امین شارق
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
محترم سید عاطف علی
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
محترم سید عاطف علی
یا خدا اونچی ہے تیری شان جو چاہے کرے
ہر جہاں کا رب ہے تُو سبحان جو چاہے کرے
بانٹتا ہے فائدے نقصان جو چاہے کرے
بادشاہِ وقت ہے سلطان جو چاہے کرے
معاف کردے یا کرے قربان جو چاہے کرے
لے لیا ہے آپ کا احسان جو چاہے کرے
میرے رب نے چھوٹ دی ہے حشر تک بہکائے گا
جلنا ہے آخر اسے شیطان جو چاہے کرے
لکھ دیا تقدیر میں اللہ نے سب اچھا بُرا
اب ہے اس کا اختیار انسان جو چاہے کرے
چاہےوہ دن رات کردے چاہےتو برسات کردے
وہ ہے ربِ مہر ربِ آسمان جو چاہے کرے
پیش ہے اولادِ آدم ربِ آقا کے حضور
فیصلے کا روز ہے رحمان جو چاہے کرے
حق تعالیٰ نے اجازت دی شفاعت کی انہیں
بخشوالے صاحبِ قرآن جو چاہے کرے
حکمِ رب تھا آب کو کفار سارے غرق ہو
کشتیء نوح کے سوا طوفان جو چاہے کرے
جنتی میوے چُنیں یا جام کوثر کے پئیں
عیش میں ہے صاحبِ ایمان جو چاہے کرے
جس کا جتنا وقت ہے وہ اتنا جی سکتا ہے بس
موت اک دن آنی ہے لقمان جو چاہے کرے
انس ذمہ دار ہے اپنی تباہی کا خود ہی
شہر تو ہے بس گیا ویران جو چاہے کرے
زندگی نے ورطہء حیرت میں ڈالا بار بار
اب تو عادت ہوگئی حیران جو چاہے کرے
یہ ہے دل یہ ہے جگر یہ ہے کلیجہ یہ ہے سر
یہ ہے خنجر اب میرا مہمان جو چاہے کرے
کیا بھلائی کوئی بھی باقی رہے گی اس جگہ؟
ہورہا ہو جس جگہ اعلان جو چاہے کرے
کاش یہ سن لے لبِ محبوب سے بھی ہم کبھی
آپ ہو شارؔق ہماری جان جو چاہے کرے
ہر جہاں کا رب ہے تُو سبحان جو چاہے کرے
بانٹتا ہے فائدے نقصان جو چاہے کرے
بادشاہِ وقت ہے سلطان جو چاہے کرے
معاف کردے یا کرے قربان جو چاہے کرے
لے لیا ہے آپ کا احسان جو چاہے کرے
میرے رب نے چھوٹ دی ہے حشر تک بہکائے گا
جلنا ہے آخر اسے شیطان جو چاہے کرے
لکھ دیا تقدیر میں اللہ نے سب اچھا بُرا
اب ہے اس کا اختیار انسان جو چاہے کرے
چاہےوہ دن رات کردے چاہےتو برسات کردے
وہ ہے ربِ مہر ربِ آسمان جو چاہے کرے
پیش ہے اولادِ آدم ربِ آقا کے حضور
فیصلے کا روز ہے رحمان جو چاہے کرے
حق تعالیٰ نے اجازت دی شفاعت کی انہیں
بخشوالے صاحبِ قرآن جو چاہے کرے
حکمِ رب تھا آب کو کفار سارے غرق ہو
کشتیء نوح کے سوا طوفان جو چاہے کرے
جنتی میوے چُنیں یا جام کوثر کے پئیں
عیش میں ہے صاحبِ ایمان جو چاہے کرے
جس کا جتنا وقت ہے وہ اتنا جی سکتا ہے بس
موت اک دن آنی ہے لقمان جو چاہے کرے
انس ذمہ دار ہے اپنی تباہی کا خود ہی
شہر تو ہے بس گیا ویران جو چاہے کرے
زندگی نے ورطہء حیرت میں ڈالا بار بار
اب تو عادت ہوگئی حیران جو چاہے کرے
یہ ہے دل یہ ہے جگر یہ ہے کلیجہ یہ ہے سر
یہ ہے خنجر اب میرا مہمان جو چاہے کرے
کیا بھلائی کوئی بھی باقی رہے گی اس جگہ؟
ہورہا ہو جس جگہ اعلان جو چاہے کرے
کاش یہ سن لے لبِ محبوب سے بھی ہم کبھی
آپ ہو شارؔق ہماری جان جو چاہے کرے