا رنگ ہے
کس کو نہ دکھے گا کہ اپنی دید سے ہوتا ہے رنگ عیاں اور دیکھا جاتا ہے کہ کون ہے دل میں نہاں دل کے نہاں خانوں میں کون بسا ہے
آ ... آ... آ... یہ دھمال ہے
آ... آ... آ یہ اک جال ہے
آ... آ... آ.. دام موج میں پھنس جا
آ... آ... آ.... رنگ رنگ میں ذات کو دیکھا
ھو الحی ھو القیوم
ستار بجنے لگا
ساز کی صدا سنو
سنی؟ سنو!
سنو اور دم سادھ کے سنو
یارِ من نے سرگوشی کی ہے کہ میں نے فریاد سننے میں لمحہ بھر دیر نہ کی. بسمل کی فریاد وہ کیوں نہ سنے گا. اس نے درد دیا اس لیے تھا کہ اس کے پاس جانا تھا اس کو درد دے کے پیار آیا تھا ...وہ جس ناز و پیار سے مجھے دیکھ رہا تھا مجھے خود پر پیار آگیا تھا ...بس یہی تو دید تھی جو میں نے بوقت کن عہد الست کو پائی. وہ محبت کی نظر اور میرا مست ہوجانا.
جب الف ہوتی ہے
جب الف ہوتی ہوگی
تب انسان کلمہ ہوگا
تب محفلِ حضوری ہوگی
اے دل!
کلمہ فنائیت کی کہانی ہے
یہ جذب ... حروفِ دل ...!
یار من ....
ہجرت کے تیر دل میں
یہ تیر دیکھے کون؟ الف سے میم کی کہانی .. . لازم ہے یہ دو رنگ......احسن التقویم کی نشانیاں دل میں ہیں .. وہ تلاوت .... ترتیل ....
سنقرئک فلا تنسی
والتین .. الہام کا شجر ہے اور زیتون کا بابرکت تیل جلاتا ہے اور دل کبھی طور تو کبھی شہر مکہ ہوا جاتا ہے. یہ نشانیاں .... سفر .....اسفل سافلین سے احسن التقویم کا سفر جاری ہے. اس نے اپنا نور مکمل کرنا ہے کہ نور تو وہ مکمل کرتا ہے اور بندہ بس سجدہ کرتا ہے اور دل ایسے مجلی ہوجاتا ہے جیسے کسی بلب کا روشن ہو جانا
سلام اس ہادی مرسل کو جس کی وساطت سے دل کی بتی روشن ہے. سلام اس مثال یسین کو جس کی وجہ سے دید کی بات چلی ہے. سلام اس دل حزین کو جس نے سفل سے احسن التقویم کی جانب جانے کا عندیہ دیا ہے.
کیا وہ ہوتا تھا.....؟
کیا وہ نہیں ہوگا.....؟
کیا نہیں ہے.....؟
وہ تو کسی کرسی پر فائز ہے .یہ رمز بڑی شناسا ہے....یارِ من کرتا کیا ہے؟
ایسا یارِ من تو نےکیا کیا ؟
آنکھ دے دی کیا دل کو؟
دید کی خاطر، تو دید ہوتی ہوگی ....!
جب جب دل میں جھانکا جائے تو ہوجاتی ہوگی...!
آنکھ والے بینائی جانیں گے
نابینا کیسے دیکھے گا؟
اچھا ...
پہلی دفعہ جب روح یار من کو دیکھے تو وہ کہاں ہوتا ہے؟
دید والا مکان میں اور مجسم ہوتی ہے تصویر جس سے لرزاں تھا رواں رواں
وہ کون ہوتا ہے؟
میں نے سوچا کہ بندہ کیسے پلک جھپکتے نقل مکانی کرسکتا ہے
ہمزاد روح کا ہوتا ہے کیا؟
ہاں ....
روح کا ہمزاد اللہ نے رکھا ہے
کیسے؟ کیسے؟ کیوں؟
یہ تو بس یہی جاننے والے کہتے کہ دل آنکھ ہے
وہی جو جہانوں کی سیر کرتے ہیں مگر جہانوں کو آنکھ کی بند مٹھی میں دیکھتے ہیں .. جہاں دل کی آنکھ سے ..... اس کے لیے آنکھ چاہیے ....ہاں. .وہ آنکھ .... دامن دل میں نقشِ دلاویز لگا دیا جائے، نقش پرمنقش اختیار کی کرسی، اس کرسی پر الحی القیوم لکھا ہے،کسی کو حیات دوامی ملے تو ہم کیا کریں، کسی کو یادِ سبحانی ملے تو ہم کیا کریں، ہم قدم بہ قدم رقص کریں گے،دل بہ دل.......!
دل!
ہاں دل میں ... دل میں اک حاجی کا مکان اور حاجی کہتا ہے: کعبہ کے غلاف نیلا ہے، کالا نہیں ہے
جبکہ صدا لگتی ہے: نہ نیلا ہے نہ کالا ہے
یہ تو بے حجاب شفافی ہے
یہاں تو نور ازل کا بے،
حجاب بھی نور ہے
حاجی سے کہا گیا کہ تجھ کو نیلے سے کیا دل ہے؟
دل والا کہنے لگا: دل کی میان پر کسی کی احساس کی تلوار ہے جیسے کمان و تیر کا ساتھ ہو: رمز اس میں کیا ہے؟ رمز یہ ہے کہ کمان پر تیر رہنا چاہیے، ورنہ معراج نہیں ہوتی
دنیا بنائی ہے کمان و تیر کے لیے،
کمان والا تیر جہاں جانے پھینکے اور ترکش میں یاد کے کتنے تیر ہیں؟
یہ تیر، وہ تیر.....!
بسمل کا رقص....!
تیر بہ تیر... رقصِ آہن....!
سنگ میں رنگ دیکھا....!
کس کا؟
یارِ من کا؟
اچھا ....!! یہ لکا چھپی ہو رہی ہے
ہاں یہ کھیل ازل سے چلا آیا ہے
بس یہ پردہ تھا، جو ہٹ گیا
دل کے من مندر میں کون ہے؟
یہ کمان پر تیر کس کا ہے؟
یار برآمد ....
کہاں سے؟
کشش کے تیر نیناں دے لے گئے سارا جل
مچھ جائے کتھے؟ ہوئی او بے جل
پانی والا، کشش والا، نور والا ..! اے لازوال ازل کی روشنی ... اوج ابد کی جانب لے چل ...دل کی کمان پر نقش ہے ...نقش میں راز ہے. یہ راز کیا ہے نمانے نہ جانیں جو جانیں وہ کہہ ڈالیں "میں نہ جانوں، تو ہی جانے سب کچھ ....
من میں چھپ کے صدا لگائی کس نے؟من میں چھپ کے کس نے کہا "میرے ہوتے تجھے ڈر کیسا "کیوں ایسا ہوتا ہے کہ عشق پر اختیار نہیں رہتا؟ عشق تو نکل جاتا ہے ایسے جسم سے جیسے دھاگا کسی پتنگ کا ٹوٹ جائے
میری آوارہ روح! تو ٹھہر جا
ٹھہر جا!
یار نے بلایا ہے.....!
یار من دل کے سیپ دیکھ لیے، دکھا دیے
اب بتا کریں کیا؟وجدانی لہروں ہیں .ہم وہ بات کریں جس میں آئنہ تمثال گر کی تمثیل ہو ....اوت اپنے دل میں مثال دیکھیں، تو کیا تھی یہ؟یہ تو موجہ دل میں بحر جذبات سے نکلا عشق کا عین! عین ہے! شین کہاں ہے؟ قاف کہاں ہے؟
جب عشق عین و لا ہو جائے تو ہم کریں گے کیا؟
یار من سجدہ! سجدہ ہوا سجدہ یار کو! قبلہ سج گیا دل ک! دل کے قبلے پر یار من لکھا ہے!
یار من نے جلوہ کرلیا ہے! حقیقت! یہ ہے حقیقت! حقیقت کی جانب چلو! دل کو تو طوعا کرھا چلنا ہے! دل کو رسہ کشی ہے کہ عشق تو نری بربادی ہے! عشق کرواہٹ ہے مگر حلاوت ہے. یہ حلاوت ہے مگر کڑواہٹ ہے. یہ " نہ ہونا " ہے مگر "ہونا " ہے. یہ" ہونے" میں "نہ ہونا" ہے. کسی کو کشش کے تیر لے گئے جانے کس جانب....! سچ پوچھیں تو بات یہ ہے کہ عین ہے! عین تو ابتدائے دید ہے! جا بجا وہی ہے مگر کہاں کہاں نہیں ہے وہ
. دل نے کہاں کہاں نہ ڈھونڈا تجھے مگر ملا کہاں؟ ہاں! مل گیا! کیا گمشدہ تھا؟ نہیں بس لکا چھپی کا کھیل تھا.اب وہ بے حجاب ہے
اب وہ شفافیت سے بھرپور ہے!اب نور سے پرنور آنکھ دل میں ہے..! وہ نور جس نے دید دی وہ تو ازل سے ابد تک قدامت کا نور لیے ہے! اے نائب روح ...چل جانب سفر... وہ سفر کیا ہے جس میں یار دم ہماہمی میں نگاہ کیے ہے.
اندر ٹھہریں؟ باہر چلیں؟
یہ چکر پے چکر ہیں
یہ تو رقص پے رقص ہے
سمجھ نہ آئے تو بھی چلو
سمجھ بھی آئے تو چلو
صدائے یارِ من سنو!
وہ تو فاصلے کا قائل نہیں
تو یہ بلاوا کیسا؟
یہ صدا کیسی؟
یہ پکار کیسی؟
یہ کس نے مناجات کیں؟ طوٍاف میں روح اور مرکز آنکھ ہے! دل کا کعبہ اک آنکھ ہے!اس چشم کا کیا کہنا، جس نے دل کو نمی دی. اس چشم مقدس کو سلام جس نے دل کو دل بنایا....!
اے ہادی تجھ کو سلام!اے سلام والی عالی ہستی تری سرداری پر بارہا سلام
قسم شب تار کی
قسم نازنینوں کی
قسم ان حسن والی ہستیوں کی ...
سب فانی حسن پرست ہیں
انہیں حسن نے فنا کردیا ہے
حُسن بھی کسی الوہی جامے میں آتا ہے
مجسم! مجسم! مجسم ...وہ یار کیسا جس کا نام لیا جائے اور وہ آئے نا! وہ عبد کیسا کہ اس نے کن کہا، فی۔۔۔۔کون نہ ہو! ف۔۔۔یکون کی تحریر انسان ہے! انسان جانتا نہیِں ہے وہ تحریر نتیجے پر پڑھتا ہے، مگر پڑھنا امر سے پہلے ہوتا ہے اور کن سے فیکون تک سجدہ کرنا ہوتا ہے پھر کہیں جا کے تسبیح ہو پاتی ہے اللہ کی!
اللہ کی تسبیح کرنا آسان ہے! آسان ہے اس لیے چاند و اشجار تسبیح بیان کرتے ہیں. یہ پوری کائنات مجذوب ہے اس لیے کُن کی مجذوب ہے اور فیکون جاری ہے. شجر نے قیام کی تسبیح پرھی ہے جبکہ زمین نے سجدے کی تسبیح پڑھی ہے جبکہ پہاڑ تشہد پر قائم ہے .. پوری کائنات مل کے نماز قائم کیے ہوئے اور انسان نے نماز کو اتنا آسان جان لیا ہے...! نماز آسان ہوتی ہے تو یار کی تسبیح میں دل جذب ہوجاتے اور فنائیت سے دار بقا کوچ کر جاتے ہیں ... نماز قائم کرنے آیا ہے! کون آیا ہے؟ یار من خود آیا ہے!
نماز سکھارہا ہے، نماز سیکھی نہیں ہے اورعبادت کا ہنر کیسے سیکھیں گے ہم. ہم تو نہ سیکھیں گے وہ سکھائے گا جس نے نفخ سے جدا کیا ہاِں کیوں جدا کیا؟پہلے خود جدا کیا، پھر خود کہا نماز پڑھ! پہلے کہا جا آزاد ہے تو، پھر کہا آ، محبت نبھایہ ان دیکھا محبت کا قفس ہے ...قفس کی تیلیاں سرخ ہیں، سرخی دکھائی دی تو کہا: یہ توحید ہے، وحدت کا رنگ ہے
واحد سنگ ہے، دوئی کہیں نہیں سب وہ ہے، دوئی جھوٹی ہے ....وہ تو روز کن سے ابد تک ساتھ ہے، روز کن اس نے اپنی محبت کی سند ہمیں دے دی تھی اب تو گیت گایا جارہا ہے. گیت ہے!
لوح قلم پر یہی تحریر ہے کہ آزاد روح پر اس کا نام ثبت ہے. وہ ذات سے عین کی بات ہے یا عین سے ذات ہو ... اس نے لکھ رکھا ہے کہ جسم تو قفس ہے جبکہ روح پھرتی رہتی ہے اور جہاں کی سیر میں پالیتی ہے ....دید کو یہ بھی اسکی پکار ہے جس پر دل نے سجدہ کیا ہے سجدہ اچھا ہے ! تسلیم اچھی ہے ! اچھی بات ہے کہ میں نہیں ہوں......،
وہ ہے تو میں ہوں ... ِ، وہ کہاں کہاں نہیں ہے! تم نہیں جانتے کہ جانِ تمنا کو اک جان کافی ہے ہر جگہ وہی ہے ، اور نہیں کوئی!
اذن حاضری کو بلایا ہے
اذن حاضری کو جانے کس کا رنگ لگایا ہے
یہ پی کا رنگ ہے
کس کو نہ دکھے گا کہ اپنی دید سے ہوتا ہے رنگ عیاں اور دیکھا جاتا ہے کہ کون ہے دل میں نہاں دل کے نہاں خانوں میں کون بسا ہے
آ ... آ... آ... یہ دھمال ہے
آ... آ... آ یہ اک جال ہے
آ... آ... آ.. دام موج میں پھنس جا
آ... آ... آ.... رنگ رنگ میں ذات کو دیکھا
ھو الحی ھو القیوم
ستار بجنے لگا
ساز کی صدا سنو
سنی؟ سنو!
سنو اور دم سادھ کے سنو
یارِ من نے سرگوشی کی ہے کہ میں نے فریاد سننے میں لمحہ بھر دیر نہ کی. بسمل کی فریاد وہ کیوں نہ سنے گا. اس نے درد دیا اس لیے تھا کہ اس کے پاس جانا تھا اس کو درد دے کے پیار آیا تھا ...وہ جس ناز و پیار سے مجھے دیکھ رہا تھا مجھے خود پر پیار آگیا تھا ...بس یہی تو دید تھی جو میں نے بوقت کن عہد الست کو پائی. وہ محبت کی نظر اور میرا مست ہوجانا.
جب الف ہوتی ہے
جب الف ہوتی ہوگی
تب انسان کلمہ ہوگا
تب محفلِ حضوری ہوگی
اے دل!
کلمہ فنائیت کی کہانی ہے
یہ جذب ... حروفِ دل ...!
یار من ....
ہجرت کے تیر دل میں
یہ تیر دیکھے کون؟ الف سے میم کی کہانی .. . لازم ہے یہ دو رنگ......احسن التقویم کی نشانیاں دل میں ہیں .. وہ تلاوت .... ترتیل ....
سنقرئک فلا تنسی
والتین .. الہام کا شجر ہے اور زیتون کا بابرکت تیل جلاتا ہے اور دل کبھی طور تو کبھی شہر مکہ ہوا جاتا ہے. یہ نشانیاں .... سفر .....اسفل سافلین سے احسن التقویم کا سفر جاری ہے. اس نے اپنا نور مکمل کرنا ہے کہ نور تو وہ مکمل کرتا ہے اور بندہ بس سجدہ کرتا ہے اور دل ایسے مجلی ہوجاتا ہے جیسے کسی بلب کا روشن ہو جانا
سلام اس ہادی مرسل کو جس کی وساطت سے دل کی بتی روشن ہے. سلام اس مثال یسین کو جس کی وجہ سے دید کی بات چلی ہے. سلام اس دل حزین کو جس نے سفل سے احسن التقویم کی جانب جانے کا عندیہ دیا ہے.