طارق شاہ
محفلین
غزل
یاسمین حبیب
چاندنی رات میں مہتاب سُلگتا دیکھوں
نیند کی آگ میں اک خواب کو جلتا دیکھوں
آسماں پر کئی تارے ہیں مگر کچھ بھی نہیں
آسماں سے پرے اک نُور دَمکتا دیکھوں
کل، کہ دہلیز پہ ٹھوکر سے سنبھالا تھا جسے
آج اُس شخص کو دریا میں اُترتا دیکھوں
آرزو ہے کسی بچے کے کھلونے کی طرح
دل اُسی کانچ کی گڑیا سے بہلتا دیکھوں
راز کی بات سرِ بزم ہو افشا کیوں کر
ہاں مگر دل سے لہُو روز ٹپکتا دیکھوں
سینک لیتی ہُوں جگر درد کے انگاروں سے
رُوپ اِس آنچ کی حدّت میں سنْورتا دیکھوں
غم کہ ہر بار نئی شکل میں ڈھل جاتا ہے
میں تو خوابوں کو سرابوں میں بدلتا دیکھوں
آسماں پر کئی تارے ہیں مگر کچھ بھی نہیں
آسماں سے پرے اک نُور دَمکتا دیکھوں
کل، کہ دہلیز پہ ٹھوکر سے سنبھالا تھا جسے
آج اُس شخص کو دریا میں اُترتا دیکھوں
آرزو ہے کسی بچے کے کھلونے کی طرح
دل اُسی کانچ کی گڑیا سے بہلتا دیکھوں
راز کی بات سرِ بزم ہو افشا کیوں کر
ہاں مگر دل سے لہُو روز ٹپکتا دیکھوں
سینک لیتی ہُوں جگر درد کے انگاروں سے
رُوپ اِس آنچ کی حدّت میں سنْورتا دیکھوں
غم کہ ہر بار نئی شکل میں ڈھل جاتا ہے
میں تو خوابوں کو سرابوں میں بدلتا دیکھوں
یاسمین حبیب