یا مریم البکر (مسیحی سرود)

حسان خان

لائبریرین
یہ سرود (hymn) مجھے فلسطینی مسیحی گلوکارہ ریم بنا کے فیس بک صفحے پر نظر آیا تھا۔ وہاں اس پر یہ متن درج تھا:
"فلسطینی شہداء کی ماؤں کے نام۔۔۔
مریمِ عذراء کی یاد میں کہ جو دنیا کے تمام شہداء و مظلومین کی ماں ہے۔۔۔۔
اور جس کا پسر عیسیٰ فلسطین کا پہلا انقلابی اور شہید تھا۔"
فلسطین کی مسیحی آبادی کل فلسطینی آبادی کا پانچ فیصد ہے لیکن فلسطینی مسیحی فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں اپنے مسلمان برادران کے ہمراہ پیش پیش ہیں۔ پچھلی صدی میں فلسطین کی سب سے مؤثر و مدلل آواز اور عظیم مفکر ادوارد سعید بھی فلسطین کے مسیحی گھرانے ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ لہذا میں مقاوم فلسطینی قوم کو اور اس کی تمام مسیحی آبادی کو عقیدتوں بھرا سلام پیش کرتا ہوں۔

یہ انہتائی خوبصورت اور دلکش سرود مصر کے قبطی مسیحیوں کے ایک موسیقار گروہ نے گایا ہے۔ چونکہ عربی زبان کا اسلام اور مسلمانوں سے بہت قریبی تعلق رہا ہے اس لیے قبطی مسیحی اپنی عبادات کے لیے عربی سے گریز کرتے تھے اور قدیم قبطی زبان کا استعمال کیا کرتے تھے اور ابھی تک قبطی کلیسا کی رسمی عبادتی زبان قبطی ہی ہے۔ لیکن پچھلی صدی سے اب قبطی مسیحیوں نے بھی آہستہ آہستہ اپنے مذہبی امور میں عربی زبان کا استعمال کرنا شروع دیا ہے۔
http://playit.pk/watch?v=ncyiRIHKsbs

www.youtube.com/watch?v=ncyiRIHKsbs

متن:
یا مریم البکر فقتی الشمس والقمرا
و کل نجم بأفلاک السماء سری
یا نجمۃ الصبح شعی فی کنائیسنا
ونوری عقلنا والمسع والبصر
یا أم یسوع یا أمی ویا أملی
لا تہملینی متی منی الخطا صدرا
أنت ملاذی وعونی کلما ضعفت
نفسی و جبرا لقلبی کلما انکسرا

ترجمہ:
اے مریمِ باکرہ! تم شمس و قمر اور چرخِ گردوں پر گردش کرنے والے تمام نجوم پر فوقیت رکھتی ہو۔
اے صبح کے ستارے! ہمارے معابد میں روشنی کر دو اور ہماری عقلوں، سماعتوں اور بصارتوں کو منور کر دو۔
اے عیسیٰ کی ماں، اے میری ماں اور اے میری امید! جب مجھ سے خطائیں‌ صادر ہوں تو مجھے بھولنا مت!
تم میری جائے امید ہو اور میری مددگار ہو۔۔۔ اُس وقت کہ جب میرا نفس ضعف کا شکار ہو جاتا ہے اور تم میرے قلب کو جوڑتی ہو جب کہ یہ کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔
(پہلے تین بندوں کا ترجمہ نیٹ کی مدد سے جبکہ چوتھے بند کا ترجمہ محمود احمد غزنوی بھائی کی وساطت سے پیش ہے۔)

اس مسیحی سرود سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے اور ہمارے اجداد و اسلاف کے عزیز مذہب اسلام اور مسیحیت میں کتنی ساری مشترکات ہیں۔ یقیناً ہم لوگ بغیر کسی مسئلے کے باہمی احترام کے ساتھ اس دنیا میں زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ یہی بات یہودیوں کے ضمن میں بھی کہی جا سکتی ہے۔

زبیر مرزا صائمہ شاہ
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
فکر نہ کریں جس طرح موصل سے عیسائیوں کا صفایہ کر دیا ہے اسی طرح پورے مشرق وسطی سے بھی ہو جائے گا۔ :(
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے کہ مشہورِ زمانہ لیلٰی خالد بھی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھیں؟
اِدھر ہمارے یارانِ تیزگام کا حال کچھ ایسا ہے کہ اخباروں میں بندوق بردار فلسطینی مجاہدہ لیلیٰ خالد کی تصویر دیکھتے ہی اسلامی تاریخی ناول کے ہیرو کی طرح گھوڑے کا رخ یروشلم کی طرف کر کےاس زور کی ایڑ لگاتے ہیں کہ گھوڑا بلبلا اُٹھتا ہے، لیکن آدھے راستے میں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ خاتون تو کرسچن ہے۔۔۔ سارا جوش و خروش دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور شہسوار وطن کی طرف باگ موڑ لیتا ہے۔

یاسرعرفات اِن کی نگاہوں میں اسی وقت تک معتبر و متبرک تھا جب تک ان کی بیگم کا راز اِن پر فاش نہ ہوا تھا۔۔۔ جس روز معلوم ہوا کہ خاتون عیسائی ہیں، یاسر عرفات کا سارا جہاد مٹی میں مِل گیا۔
بشکریہ
عارف وقار
 

زبیر مرزا

محفلین
انسان کا اولین مذہب اخلاق اور حسنِ سلوک ہے باہمی رواداری اور احترام کا ہے- سارے مسائل برداشت کی کمی
کے باعث ہیں- بہت عمدہ انداز ہے خراجِ عقیدت کا-
 

حسان خان

لائبریرین
مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے کہ مشہورِ زمانہ لیلٰی خالد بھی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھیں؟
ممکن ہے کہ وہ مسیحی ہو، لیکن میں نے چند جگہوں پر پڑھا تھا کہ وہ مسلم گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ بہرحال، وہ مارکسی عرب قوم پرست گروہ کی رکن تھی، اور قوی احتمال ہے کہ اس کے نزدیک مسلم مسیحی کا سوال اہمیت بھی نہ رکھتا ہو۔ :)
 
Top