طارق شاہ
محفلین
غزل
نِگاہِ بے زباں نے کیا اثر ڈالا برہمن پر
مِٹا ہے پیکرِ بے دست و پا کے، رنگ و روغن پر
رہا تا حشر احسانِ ندامت اپنی گردن پر
بجائے مے، ٹپکتا ہے زُلالِ اشک دامن پر
شرف بخشا دِلِ سوزاں نے مُجھ کو دوست دشمن پر
وہ دِل جِس کا ہر اِک ذرّہ ہے بھاری موم و آہن پر
نجانے پہلی منزِل برقِ سوزاں کی کہاں ہوگی
سِتم آباد کے خطّے میں، یا اُجڑے نشیمن پر
عجب کیا ہے، سحر تک آنکھوں ہی آنکھوں میں پی جائیں
قیامت ڈھائیں گے بدبیں جمالِ شمعِ روشن پر
زہے اِلزامِ آزادی، کہ حسرت رہ گئی دِل میں !
نشیمن سے نِکل کے بیٹھتے شاخِ نشیمن پر
نتیجہ کُچھ بھی ہو لیکن وہ اپنا کام کرتے ہیں
دِلِ بے مُدَّعا ہنستا ہے کیا شیخ و برہمن پر
بجائے نفسِ امّارادِلِ مجبُور کو مارا
گوارا کرلیا کیوں خُونِ انصاف اپنی گردن پر
عدو کیوں حضرتِ یاس آپ کا صبر آزما ہوتا
ارے یہ تہمتِ بےجا بجائے دوست و دشمن پر
میرزا یاسؔ، یگانہ، چنگیزیؔ
آخری تدوین: