فرخ منظور
لائبریرین
یار کے غم کو عجب نقش گری آتی ہے
پور پور آنکھ کی مانند بھری جاتی ہے
بےتعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں
کتنا کچھ جان کے یہ بےخبری آتی ہے
اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گُھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے
کتنا رکھتے ہیں وہ اس شہرِ خموشاں کا خیال
روز ایک ناؤ گلابوں سے بھری آتی ہے
زندگی کیسے بسر ہوگی کہ ہم کو تابش
صبر آتا ہے نہ آشفتہ سری آتی ہے
پور پور آنکھ کی مانند بھری جاتی ہے
بےتعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں
کتنا کچھ جان کے یہ بےخبری آتی ہے
اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گُھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے
کتنا رکھتے ہیں وہ اس شہرِ خموشاں کا خیال
روز ایک ناؤ گلابوں سے بھری آتی ہے
زندگی کیسے بسر ہوگی کہ ہم کو تابش
صبر آتا ہے نہ آشفتہ سری آتی ہے