یا خدا کچھ تو درد کم کر دے - ارادھنا پرساد

کاشفی

محفلین
غزل
(ارادھنا پرساد)
یا خدا کچھ تو درد کم کر دے
یا جدا مجھ سے میرا غم کر دے

بڑھ رہی دوریوں کو کم کر دے
اور اس میں کو آج ہم کر دے

سجدہ کرتے رہیں قیامت تک
چاہے تو سر مرا قلم کر دے

کاش قسمت میں چھت میسر ہو
مولیٰ میرے ذرا کرم کر دے

میرے خوابوں کا آئینہ تم ہو
رشتہ کو دل سے محترم کر دے

تم سے ہی تو جڑے ہیں رشتے مرے
مل کے اس کو جنم جنم کر دے
 

کاشفی

محفلین
یہ کہاں کہاں سے غزلیں ڈھونڈھ لاتے ہو کاشفی ۔ ان غیر مسلم شعراء کا تو میں نے ہندوستان میں بھی نام تک نہیں سنا!!

میں نے بھی نہیں سنا تھا پہلے۔۔لیکن ایک دن یہ غزل پڑھتے ہوئے خود سے سن لیا۔ ارادھنا پرساد۔ پھر سوچا کہ شیئر کروں۔ ان کی غزلیں اچھی ہوتی ہیں۔۔۔

آج کی تاریخ میں انساں مکمل کون ہے
یہ پتہ کیسے چلے کہ کس کا مقتل کون ہے

پاس ہی رہتا وہ ہر دم سحر ہو یا ہو نشہ
خوشبو جیسا ہے ہواؤں میں مسلسل کون ہے

سادگی کی اپسرا وہ یا ہے کوئی ساحری
ہے غزل یا ہے وہ صندل شوخ چنچل کون ہے

اس چھلکتے سے سمندر میں نشہ ہے آج تک
جھوم کر برسا ہے پاگل اُف یہ بادل کون ہے

بھائی بھائی لڑ رہے ہیں اس سیاسی کھیل میں
صاف لکھا ہے یہ قرآں میں کہ افضل کون ہے

بےخبر ہیں پنچھی ندیاں سرحدوں کی روک سے
بے سبب ہی ملک میں کرتا یہ دنگل کون ہے

جگنوؤں کو جلتے دیکھا تو سمجھ آیا مجھے
کیسا سناٹا ہے جنگل کرتا منگل کون ہے
 
Top